فوجی عدالتوں میں سویلین کے ٹرائل کیخلاف سپریم کورٹ میں دائر درخواستوں کی دوبارہ سماعت کے اختتام پر چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ پورے معاشرے میں خوف و ہراس پھیل گیا ہے۔
انہوں نے اٹارنی جنرل آف پاکستان سے سوال کیا کہ ایم پی او، سی پی سی، آرمی ایکٹ کے تحت تمام گرفتار شدگان کی فہرست مہیا کی جائے، گرفتار شدگان کے مقدمات کی پیروی کرنے والے وکلا کو ہراساں نہ کیا جائے، انہوں نے کہا کہ انہیں امید ہے کہ آرمی ایکٹ کے تحت ابھی تک ٹرائل کا آغاز نہیں کیا گیا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ تمام گرفتار شدہ صحافیوں کو رہا کیا جانا چاہیے۔ اب یہ لوگوں کی آزادی کا معاملہ ہے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس سردار طارق مسعود کے بینچ سے علیحدہ ہونے کے بعد جب بینچ ٹوٹ گیا تو سینیئر وکلا سردار لطیف کھوسہ اور چوہدری اعتزاز احسن چیف جسٹس سے ملے جس کے بعد بینچ کی تشکیل نو کی گئی اور چیف جسٹس کی سربراہی میں 7 رکنی بینچ نے مقدمے کی سماعت کی۔
سماعت شروع ہوئی تو جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ اگر کسی کو اس بینچ میں اعتراض ہے تو پہلے بتا دیں، میرا جسٹس جواد ایس خواجہ سے ایک تعلق ہے اس پر چوہدری اعتزاز احسن اور اٹارنی جنرل بولے کہ کسی کو اس بینچ پر کوئی اعتراض نہیں۔
درخواست گزار اعتزاز احسن کے وکیل سردار لطیف کھوسہ نے کہا کہ ملک میں آرٹیکل 245 کا نفاذ کیا گیا، اس پر جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ وفاقی حکومت نے آرٹیکل 245 کےنفاذ کےخاتمے کا نوٹیفیکیشن کر دیا ہے۔
چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کے وکیل شعیب شاہین نے عدالت کو بتایا کہ ہماری درخواست پر کچھ اعتراضات عائد کیے گئے ہیں، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ درخواست میں کچھ سیاسی نوعیت کی استدعائیں موجود تھیں، ابھی ہم وہ سننا نہیں چاہتے۔ ابھی فوکس ملٹری کورٹس ہیں۔
اعتزاز احسن کے وکیل لطیف کھوسہ نے کہا کہ فارمیشن کمانڈرز کانفرنس میں کہاگیا 9مئی کے ناقابل تردید شواہد ہیں، جس پر چیف جسٹس نے سوال کیا کہ پریس ریلیز میں کہاگیا ناقابل تردید شواہد موجود ہیں ٹرائل ملٹری کورٹ میں ہوگا؟ اس پر سردار لطیف کھوسہ نے کہا کہ جی پریس ریلیز میں یہ ہی کہا گیا۔
چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کیا سویلینز کا ٹرائل فوجی عدالتوں میں چل رہا ہے؟ اس پر لطیف کھوسہ نے کہا بالکل سویلینز کا ٹرائل فوجی عدالتوں میں شروع ہوچکا ہے۔ سویلینز کا ٹرائل یا تو کوئی کرنل کرے گا یا پھر بریگیڈیئر۔
لطیف کھوسہ نے کہا انسداد دہشتگردی عدالت سے درخواست کر کے کیسز فوجی عدالتوں میں منتقل کرنے کا کہا گیا ہے۔ جس نے بھی تنصیبات پرحملہ کیا ان سے میری کوئی ہمدردی نہیں ہے، جس نے جوجرم کیا ہے اس کوقانون کے مطابق سزا ملنی چاہیے۔
جسٹس عائشہ ملک نے سوال کیا کہ کیا اپ نے اپنے دستاویزات میں کوئی ایف آئی آر شامل کی ہے جو ملثری کورٹس کو بھیجی گئی ہے۔ سردار لطیف کھوسہ نے کہا کہ کہیں بھی کسی بھی حملے کے ذمہ داروں کو کٹہرے میں لانا چاہیے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا یہ سب بیانات ہیں ہمیں دکھائیں کہ ٹرائل کہاں شروع ہوا، اس پر لطیف کھوسہ نے انسداد دہشتگردی عدالتوں سے ملزمان کی حوالگی کے فیصلے پڑھنا شروع کردیے، لطیف کھوسہ نے کہا کہ ملک بھر میں چار ہزار مشکوک افراد کو گرفتار کیا گیا۔
