سپریم کورٹ کے 7 رکنی بینچ نے چیئرمین پی ٹی آئی، سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ، معروف قانون دان اعتزاز احسن اور سول سائٹی کی جانب سے عام شہریوں کے مقدمات آرمی ایکٹ کے تحت فوجی عدالتوں میں چلانے کے خلاف درخواستوں پر سماعت کی۔ آج کی سماعت میں سول سوسائٹی کے وکیل فیصل صدیقی نے بینچ کے روبرو دلائل مکمل کئے۔ پھر اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے اپنے دلائل میں 9 مئی کے واقعات کے بعد ملک بھر میں زیر حراست افراد کے اعدادوشمار پیش کئے۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ 102 افراد فوج کی تحویل میں ہیں۔ کیس کی سماعت 26 جون صبح ساڑھے 9 بجے تک ملتوی کر دی گئی ہے۔
سپریم کورٹ کے 7 رکنی لارجر بینچ چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے علاوہ جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منصور شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس سید مظاہر علی اکبر اور جسٹس عائشہ ملک پر مشتمل ہے۔
آرمی ایکٹ قانون کو بدنیتی کے تحت استعمال کیا جاتا ہے، وکیل سول سوسائٹی فیصل صدیقی
سول سوسائٹی کے وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ میں اس پر دلائل نہیں دوں گا کہ سویلین کا ٹرائل آفیشل سیکریٹ ایکٹ کے تحت ملٹری کورٹس میں نہیں ہو سکتا، میری درخواست باقی درخواستوں سے کچھ الگ ہے۔ یہ بھی نہیں کہتا کہ ملٹری کورٹس کے ذریعے ٹرائل سرے سے غیر قانونی ہے، میں یہ بھی نہیں کہوں گا کہ 9 مئی کو کیا ہوا کیا نہیں، سویلین کے ٹرائل کی ماضی میں مثالیں موجود ہیں۔
فیصل صدیقی نے کہا کہ فوجی عدالتوں میں فوج داری ضابطے کے تحت کارروائی نہیں ہو سکتی، اسے چیلنج نہیں کیا، میں نے کسی ملزم کی بریت کو چیلنج نہیں کیا، ملزمان کو فوج کے حوالے کرنے کے عمل میں مخصوص افراد کو چنا گیا، آرمی ایکٹ قانون کو بدنیتی کے تحت استعمال کیا جاتا ہے، عدالت میں جا کر کہا گیا 15 لوگوں کو حوالے کر دیں، جن افراد کا انسداد دہشت گردی عدالت میں ٹرائل ہو گا ان کو اپیل کا حق ملے گا۔
فیصل صدیقی کا کہنا تھا کہ جن کا ٹرائل ملٹری کورٹس میں ہوگا انہیں اپیل کا حق حاصل نہیں، میرا مدعا یہ ہے کہ تمام ملزمان میں سے چند کے ساتھ الگ سلوک ہوا، ایک ایف آئی آر میں 60 ملزمان ہیں تو 15 ملٹری کورٹس کو دیے جاتے ہیں، ایف آئی آر میں جو الزامات ہیں ان پر 3 الگ طرح کے ٹرائل ہو سکتے ہیں، میرا دوسرا نکتہ فیئر ٹرائل کا ہے، ایک الزام پر ٹرائل کے بعد کچھ لوگوں کے پاس اپیل کا حق ہوگا اور کچھ کے پاس نہیں۔
کن وجوہات کی بنا پر سویلینز کا ٹرائل آرمی ایکٹ کے تحت کیا جاتا رہا ہے؟ جسٹس عائشہ ملک
