مقامی مؤرخ مولوی نور احمد چشتی نواب سعد اللہ خان کے بارے میں لکھتے ہیں کہ وہ 1591 میں چنیوٹ کے نواحی گاؤں ’پتراکی‘ کے ایک غریب گھرانے میں پیدا ہوئے اور کسمپرسی کی حالت میں علم حاصل کرنے کے لیے پہلے لاہور اور پھر عازم دہلی ہوئے۔
دہلی میں سعد اللہ خان نے ناگفتہ بہ حالات کے باوجود قرآن حفظ کرنے کے ساتھ دیگر علوم میں بھی مہارت حاصل کی یہاں جلد ہی ان کی شہرت دہلی کے دربار تک پہنچ گئی۔ بعدازاں اس وقت کے مغل بادشاہ شاہ جہان نے انہیں اپنا ’صدر الصدور‘ (وزیر اعظم) مقرر کر دیا۔
شاہی مسجد نواب سعد اللہ نے ذاتی خرچ پر بنوائی
نواب سعد اللہ خان نے بطور وزیراعظم شاہی خزانے کا انتظام وانصرام بھی سنبھال لیا۔انہوں نے شاہ جہان کی خواہش پر جامع مسجد دہلی کی تعمیر اپنی نگرانی میں مکمل کروائی۔
جامع مسجد دہلی کی تعمیر کے بعد ان کا دینی جذبہ انہیں واپس اپنے گاؤں تک لے آیا جہاں انہوں نے اپنے ذاتی خرچ پر چنیوٹ میں ایک تاریخی مسجد تعمیر کروائی جسے اب شاہی مسجد کہا جاتا ہے۔
شاہی مسجد کی تعمیر میں سنگ آبری استعمال ہوا
شاہی مسجد چنیوٹ کے سنگ آبری سے بنائی گئی ہے، اس مقامی پتھر کا فاختائی رنگ سرد راتوں میں دور سے چمکتا اور جھلملاتا نظر آتا ہے۔
شاہی مسجد کے موجودہ امام حافظ محمد جعفر نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ لاہور کی بادشاہی مسجد اور چنیوٹ کی شاہی مسجد دہلی کی جامع مسجد کے ڈیزائن پر تعمیر کی گئی ہیں۔
مزید پڑھیں
انہوں نے بتایا کہ ’مسجد کی تعمیر میں مخصوص چنیوٹی پتھر استعمال کیا گیا ہے۔ اسی پتھر کو تراش کر اس کے ستون اور دیواریں بھی تعمیر کی گئی ہیں۔
شاہی مسجد کا ہال 50 ستونوں پر کھڑا ہے
انہوں نے تفصیل بتائی کہ مسجد کے مرکزی ہال میں ایک قطار کے اندر 8ستون ہیں جب کہ اندر کا پورا ہال تقریباً 50 ستونوں پر قائم ہے۔ باہر والے ہال میں ایک خوبصورت فوارہ بھی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’مسجد کے مرکزی ہال کی شرقاً غرباً چوڑائی تقریباً 108 فٹ اور شمالاً جنوباً لمبائی تقریبا97 فٹ ہے۔ مسجد کے سامنے اور بائیں جانب سرکاری دفاتر ہیں جب کہ پچھلی جانب دکانیں ہیں۔‘
شاہی مسجد کی تعمیر میں قریباً 9 سال لگے
چنیوٹ کی شاہی مسجد کے خادم محمد شاہد نے بتایا کہ اس مسجد کی تعمیر 1646 سے 1655 تک جاری رہی، اس کی تکمیل میں قریباً 9 سال کا عرصہ لگا۔ مسجد کی چھت پر 3گنبد بنائے گئے ہیں جب کہ چاروں کونوں پر’سنگ آبری‘ سے بنے ہوئے مینار ہیں ۔
مسجد کی چھت اور گنبد دیکھنے والوں کو مہبوت کر دیتے ہیں
مسجد کے مرکزی ہال کی چھت اور گنبدوں کے اندرونی حصّوں پر فریسکو ورک 3 صدیوں سے زیادہ کا عرصہ گزرنے کے باوجود آج بھی دیکھنے والوں کو مبہوت کر دیتا ہے۔ مسجد کے مرکزی ہال، برآمدوں اور دروازوں کو مغل دور کی نقش نگاری سے سجایا گیا ہے جن کی چمک دمک آج بھی جاذب نظر ہے۔
شرقپور شریف سے شاہی مسجد کی زیارت کے لیے آنے والے ایک شہری محمد رمضان نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ’مسجد کی ہر چیز اعلیٰ کاری گری اور بڑی مہارت سے تیار کی گئی ہے۔‘ ستونوں اور محرابوں کے پتھروں کی کٹائی بہت خوبصورتی سے کی گئی ہے۔ اس وقت کے کاریگر بہت ماہر تھے جنہوں نے ہاتھوں سے شاندار کام کیا ہے جب ٹیکنالوجی یا مشینری اتنی زیادہ میسر نہیں تھی۔
انہوں نے بتایا کہ وہ خود بھی تعمیرات کے شعبے سے وابستہ ہیں اور جس اچھے کاری گری سے شاہی مسجد کے ستون زمین سے لے کر اونچائی تک پتھر سےتیار کیے گئے ہیں وہ اپنی مثال آپ ہے۔
مسجد کا ہر ستون 7 فٹ کا ایک پورا پتھر تراش کر بنایا گیا
ان کا کہنا ہے کہ ’ہر ایک ستون 7فٹ کا ایک پورا پتھر ہے جسے پہلوؤں سے تراش کر تیار کیا گیا ہے یہ ایک بہت بڑی مہارت کا کام ہے۔ آج مشین سے بھی اتنا اچھا کام کرنا ممکن نہیں ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ آج اس طرح کی کاری گری سے کوئی چیز بنانا بہت مشکل ہے اس لیے حکومت کو چاہیے کہ اس تاریخی مسجد کی دیکھ بھال کا بندوبست کرے۔
ان کا کہنا ہے کہ اس کی چمک دمک اب کچھ مانند پڑ گئی ہے۔ بہتر دیکھ بھال سے یہ پتھر شیشے کی طرح چمک بھی سکتا ہے۔
حکومت کو اس تاریخی ورثے کے تحفظ کے لیے اقدامات اٹھانا ہوں گے
حکومت کو اس طرح کی تاریخی عمارتوں کا بہت زیادہ خیال رکھنا چاہیے اور یہ تو اللہ کا گھر ہے۔ اللہ کے گھر سے تو بہت زیادہ نسبت رکھنی چاہیے جہاں ہزاروں نمازی نماز پڑھتے ہیں۔‘
واضح رہے کہ شاہی مسجد کی بحالی کا کام پہلی مرتبہ محکمہ اوقاف کے زیر اہتمام 1972 میں شروع کیا گیا جو 1975 تک مکمل ہونے میں 3 سال لگے ۔ بحالی کے اس کام پر اس وقت 10 لاکھ 76 ہزار روپے خرچ ہوئے تھے۔
بعدازاں 2013 میں بھی اس تاریخی مسجد کی بحالی و مرمت پر 60 لاکھ روپے سے زیادہ خرچ کیے گئے۔ مسجد کی دھندلاتی شان وشوکت بحال کرنے اور آنے والی نسلوں کے لیے اس ثقافتی ورثے کے تحفظ کے لیے اب بھی بڑے پیمانے پر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