اس پر جسٹس یحییٰ آفریدی نے سوال کیا کہ جن افراد کے خلاف کارروائی شروع کی گئی کیا انہوں نے ملٹری ایکٹ کے تحت چیلنج کیا؟ اس پر لطیف کھوسہ نے کہا میں ان ملزمان کی نمائندگی نہیں کرتا مجھے معلوم نہیں۔
جسٹس عائشہ ملک نے سوال کیا کہ کیا وہ فیصلے چیلنج ہو سکتے ہیں، اس پر لطیف کھوسہ بولے کس کی ہمت ہے کون وہ چیلنج کرے گا، لطیف کھوسہ نے ملٹری کورٹ کے حوالے کئے گئے ملزمان پر درج ایف آئی آر پڑھی اور کہا کہ پوری ایف آئی آر پڑھ لیں کہیں ملٹری ٹرائل کے رولز کا اطلاق نہیں ہوتا۔
جسٹس یحییٰ آفریدی نے سردار لطیف کھوسہ سے کہا کہ مشکل یہ ہے کہ آپ نے درخواست کے ساتھ جو چیزیں لگائیں وہ مکمل نہیں، سردار لطیف کھوسہ نے کہا کہ میں اور اعتزار احسن ملزم تو نہیں ہم 25 کروڑ عوام کی فکر میں آئے ہیں۔
جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا ملک بھر سے کتنے لوگوں کو ملٹری کورٹس کے تحت ٹرائل کے لیے بھیجا گیا، لطیف کھوسہ نے کہا کسی جگہ سے 10 کسی جگہ سے 20 ملزمان کو بھیجا گیا۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ کیا اے ٹی سی میں ملزمان کی ملٹری حوالگی سے پہلے کوئی بحث ہوئی؟ اس پر لطیف کھوسہ نے کہا کہ کئی جگہوں پر نہ ملزمان عدالت میں موجود تھے نہ ان کے وکیل۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا تو کیا پراسیکیوشن ڈیپارٹمنٹ ایسے فیصلے کو چیلنج نہیں کرے گا؟ اس پر لطیف کھوسہ نے کہا کہ یہی میرا کیس یہ ہے کہ پرائیویٹ لوگوں کا کیس ملٹری کورٹس میں نہیں چل سکتا۔
جسٹس منیب اختر نے سوال اٹھایا کہ کیا آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت کیس اے ٹی سی میں چل سکتا ہے؟ اس پر لطیف کھوسہ نے جواب دیا کہ جی اے ٹی سی کورٹ میں چل سکتا ہے۔
جسٹس عائشہ ملک نے سوال اٹھایا کہ ملٹری کورٹس کو تو حوالگی ان کے اپنے ادارے کے ملازمین کی ہی ہو سکتی ہے، سویلین کی حوالگی تو نہیں ہو سکتی؟ اس پر لطیف کھوسہ نے کہا یہی ہمارا کیس ہے کہ سویلین کے ٹرائل ملٹری کورٹ نہیں کر سکتی۔
جسٹس منیب اختر نے سوال اٹھایا کہ کیا اے ٹی سی جج فیصلہ دے سکتا ہے کہ کیس آرمی ایکٹ کا بن سکتا ہے یا نہیں، جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کہ آرمی ایکٹ کے تحت سزا کم ہے اور عام قانون میں سزا زیادہ ہے، وہ پوچھ رہے ہیں کہ آپ ادھر آنا چاہتے ہیں یا ادھر جانا چاہتے ہیں۔جسٹس منصور علی شاہ کے ریمارکس پر قہقہے لگے گئے۔
چیف جسٹس نے لطیف کھوسہ کے دلائل کو مختصر کرتے ہوئے کہا کہ آپ کہتے ہیں ملٹری کورٹس کیخلاف اپیل کا حق نہیں ہوتا، آپ کہہ رے ہیں کہ ملٹری کورٹس کا فیصلہ پبلک نہیں ہوتا اس کی وجوہات واضح نہیں ہوتیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ آپ آگے چلیں اور دلائل ختم کریں۔
جسٹس عائشہ ملک نے سوال اٹھایا کہ آرمی ایکٹ تو آرمڈ فورسز میں کام کرنے والوں کے متعلق ایکٹ ہے، کیا آپ نے اس ایکٹ کو چیلیج کیا؟ عدالت نے کل فیصل صدیقی دلائل طلب کرتے ہوئے سماعت ملتوی کردی۔