ملک میں ریفریجریٹر اور ڈیپ فریزر کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے کے باوجود ان کی فروخت میں رواں ہفتے کے آغاز سے ہی تیزی دیکھنے میں آرہی ہے۔
الیکٹرانکس ڈیلرز کے مطابق ریفریجریٹرز اور ڈیپ فریزرز کے داموں میں تقریباً دگنا اضافہ ہوچکا ہے جس سے فروخت میں کافی کمی آگئی تھی جو گرمی کی شدید لہر کی وجہ سے بھی نہیں بڑھ سکی تھی لیکن جیسے ہی رواں ہفتہ شروع ہوا اس حوالے سے واضح فرق دکھائی دیا ہے۔
ڈیلرز کا کہنا ہے کہ ریفریجریٹرز اور ڈیپ فریزرز کی فروخت میں نمایاں اضافے کا سبب یہ ہے کہ عیدالاضحیٰ کی آمد نزدیک ہے اور ایسے میں ملک میں ان مصنوعات کی مانگ بڑھ جاتی ہے۔
راولپنڈی باڑا بازار میں تقریبا 12 برس سے الیکٹرانکس کا کام کرنے والے شاہین سلیم کہتے ہیں کہ عید قرباں پر ڈیپ فریزرز کی مانگ میں بہت زیادہ اضافہ ہوجاتا ہے اور اس کے علاوہ گرمیاں شروع ہوتے ہی لوگ کا ریفریجریٹرز اور ڈیپ فریزرز خریدنے کی جانب رجحان بڑھ جاتا ہے۔
شاہین کا کہنا تھا کہ اس بار گرمیاں شروع ہونے کے باوجود بھی فروخت نہیں بڑھی تھی جس کی وجہ سے کمپنیوں سے مزید مال نہیں لیا گیا لیکن یہ ہفتہ شروع ہوتے ہی لوگ ریفریجریٹرز اور ڈیپ فریزرز خریدنا شروع ہو گئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ’مجھ سمیت باقی ڈیلرز توقع کر رہے تھے کہ شاید اس بار عید کا بھی عوام پر کوئی اثر نہ ہو کیوں کہ قیمتوں میں بہت زیادہ اضافہ ہو چکا ہے لیکن ایسا نہیں ہوا‘۔
فروخت کے حوالے سے بات کرتے ہوئے شاہین نے بتایا کہ گزشتہ برس کے مقابلے میں اس میں تقریبا 70 فی صد کمی آئی ہے اور جتنے بھی ریفیجریٹر اور ڈیپ فریزرز بکے ہیں وہ انہی دنوں میں عید کی وجہ سے بکے ہیں۔
چاندنی چوک راولپنڈی میں واقع میاں الیکٹرانکس کے منیجر نے عید کے موقع پر ڈیپ فریزرز کی مانگ کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ امپورٹ پر پابندی کے باعث تمام چیزوں کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے جس کے بعد جو ڈیپ فریزر 35 ہزار روپے کا تھا اب اس کی قیمت 65 ہزار روپے تک پہنچ چکی ہے اس لیے پچھلے چند برسوں کے مقابلے میں اب اس کی فروخت میں میں تقریبا 60 فی صد کمی آچکی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ اب خریداری لوگوں کے بس سے باہر ہوتی جا رہی ہے ورنہ عید قرباں جیسے خاص موقع پر مال تک ختم ہو جاتا تھا اور لوگ ڈیپ فریزرز کی بجائے ریفریجریٹر خریدنے کو ترجیح دے رہے ہیں۔ انہوں نے مزید بتایا کہ ’جو لوگ ریفریجریٹرز بھی خرید رہے ہیں وہ فریزر والے خانے کو مد نظر رکھ کر خرید رہے ہیں تاکہ عید اور اس کے بعد بھی سودمند ثابت ہوسکے‘۔