فیصل صدیقی نے کہا کہ سپریم کورٹ کے 5 فیصلے موجود ہیں جو آرمی ٹرائل سے متعلق ہیں، 1998 میں ملٹری کورٹس کے خلاف فیصلہ آیا، ملٹری کورٹس کے خلاف فیصلے میں آرمی ایکٹ کو زیر بحث نہیں لایا گیا۔ جسٹس عائشہ ملک نے استفسار کیا کہ دوسرے مقدمات میں آرمی ایکٹ سے متعلق کیا پرنسپل سیٹ کیا گیا ہے؟ فیصل صدیقی نے کہا کہ بہت کم ایسا ہوا کہ سول کورٹس کو بائی پاس کیا گیا ہو، جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ کن وجوہات کی بنا پر سویلینز کا ٹرائل آرمی ایکٹ کے تحت کیا جاتا رہا ہے؟ فیصل صدیقی نے لیاقت حسین، سعید زمان اور ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن کے کیسز کا حوالہ دیا، اس پر جسٹس عائشہ ملک نے پوچھا کہ کون سے ایسے مخصوص حالات ہیں جن میں ملٹری کورٹس میں ٹرائل ہو سکتا ہے؟ فیصل صدیقی نے کہا کہ عدالتی فیصلے یہ کہتے ہیں کہ واضح تفریق ہونی چاہیے، ہم نہیں کہتے کہ لوگوں کا سخت ٹرائل نہ ہو، انسدادِ دہشت گردی عدالت سے زیادہ سخت ٹرائل کہاں ہو سکتا ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ نیشنل سیکیورٹی کے باعث کہا گیا کہ یہ ٹرائل ملٹری کورٹس میں ہوا، سٹیٹ سیکیورٹی کے حدود میں جائیں گے تو پھر ٹرائل فوجی عدالتوں میں ہونے کا ذکر ہے۔ جسٹس مظاہر اکبر نقوی نے پوچھا کہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ کو کب شامل کیا گیا؟
پہلے اٹارنی جنرل سے پوچھا جائے کہ مقدمات کیسے بنے؟ جسٹس یحیی آفریدی
فیصل صدیقی نے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ کل عدالت نے پوچھا تھا کہ یہ درخواستیں پہلے ہائیکورٹ میں نہیں جانی چاہئیں تھیں، ایک سے زیادہ صوبوں کا معاملہ ہے ایک ہائیکورٹ کا دائرہ اختیار نہیں بن سکتا، یہ درخواستیں سپریم کورٹ میں ہی قابلِ سماعت ہیں۔ جسٹس عائشہ ملک نے پوچھا کہ کیا درخواستوں کے قابلِ سماعت ہونے کی حد تک آپ کے دلائل مکمل ہیں؟ فیصل صدیقی نے جواب دیا کہ جی درخواستوں کے قابل سماعت ہونے تک دلائل مکمل ہیں اب آگے چلتے ہیں۔ اس پر جسٹس یحیی آفریدی نے استفسار کیا کہ آپ نہیں سمجھتے کہ پہلے اٹارنی جنرل سے پوچھا جائے کہ مقدمات کیسے بنے؟ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ دلائل جاری رکھیں وکلا کے بعد اٹارنی جنرل کو سنیں گے، ہو سکتا ہے اٹارنی جنرل کل مانگی گئی تفصیلات پر آج ہی بیان دے دیں۔
آج کا دن درخواست گزاروں کے لیے مختص ہے بے شک 3 بجے تک دلائل دیں، چیف جسٹس
جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ ہوسکتا ہے جن لوگوں کو ملٹری کورٹس کے حوالے کیا گیا ان پر الزامات کی نوعیت الگ ہو، آپ صرف مفروضہ پر کہہ رہے ہیں کہ ان لوگوں کے خلاف کوئی شواہد موجود نہیں۔ جسٹس یحیی آفریدی نے کہا آپ عمومی بحث پر جا رہے ہیں یہ بھی علم نہیں کہ ان لوگوں کو کس کس شق کے تحت ملٹری کورٹس بھیجا گیا؟ وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ فرض کریں ان کے خلاف شواہد بھی موجود ہیں تو بتاؤں گا کہ انہیں کیسے ملٹری کورٹس نہیں بھیجا جا سکتا۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ اپنے دلائل کے متعلقہ نکات تک محدود رہیں، آج کا دن درخواست گزاروں کے لیے مختص ہے بے شک 3 بجے تک دلائل دیں۔
