برسوں پہلے، اسلام آباد کی ایک بڑی سڑک کے کنارے بیٹھا، ایک ’بزرگ عالی مقام‘ بتا رہا تھا کہ ہر گاؤں میں ایک ’بابا رحمتا‘ ہوتا ہے جو گاؤں والوں کے فیصلے کرتا ہے اور گاؤں والے اس کی عزت کرتے ہیں۔ اسلام آباد والے اس بزرگ نے محض یہ مطالبہ کرنے کے لیے کافی لمبی چوڑی گفتگو کی کہ پوری قوم اسے ’بابا رحمتا‘ تسلیم کرلے۔ ساتھ بیٹھے ایک نوجوان دوست نے میرے کان میں سرگوشی کے انداز میں پوچھا کہ آپ کے گاؤں میں بھی کوئی ’بابا رحمتا‘ ہوتا تھا؟
میں نے ’بزرگ عالی مقام‘ کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ ہاں! ہوتا ہے ہر گاؤں میں ایک ’بابا رحمتا‘۔لیکن ہر ’بابے رحمتے‘ کو عزت اور احترام نہیں ملتا۔ وہ اور ہی بابے ہوتے تھے جنہیں دیکھ کر احترام میں نگاہیں جھک جاتی تھیں۔ بعض ایسے بابے ہوتے ہیں جن کا نام سنتے ہی لوگ کھی کھی کرنے لگتے ہیں۔
دراصل ان بابوں کو زعم ہوتا ہے کہ وہ سب سے زیادہ عالم فاضل ہیں، فہم و فراست میں دور دور تک ان کا کوئی ثانی نہیں۔اور انہیں یہ خبط بھی ہوتا ہے کہ لوگ ان کی سمجھ داری پر اپنے اپنے گھروں میں اش اش کرتے رہتے ہیں۔ حالانکہ معاملہ اس کے بالکل الٹ ہوتا ہے۔
گھروں میں ایسے ’بابے رحمتے‘ کا ذکر عجیب و غریب ناموں سے کیا جاتا ہے۔اس کے فریب اور فراڈ کے قصے سنائے جاتے ہیں۔اور پھر ایک بندر اور کیک کے ٹکڑے پر لڑتی ہوئی دوبلیوں کی کہانی سنائی جاتی ہے۔ بندر نے دونوں بلیوں کو پیشکش کی تھی کہ میں کرتا ہوں انصاف! اس نے انصاف کرتے کرتے کیک کا سارا ٹکڑا ہی ہڑپ کرلیا۔ اور بے چاری بلیاں ایک دوسرے کا منہ دیکھتی رہ گئیں۔
گاؤں کے نوجوانوں کی کسی ٹولی کو ایسا ’بابا رحمتا‘ کہیں چلتا پھرتا نظر آ جائے تو وہ بلند مقام و مرتبے کے بھوکے بوڑھے سے مسخریاں کرتے ہیں۔ اس سب کچھ کے باوجود’بابا رحمتا‘ خبط عظمت ہی میں مبتلا رہتا ہے۔ ساتھ والے دیہات میں جاکر اپنے انصاف کے من گھڑت قصے سناتا ہے۔
میں شاہراہ دستور کے کنارے کسی دور میں بیٹھے رہنے والے جس بوڑھے کی باتوں کی تصدیق کررہا تھا، اسے ’بابا رحمتا‘ کہلانے کے علاوہ بھی کچھ شوق لاحق تھے پاگل پن کی حد تک۔ مثلاً ایک دن یونہی بیٹھے بیٹھے خیال آیا کہ کوئی ایسا کام کرنا چاہیے کہ آنے والی ساری کی ساری نسلیں اسے یاد رکھیں۔ کافی سوچ بچار کے بعد ایک آئیڈیا پھوٹا۔ بوڑھا اچھل کے کھڑا ہوگیا۔
اس نے چیخ کر اعلان کیا کہ وہ ملک میں ایک بڑا ڈیم بنانے کے لیے روپیہ، پیسہ اکٹھا کرے گا۔اس کے لیے ایک فنڈ قائم کردیا۔ اس وقت کا حکمران بھی اس بوڑھے کی طرح شہرت حاصل کرنے کے چکر میں پڑا رہتا تھا۔ اس نے بوڑھے کو ڈیم فنڈ قائم کرتے دیکھا تو بے اختیار اس فنڈ پر اپنا ٹھپہ لگانے کی کوشش کی، اس پر ’بابا رحمتا‘ سیخ پا ہوگیا کہ ناہنجار! اپنی دنیا آپ پیدا کر اگر زندوں میں ہے۔
یہ تھا شہر ی بابا رحمتا! آج کل وہ ایک انوکھا کاروبار کر رہا ہے۔