مری روڈ الیکٹرانکس کے ڈیلر محمد عمر نے بتایا کہ فروخت میں کوئی کمی نہیں آئی ہے اور مہنگائی کے باوجود بھی لوگ عید کے موقع پر بالکل اسی طرح ڈیپ فریزرز خرید رہے ہیں جیسے ہر سال خریدتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ڈیپ فریزرز پورے سال نہیں بکتے تاہم عید آتے ہی ان کی مانگ میں اضافہ ہو جاتا ہے۔
محمد عمر نے کہا کہ ’مہنگائی جتنی بھی ہو جائے عوام کو جو چیز خریدنی ہے وہ تو خریں گے ہی اور اسی طرح عید کے دن قریب آنے کے ساتھ ڈیپ فریزرز کی فرخت بھی ویسی ہی زیادہ ہے جیسی کہ ان دنوں ہمیشہ رہتی ہے‘۔
شارجہ الیکٹرانکس پر کام کرنے والے عامر عتیق کا کہنا تھا کہ عید کے آتے ہی عام روٹین کی نسبت ڈیپ فریزرز کی مانگ میں اضافہ ہو گیا ہے ورنہ گرمی کی اس شدت کے باوجود بھی روم کولرز اور اے سی وغیرہ کی کوئی سیل نہیں ہو رہی۔
انہوں نے کہا کہ ڈیپ فریزرز بھی اسی لیے فروخت ہو رہے ہیں کیوں کہ عید آنے والی ہے اور ہر سال کی طرح اس سال بھی لوگوں نے عید سے پہلے ڈیپ فریزرز خریدنے شروع کر دیے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ فروخت گزشتہ برسوں کی طرح تو نہیں ہو رہی لیکن روٹین کے مقابلے میں زیادہ ہے کیوں کہ عیدالاضحیٰ نزدیک ہے۔
اسلام آباد الیکٹرانکس کے مالک کا کہنا تھا کہ ڈیپ فریزرز کی فروخت میں تقریباً 70 فی صد کی کمی ہوئی ہے لیکن اب گاہک بھی کیا کر سکتے ہیں کیوں کہ ہر چیز کی قیمت دگنی ہوچکی ہے جس کے باعث ہو یہ رہا ہے کہ گاہک دکان میں آتے ہیں اور قیمت پوچھ کر چلے جاتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ 2 سال قبل تک ان دنوں بہت رش ہوا کرتا تھا گو گاہک اب بھی آ رہے ہیں لیکن بلند قیمتوں کے باعث عید کے موقعے کے باوجود ڈیپ فریزرز نہیں خرید پا رہے۔
ان تمام ڈیلرز کی گفتگو سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان میں لوگ عید سے قبل ہی ڈیپ فریزرز اور ریفریجریٹرز کیوں خریدتے ہیں مگر شاید ان میں سے ایک بڑی تعداد وہ ہوجسے یہ علم نہیں کہ گوشت کا زیادہ استعمال ان کی صحت کے لیے کتنا نقصان دہ ہو سکتا ہے۔
اس معاملے پر روشنی ڈالتے ہوئے اسلام آباد پمز اسپتال کے ماہرامراض معدہ ڈاکٹر حیدر عباسی نے بتایا کہ اگر اس گوشت کو زیرو ڈگری فارن ہائٹ تک کے ٹیمپریچر پر رکھا جائے اور اس کا ٹیمپریچر برقرار رہے تو اس میں مسائل نہیں ہوتے مگر پاکستان میں اس ٹمریچر کو برقرار رکھنا مشکل ہوتا ہے کیوں کہ بجلی بھی جاتی اور اس کی دیگر وجوہات بھی ہیں۔
ڈاکٹر حیدر کا کہنا تھا کہ تھوڑی بھی ہیٹ پیدا ہو تو گوشت میں بیکٹیریا پیدا ہونا شروع ہو جاتے ہیں جس سے صرف اس کی غذائیت پر ہی اثر نہیں پڑتا بلکہ اس سے پیٹ کے امراض بھی لاحقہو جاتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ’اگر گوشت کو زیرو ڈگری پر محفوظ کیا جا سکے تو پھر اسے تقریبا 3 سے 4 مہینے تک استعمال کیا جا سکتا ہے مگر اس ٹیمپریچر کا برقرار رہنا ضروری ہے۔