آرمی کے اندر ایسے فیصلے تک کیسے پہنچا جاتا ہے کہ فلاں بندہ آرمی ایکٹ کے تحت ہمارا ملزم ہے، جسٹس منصور علی شاہ
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ قانون یہ نہیں کہہ رہا ہے کہ ملٹری کے اندر کام کرنے والے بندہ ہو، تو ہی آفیشل سیکرٹ ایکٹ لگے گا، ملٹری حدود کے اندر ہونے کے جرم سے تعلق پر بھی ایکٹ لاگو ہوتا ہے، آپ بتائیں ملٹری کورٹس میں کسی کو ملزم ٹھہرانے کا کیا طریقہ ہے، آفیشل سیکرٹ ایکٹ کا اطلاق ممنوعہ علاقے عمارات اور کچھ سول عمارات پر بھی ہے؟ جسٹس مظاہر نقوی نے کہا کہ آپ ابھی تک بنیادی پوائنٹ ہی نہیں بتا سکے، آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی دفعات ایف آئی آرز میں کب شامل کی گئیں، اگر ایف آئی آر میں آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی دفعات شامل نہیں تو کیا کمانڈنگ آفیسر ملزمان کی حوالگی مانگ سکتا ہے؟ آپ سے 2 سوال پوچھ رہے ہیں اس پر آئیں، آپ پراسس بتائیں آرمی ایکٹ کا اطلاق کیسے ہو گا، آرمی کے اندر ایسے فیصلے تک کیسے پہنچا جاتا ہے کہ فلاں بندہ آرمی ایکٹ کے تحت ہمارا ملزم ہے۔
ملزمان کے ریمانڈ میں بنیادی چیز مسنگ ہے، چیف جسٹس
15 منٹ کے وقفے کے بعد سماعت شروع ہوئی تو جسٹس منصور علی شاہ نے پوچھا کہ فوج کو جب کوئی شخص مطلوب ہو تو وہ کس طریقے کار کے تحت پکڑتی ہے؟ اس پر فیصل صدیقی نے کہا کہ آرمی ایکٹ میں شکایت یا ایف آئی آر کا کوئی طریقہ کار نہیں۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ایک کمانڈنگ افسر میجسٹریٹ کے پاس جاتا ہے تو کس بنیاد پر بندہ مانگتا ہے؟ میجسٹریٹ کے پاس آنے سے پہلے کمانڈنگ آفیسر گھر میں کیا تیاری کرتا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ملزمان کے ریمانڈ میں بنیادی چیز مسنگ ہے، ریمانڈ آرڈر میں ذکر نہیں ملزمان کی حوالگی کیسے اور کن شواہد پر ہوئی۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ میں شکایت کو ایف آئی آر کے طور پر لیا جاتا ہے؟
1998 کے علاوہ حکومت نے کبھی سویلین کا ملٹری ٹرائل نہیں کیا، فیصل صدیقی
سول سوسائٹی کے وکیل فیصل صدیقی نے اپنے دلائل میں کہا کہ آرمی ایکٹ میں ٹرائل کیسے شروع ہوتا ہے، اس کا جواب آرمی رولز 1954 میں موجود ہے، رول 157 کی سب سیکشن 13 میں طریقہ کار درج ہے، 9 اور 10 مئی کو واقعات ہوتے ہیں اور 25 مئی کو حوالگی مانگ لی جاتی ہے، یہاں تو ہمیں حقائق میں جانے کی ضرورت بھی نہیں، ملزمان کی حوالگی مانگنے کی کوئی وجہ موجود نہیں۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ چارج سے پہلے انکوائری کا ہم اٹارنی جنرل سے پوچھیں گے؟ آپ یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ ان ملزمان کے خلاف بظاہر کوئی الزام نہیں؟ فیصل صدیقی نے جواب دیا کہ میں یہ کہہ رہا ہوں چارج کیے جانے سے پہلے سخت انکوائری ہونی چاہیے، 9 مئی کے ملزمان سے متعلق سخت انکوائری پہلے ہونی چاہیے، تاریخ میں کبھی 1998 کے علاوہ سویلین حکومت نے سویلین کا ملٹری ٹرائل نہیں کیا، 9 مئی کے ملزمان سے متعلق دوسری عدالتوں میں ٹرائل کا قانونی آپشن موجود ہے، اگر کیس کسی آرمی آفیشل پر ہوتا تو بات اور تھی اب کورٹ مارشل کے علاوہ آپشن نہیں، آئینی ترمیم میں بھی سویلین کے علاوہ ملٹری کورٹس میں ٹرائل پر شرط رکھی گئی ہے۔ جسٹس عائشہ ملک نے پوچھا کہ آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ سویلین کا ملٹری کورٹ میں ٹرائل الگ نوعیت کے حالات میں ہوگا، آپ یہ بھی پھر واضح کریں کہ وہ الگ نوعیت کے حالات کیا ہوں گے، کیا آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ محدود معاملات پر ہی سویلین کا ملٹری کورٹس میں ٹرائل ہو سکتا ہے؟ فیصل صدیقی نے کہا کہ چیئرمین نیب اختیارات کیس میں 2003 کا سپریم کورٹ کا فیصلہ موجود ہے، عدالت نے کہا تھا عام عدالت سے کیس تب تک نیب کورٹ نہیں جائے گا جب تک چیئرمین کے صوابدیدی اختیارات طے نہیں ہوجاتے۔ سول سوسائٹی کے وکیل فیصل صدیقی کے دلائل مکمل ہونے پر سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ کے وکیل خواجہ احمد حسین روسٹروم پر آ گئے۔
سویلین کے کورٹ مارشل کی آرمی ایکٹ میں گنجائش کیا ہے؟ خواجہ احمد حسین
سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ کے وکیل خواجہ احمد حسین نے کہا کہ سوال یہ ہے کیا سویلین جن کا فوج سے تعلق نہیں ان کا ملٹری کورٹ میں ٹرائل ہو سکتا ہے؟ میرا مؤقف ہے کہ موجودہ حالات میں سویلین کا ملٹری کورٹ میں ٹرائل نہیں ہو سکتا، ہمارا اعتراض یہ بھی نہیں کہ لوگوں کے خلاف کارروائی نہ ہو، ہمارا نکتہ فورم کا ہے، کہ کارروائی کا فورم ملٹری کورٹس نہیں۔ سوال یہ ہے سویلین کے کورٹ مارشل کی آرمی ایکٹ میں گنجائش کیا ہے؟ آرمی ایکٹ کا کل مقصد یہ ہی ہے کہ آرمڈ فورسز میں ڈسپلن رکھا جائے، جن افراد کو مسلحہ افواج کی کسی کمپنی وغیرہ میں بھرتی کیا گیا ہو ان پر ہی اس ایکٹ کا اطلاق ہوگا۔
سماعت میں نماز جمعہ کے لیے دن ڈیڑھ بجے تک وقفہ کر دیا گیا ہے۔
امن کے دور میں سویلین کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل نہیں ہو سکتا، وکیل احمد حسین
وقفہ کے بعد سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو وکیل احمد حسین نے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ فیئر ٹرائل ہر ایک کا بنیادی حق ہے، جس سے محروم نہیں کیا جا سکتا، کورٹ مارشل کارروائی کے فیصلے آسانی سے میسر بھی نہیں ہوتے، جسٹس منصور علی شاہ نے پوچھا کہ کورٹ مارشل کارروائی کرتا کون ہے؟ وکیل احمد نے بتایا کہ ایک پینل ہوتا ہے جو کارروائی کنڈکٹ کرتا ہے، ملٹری کورٹ فیصلے میں صرف اتنا لکھتی ہے کہ قصور وار ہے یا نہیں، اب فیصلے میں وجوہات کا ذکر ہوتا ہے یا نہیں اٹارنی جنرل بتا سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ملٹری کورٹس میں اپیل کا تصور بھی آرمی افسران کے پاس ہی ہے، آرمی چیف ہی سارے پراسس میں فائنل اتھارٹی ہے، کلبھوشن یادو کے لیے اپیل کا خصوصی قانون بنایا گیا، دیکھا جائے اس سے غیر ملکی کے ویانا کنونشن میں حاصل حقوق متاثر تو نہیں ہوئے، پہلے سے موجود قانون میں سویلین کے لیے فیئر ٹرائل جیسی چیزیں موجود نہیں تھیں، آرمی ایکٹ ڈیزائن ہی فورسز کے اندر ڈسپلن کے لیے کیا گیا تھا، آرمی کی سینئر کمانڈ نے پریس ریلیز میں 2 نتائج اخذ کیے، پریس ریلیز میں کہا گیا 9 مئی کو ملٹری تنصیبات ہر حملہ کیا گیا، حملے کے ناقابل تردید شواہد موجود ہیں، یہ نتائج پہلے سے اخذ کرنے کے بعد وہ خود اس معاملے کے جج نہیں ہو سکتے، امن کے دور میں سویلین کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل نہیں ہو سکتا۔
فوجی عدالتیں صرف اس وقت کام کر سکتی ہیں جب عام عدالتیں کام نہ کر رہی ہوں، احمد حسین
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کن سویلینز کا ٹرائل آرمی ایکٹ کے تحت ہو سکتا ہے، سویلینز میں تو ہر شہری آتا ہے کیا ٹرائل صرف مخصوص افراد کا ہو سکتا ہے؟ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ کیا ملٹری پرسنل کے علاؤہ سویلینز کے حقوق کا تحفظ دیا گیا ہے؟ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا سویلینز کی تعریف کیا ہو گی کیا ریٹائرڈ آرمی افسران بھی سویلینز میں آئیں گے؟ وکیل احمد حسین نے بتایا کہ آرمی ایکٹ فئیر ٹرائل یا سویلینز کو مدنظر رکھ کر نہیں بنایا گیا۔
جسٹس منصور علی شاہ نے پوچھا کہ کیا دیگر ممالک میں بھی سویلینز کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل ہوتے ہیں، اس پر احمد حسین نے بتایا کہ ہر ملک کا اپنا قانون ہے برطانیہ میں سویلینز کا فوجی ٹرائل ہو سکتا ہے، سینیئر کمانڈ کے فیصلوں کے بعد کیا فوجی عدالت میں کوئی افسر فئیر ٹرائل کو فالو کر سکتا ہے؟ آپ اپنے مقدمے کے خود جج نہیں بن سکتے، پارلیمنٹ کے پاس اختیار ہی نہیں کہ وہ سویلین کے کورٹ مارشل کے لیے قانون سازی کر سکے، عدالت نے دیکھنا ہے کہ کورٹ مارشل آئینی ہے یا غیر آئینی، فوجی عدالتیں صرف اس وقت کام کر سکتی ہیں جب عام عدالتیں کام نہ کر رہی ہوں، حکومت کو عام عدالتوں پر یقین کیوں نہیں اور صورتحال یہ ہے کہ سویلین لوگوں کی بڑی تعداد کورٹ مارشل ہونے جا رہی ہے۔
’9 مئی واقعات کے بعد 102 افراد فوج کی تحویل میں ہیں‘ اٹارنی جنرل کا سپریم کورٹ میں جواب
اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے دلائل شروع کرتے ہوئے 9 مئی کے واقعات کے حوالے سے بتایا کہ اسلام آباد پولیس کی تحویل میں کوئی شخص گرفتار نہیں ہے، پشاور میں 4 لوگ زیر حراست ہیں، پنجاب میں ایم پی او کے تحت 21 افراد گرفتار ہیں، انسداد دہشت گردی قانون کے تحت 141 افراد گرفتار ہیں، سندھ میں 172 افراد جوڈیشل تحویل میں ہیں، 345 افراد گرفتار ہوئے اور 70 رہا ہوئے، ایم پی او کے تحت 117 افراد جوڈیشل تحویل میں ہیں، 102 افراد فوج کی تحویل میں ہیں، فوج کی تحویل میں کوئی خاتون اور کم عمر نہیں ہے، کوئی صحافی اور وکیل بھی فوج کی تحویل میں نہیں ہے،