لوگوں کو آئیندہ عام انتخابات کے لیے ملک کی ایک بڑی سیاسی جماعت کا ٹکٹ دلانے کے خواب دکھاتا ہے۔ خوابوں کا سب سے چھوٹا پیکیج سوا کروڑ روپے کا ہوتا ہے۔ خواب کی قیمت کو ’جپھی‘(بغل گیر ہونا) کا نام دیا جاتا ہے۔
یادش بخیر! اسی بابا رحمتے کا ایک ساتھی ہوا کرتا تھا، وہ ملک میں احتساب کے سب سے بڑے ادارے کا سربراہ تھا۔ وہ مظلوم و مجبور، بے بس، انصاف کے لیے ترسی ہوئی خواتین سے’جپھیوں‘ کا بہت شوقین تھا۔ اس کی شرط تھی کہ انصاف حاصل کرنا ہے تو میرے ساتھ جپھی ڈالو، مجھ سے فحش باتیں کرو۔
آہ! ہمارے ملک و قوم کے نصیب میں کیا کیا ’نمونے‘ آئے۔
جب گزشتہ روز مارگلہ کے گھنے پہاڑی جنگل میں، ایک راستے پر چل رہا تھا تو مجھے یہ سارے ’نمونے‘ ایک ایک کرکے یاد آرہے تھے۔میں یہ بھی سوچ رہا تھا کہ ہمارے ہمسائیہ ملک میں موجود بدطینت لوگ کیسے شاداں و فرحاں ہوں گے۔میں بہت دنوں بعد جنگل کے اس راستے پر آنکلا تھا۔ دراصل مجھے کئی روز سے اُس پراسرار بزرگ کی تلاش تھی جس نے ہفتوں قبل ایک بڑی پتے کی بات کہی تھی۔
ٹریل فائیو کی بالکل ابتداء میں، حضرت امام بری رحمۃ اللہ علیہ کی چلہ گاہ میں، برگد کے قدیم درخت کے سائے تلے بیٹھے درویش نے کہا تھا’خواہشاتِ نفس انسان کو اپنے پیچھے بھگاتی ہیں، تھکاتی ہیں، اور پھر اس قدر رسواکرتی ہیں کہ انسان کہیں کا نہیں رہتا‘۔ روشن چہرے والے درویش نے کہا تھا’انسان کو سب سے پہلے اپنے نفس کی اصلاح کرنی چاہیے۔ہمارا چلن ہے کہ ہم دوسروں پر نظر رکھتے ہیں، اپنا آپ بھول جاتے ہیں‘۔
گزشتہ روز پراسرار درویش مجھے اچانک مارگلہ کے جنگل میں ایک دوسرے مقام پر بیٹھا نظر آیا۔یہ جگہ عام گزرگاہ سے ہٹ کر، قدرے گہرے جنگل میں ہے۔اور اس قدر پرسکون ہے کہ جنگلی جانور بھی بڑی تعداد میں بلاخوف و خطر گھومتے پھرتے ہیں۔
درویش سے ملاقات میں بعض اوقات دوسرے کئی موضوعات چھڑ جاتے ہیں۔ اس بار ان تین ’بزرگان عالی مقام‘ کا ذکر ایک بار پھر چھڑگیا جن میں سے ہر ایک اپنے آپ کو ’بابا رحمتا‘ سمجھتا ہے۔
درویش نے کہا:’آپ کے ان بزرگان عالی مقام کے حصے میں رسوائی ہی رسوائی ہے۔سبب یہ ہے کہ یہ انصاف کا فریضہ ادا کرنے کے بجائے، چھوٹی اور کمینی خواہشوں کے اسیر بن بیٹھے ہیں۔انہوں نے اپنی سفلی خواہشات کو ’انصاف‘ کا نام دیدیا ہے۔ انہیں مزید رسوائی سے محفوظ رہنے کے مواقع میسر آئے تھے لیکن انہوں نے اسی راستے پر چلتے رہنے کا فیصلہ کیا۔ یہ دراصل ایک ایسے گروہ سے تعلق رکھتے ہیں، جس میں شامل ہوتے ہی ہر فرد سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے محروم کردیا جاتا ہے‘۔
مجھے یاد آیا، درویش نے پچھلی بار ملاقات میں کہا تھا’دوسروں کے چھابے میں ہاتھ ڈال کر باقی لوگوں نے جو کچھ کمایا، وہ شاہراہ دستور کے کنارے بیٹھے یہ لوگ بھی کما لیں گے‘۔ وقت نے درویش کی بات سچ ثابت کی۔ اب کی بار درویش نے جو باتیں کہیں، وہ خاصی خطرناک ہیں۔ان ’بزرگان عالی مقام‘ کی بدمستیاں بھی ظاہر کرتی ہیں کہ ان کے ساتھ کچھ بہت برا ہونے جا رہا ہے۔