اسلام آباد ہائیکورٹ میں جسٹس طارق محمود جہانگیری نے شیخ رشید کی درخواستوں پر سماعت کی، وکیل شیخ رشید نے موقف اپنایا کہ عدالت نے تھانہ آبپارہ طلبی سمن میں مزید کارروائی سے روکا تھا لیکن پولیس نے اسی درخواست پر مقدمہ درج کرکے گرفتار کر لیا ۔
شیخ رشید احمد کے وکیل کا کہنا تھا میرے موکل کے خلاف ایک اور مقدمہ کراچی میں درج کیا گیا جب کہ وہ پولیس حراست میں تھے، جسٹس طارق محمود جہانگیری نے ریماکس دیے کہ بیان دینے کی جگہ پولی کلینک اسپتال ہے تو کراچی میں مقدمہ کیسے درج ہوگیا؟ ایک ہی وقوعہ پر مختلف شہروں میں ایف آئی آر کیسے ہو سکتی ہے؟
سابق وزیر داخلہ کے وکیل نے مری مقدمے کا ذکر کیا تو عدالت نے پوچھا کہ تینوں مقدمات میں گرفتاری ہوچکی ہے؟ وکیل شیخ رشید نے بتایا کہ صرف ایک مقدمے میں گرفتاری ہوئی ہے، جسٹس طارق محمود جہانگیری نے ریماکس دیے کہ قانون تو یہ کہتا ہے جب ایک مقدمے میں گرفتاری ہو تو باقی میں بھی ہو جاتی ہے۔
وکیل نے عدالت کو بتایا کہ ان کے موکل شیخ رشید کو نامعلوم مقام پر منتقل کرکے سیاسی سوالات کئے گئے، اس پر جسٹس طارق محمود جہانگیری نے کہا سمجھ نہیں آرہی یہ سلسلہ کہاں رکے گا، انہوں نے پی ٹی آئی دور کے ایک مقدمے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ذرا سوچیں اگر خاتون سیکرٹری انفارمیشن کو بڈھ بیر پولیس گرفتار کرکے لے جاتی تو کیا ہوتا؟
عدالت نے موچکو اور لسبیلہ میں درج مقدمات پر کارروائی سے روکتے ہوئے بار کونسلز، اٹارنی جنرل اور ایڈووکیٹ جنرل کو نوٹسز جاری کر دئیے سماعت جمعرات 9 فروری تک کیلئے ملتوی کر دی ۔