انہوں نے کہا کہ 2 صوبوں میں نگران حکومتیں ہیں، وکلاء کو دھمکیاں دی گئیں، اس طرح وہ کام نہیں کر سکتے اور اس بات کا اطلاق صحافیوں پر بھی ہوتا ہے وہ ہمیں سچ بتاتے ہیں۔ کے پی کے میں 2 بچے تحویل میں تھے، ملٹری کسٹڈی میں ایک پر شک تھا کہ وہ 18 سال سے کم ہے، اس کا ٹیسٹ کروا رہے ہیں اگر 18 سال سے کم ہوا تو چھوڑ دیا جائے گا۔ اٹارنی جنرل کے دلائل جاری تھے کہ کیس کی سماعت سوموار ساڑھے 9 تک ملتوی کر دی گئی۔
گزشتہ سماعت کا احوال:
چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تشکیل دیے گئے 9 رکنی بینچ نے گزشتہ روز سماعت کا آغاز کیا تھا، تاہم دورانِ سماعت جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس سردار طارق مسعود کے اعتراضات کے بعد 9 رکنی لارجر بینچ ٹوٹ گیا تھا جس کے بعد 7 رکنی بینچ نے سماعت کا دوبارہ آغاز کیا تھا اور عدالت نے ملٹری کورٹس میں شہریوں کے ٹرائل کے خلاف فوری حکم امتناع کی درخواست مسترد کرتے ہوئے 9 مئی کے واقعات کے بعد گرفتار ہونے والے تمام افراد کا ڈیٹا طلب کیا تھا۔
عام شہریوں کے مقدمات آرمی ایکٹ کے تحت فوجی عدالتوں میں چلانے کے خلاف 4 درخواستیں
21 جون کو چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال نے فوجی عدالتوں میں آرمی ایکٹ کے تحت عام شہریوں کے مقدمات چلانے کے خلاف دائر 4 درخواستوں کو سماعت کے لیے مقرر کرتے ہوئے اپنی سربراہی میں 9 رکنی لارجر بینچ تشکیل دیا تھا۔
چیئرمین پی ٹی آئی، سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ، معروف قانون دان اعتزاز احسن اور سول سائٹی کی جانب سے عام شہریوں مقدمات آرمی ایکٹ کے تحت فوجی عدالتوں میں چلانے کے خلاف درخواستیں دائر کی گئی تھیں۔
20 جون کو جسٹس جواد ایس خواجہ نے اپنے وکیل ایڈووکیٹ خواجہ احمد حسین کے توسط سے دائر درخواست میں سپریم کورٹ سے فوجی عدالتوں کے ذریعے شہریوں کے ٹرائل کو غیر آئینی قرار دینے کی استدعا کی تھی۔
وکیل عزیر چغتائی کے توسط سے عدالت عظمیٰ میں دائر کی گئی درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ عام عدالتیں ہوتے ہوئے ملٹری عدالتوں کے ذریعے عام شہریوں کا ٹرائل غیر آئینی قرار دیا جائے اور آرمی ایکٹ کے مختلف سیکشنز آئین میں دیے گئے بنیادی حقوق سے متصادم ہیں جنہیں کالعدم قرار دیا جائے۔
قبل ازیں مختلف شہروں سے سول سوسائٹی کے 5 ارکان نے اپنے وکیل فیصل صدیقی کے ذریعے 9 مئی کے تشدد کے سلسلے میں فوجی عدالتوں میں عام شہریوں کے ٹرائل کو غیر قانونی قرار دینے کی درخواست دائر کی تھی۔
اسی طرح 18 جون کو پاکستان پیپلزپارٹی کے رہنما اور سپریم کورٹ آف پاکستان کے سینئر وکیل اعتزاز احسن نے 9 مئی کے واقعات میں ملوث شہریوں کے مقدمات فوجی عدالتوں میں چلانے کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی تھی۔ اعتزاز احسن کی جانب سے وکیل سلمان اکرم راجا نے درخواست دائر کی جس میں شہریوں کےفوجی عدالتوں میں ٹرائل کو غیر آئینی قرار دینے اور وفاقی حکومت کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل کا فیصلہ کالعدم قرار دینے کی استدعا کی گئی تھی۔
درخواست میں کہا گیا تھا کہ وفاقی حکومت نے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے کور کمانڈر فیصلہ پر ربر اسٹمپ کا کردار ادا کیا، سویلین کا ٹرائل آرمی ایکٹ کے سیکشن 2 اور 59 آئین سے متصادم ہیں، آرمی ایکٹ قانون کے سیکشن 2 اور 59 کو کالعدم قرار دیا جائے۔
9 مئی کی ہنگامہ آرائی اور ملٹری کورٹس
رواں برس 9 مئی کو قومی احتساب بیورو (نیب) نے پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان کو پیراملٹری فورس رینجرز کی مدد سے القادر ٹرسٹ کیس میں گرفتار کیا جس کے بعد ملک بھر میں ہوئے پر تشدد احتجاج کے دوران املاک کی توڑ پھوڑ جلاؤ گھیراؤ دیکھنے میں آیا تھا۔
احتجاج کے دوران مشتعل افراد نے فوجی تنصیبات، بشمول کور کمانڈر لاہور کی رہائش گاہ اور پاکستان بھر میں ریاستی املاک کو نقصان پہنچایا تھا۔ فوج نے اس دن کو ملکی تاریخ کا ’سیاہ باب‘ قرار دیا تھا اور توڑ پھوڑ میں ملوث تمام افراد کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کا عزم کیا تھا۔
حکومت نے سول اور فوجی تنصیبات پر حملے اور آتش زنی کرنے والوں کو پاکستان آرمی ایکٹ اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ سمیت متعلقہ قوانین کے تحت انصاف کے کٹہرے میں لانے کا فیصلہ کیا تھا۔ قومی سلامتی کمیٹی نے بھی اس فیصلے کی توثیق کی تھی۔
20 مئی کو آرمی چیف نے کہا تھا کہ 9 مئی کے سانحے میں ملوث منصوبہ سازوں، اکسانے والوں، حوصلہ افزائی کرنے والوں اور مجرموں کے خلاف مقدمے کا قانونی عمل آئین سے ماخوذ موجودہ اور قائم شدہ قانونی طریقہ کار کے مطابق پاکستان آرمی ایکٹ اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت شروع ہو گیا ہے۔ فوج اور حکومت نے شہدا کی قربانیوں کو یاد کرنے اور ان کے خاندانوں کی تکریم کے لیے 25 مئی کو ’یوم تکریم شہدا‘ منانے کا فیصلہ کیا تھا، اس سلسلے میں ملک بھر میں قائم یادگار شہدا پر متعدد یادگاری تقریبات کا انعقاد کیا گیا تھا۔
26 مئی کو وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے کہا تھا کہ 9 مئی سے متعلق صرف 6 مقدمات میں 33 ملزمان کو فوجی حکام کے حوالے کیا گیا ہے۔ جبکہ وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا تھا کہ فوج کے قوانین کے تحت مقدمات بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ تقاضوں کو پورا کرتے ہیں جو منصفانہ ٹرائل کی بنیاد ہیں۔