سپریم کورٹ کا 9 رکنی لارجر بینچ کیسے ٹوٹا؟ مکمل احوال

جمعرات 22 جون 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

سپریم کورٹ آف پاکستان میں عام شہریوں کے خلاف مقدمات فوجی عدالتوں میں چلائے جانے کے خلاف دائر درخواستوں پر 9 رکنی لارجر بینچ نے کارروائی شروع کی تو  سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ بینچ سے الگ ہوگئے۔ ان کے بعد جسٹس سردار طارق مسعود بھی اٹھ کر واپس چلے گئے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ  نے کہا کہ میں اس بینچ میں بیٹھنے سے معذرت نہیں کر رہا بلکہ میں اس کو بینچ تسلیم ہی نہیں کرتا۔ نامزد چیف جسٹس، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ یہ کہتے ہوئے بینچ سے اٹھ گئے۔

انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ بھی قانون ہے جسے قانون بننے سے پہلے ہی معطل کر دیا گیا۔ میری دانست میں اس ایکٹ کے بعد 3 رکنی ججز کمیٹی کی مشاورت کے بغیر بننے والے تمام بینچز غیر قانونی ہیں۔ جب تک اس ایکٹ کا فیصلہ نہیں ہو جاتا میں کسی بینچ کا حصہ نہیں بن سکتا کیونکہ میں نے آئین کے تحفظ کا حلف اٹھایا ہوا ہے۔

ایک موقع پر سینئر وکیل چوہدری اعتزاز احسن نے کہا کہ یہ بہت اہم معاملہ ہے، آپ اس بینچ سے اٹھ کر نہ جائیں۔

جس پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ بولے’ آپ کہنا چاہ رہے ہیں کہ ایک بار آئین توڑ دیں، بعد میں دیکھ لیں گے۔‘

چوہدری اعتزاز احسن بولے کہ ایک گھر میں بھی لوگوں کے درمیان کشمکش ہو جاتی ہے۔ اس پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ بولے’ یہ گھر نہیں ہے بلکہ سپریم کورٹ آف پاکستان ہے جو آئین کے تحت کام کرتی ہے۔،

درخواست گزار کے وکیل سردار لطیف کھوسہ نے فوجی عدالتوں کے خلاف درخواست پر دلائل دینے کی کوشش کی اور کہا کہ یہ 25 کروڑ لوگوں کے انسانی حقوقِ کا معاملہ ہے۔ اس پر جسٹس سردار طارق مسعود نے کہا کہ 1956 کا آئین بنا ہوا ہے، پھر 1973 کا آئین بھی آیا، آپ کو اب انسانی حقوق کی خلاف ورزی یاد آئی ہے؟

آج جب شہریوں کے فوجی عدالتوں مینں مقدمات کے خلاف درخواستوں پر سماعت شروع ہوئی تو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا’ میں پاکستان کی قومی زبان میں بات کروں گا۔ آئین کا آرٹیکل 175(2) عدالتوں کو اختیار سماعت دیتا ہے، صرف آئین اور قانون عدالتوں کو اختیار سماعت دیتا ہے۔ میرے حلف کے مطابق میں آئین اور قانون کے مطابق فیصلے دوں گا۔ ایک قانون پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ ہے، اس میں لکھا ہے  کہ بینچز کی تشکیل چیف جسٹس اور سینئر موسٹ ججز کریں گے۔ کل مجھے تعجب ہوا جب 4 کیسز مجھے بھیجے گئے۔

انہوں نے کہا’میں پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ پر کوئی بات نہیں کروں گا بلکہ تکنیکی بات کروں گا‘۔

اس کے بعد انہوں نے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کی معطلی کے بارے میں 8 رکنی بینچ کا فیصلہ پڑھا۔ اور کہا’ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کا کوئی فیصلہ نہیں ہوا اور میں اس بینچ کا حصہ نہیں ہوں، اس لیے اس پر رائے نہیں دوں گا۔ میں نے 5 مارچ کو ایک بینچ کی سربراہی کرتے ہوئے فیصلہ دیا کہ ازخود اختیارات کے تحت مقدمات پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے فیصلے تک نہ سنے جائیں، لیکن مجھے تعجب ہوا کہ سپریم کورٹ رجسٹرار نے ایک سرکلر جاری کیا جس میں کہا گیا کہ میرے جاری کردہ فیصلے کو نظر انداز کیا جائے۔

یہ ہے سپریم کورٹ کی وقعت!! جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے مزید کہا’ پھر6 مارچ کو ایک بینچ تشکیل دیا جاتا ہے، جس میں کہا جاتا ہے کہ سپریم کورٹ اس حکم نامے کو واپس لے رہی ہے‘۔

یہاں یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ حافظ قرآن کو اضافی نمبروں والے مقدمے میں جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے ازخود اختیارات مقدمات کی سماعت پر حکم امتناع جاری کیا تھا لیکن اس کے بعد جسٹس اعجاز الاحسن کی سربراہی میں 6 رکنی بینچ تشکیل دیا گیا جس نے حافظ قرآن کو اضافی نمبر دئیے جانے والا مقدمہ نمٹا دیا اور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا فیصلہ ختم کر دیا۔

اس پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ میرے جاری کردہ حکم نامے کو ختم کر دیا گیا اور جو بینچ تشکیل دیا گیا۔ نظرثانی میں اس طرح بینچ تو تشکیل نہیں دئیے جاتے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ اس کے بعد میں نے ایک نوٹ تحریر کیا جس میں لکھا کہ بینچ کی تشکیل غیر قانونی تھی۔ انہوں نے کہا کہ 16 مئی کو چیف جسٹس نے مجھ سے دریافت کیا کہ کیا میں چیمبر ورک کرنا چاہتا ہوں؟ چونکہ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ پر حکم امتناع ہے، میں نے فیصلہ کیا کہ خود کو کشمکش میں نہ ڈالوں اور چیمبر ورک تک محدود ہو جاؤں۔

انہوں نے کہا کہ میں نے اس پر ایک نوٹ بھی تحریر کیا جو سپریم کورٹ کی ویب سائٹ سے ہٹا دیا گیا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp