عبداللہ مسعود
پشاور مسجد میں ہونے والا دھماکہ دہشت گردوں کی طرف سے اعلان جنگ ہے جس کے اسباب ڈھونڈنے اور سدباب کی بجائے اس ملک کی سیاسی و عسکری قیادت کی ترجیحات درست سمت نظر نہیں آرہی۔ جہاں ایک طرف معاشی حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ ملک دیوالیہ ہونے کی صدائیں بلند ہو رہی ہیں جس سے بچنے کے لیے حکومت اخراجات کم کرنے کی بجائے تمام تر بوجھ پہلےسے معاشی، دہشت گردی، سیاسی جماعتوں کے انتشارمیں پھنسی عوام پر ڈالا جا رہا ہے۔
دھماکے کے بعد پشاور مسجد کے صحن سے سینکڑوں زخمی و شہید ہونے والوں کے لہو و بارود کی اٹھنے والی بو اس ملک کی اشرافیہ سے سوال کرتی ہے کہ کیا اس دن کے لیے یہ ملک معرض وجود میں آیا تھا، کیا اس دیس کے باسیوں کی زندگی اجیرن ہی رہے گی، مہنگائی میں جکڑے شہریوں کا دھماکوں کی نظر ہونا مقدر بن گیا ہے۔
یہ مسئلہ مخصوص علاقے کا نہیں پورے ملک میں پھیلے گا جس سے کوئی شہر یا ادارہ محفوظ نہیں رہ پائے گا، چند ہفتے قبل اسلام آباد میں بھی پولیس جوان نے قربانی دے کر خود کش حملہ آور کو روکا تھا۔ طالبان کے آثار ظاہر ہونے پر سوات کے رہائشیوں کے درعمل نے بلا کچھ دن کے لیے ٹال تو دی تھی لیکن وہ رک نہیں رہی۔
خوفناک صورت حال میں پاکستان کی حکومت، اپوزیشن اور دفاعی ادارے سنجیدہ نہیں لگ رہے، تمام سٹیک ہولڈرز سیاست سیاست کھیلنے میں مصروف ہے، حکومت اپوزیشن، اپوزیشن اداروں پر چڑھائی کئے ہوئے ہے جبکہ اداروں کا ایکشن دیکھائی نہیں دے رہا۔
فوری انتخابات نا ہونے پر ناراض تحریک انصاف نے حکومت کی طرف سے منعقد ہونے والی اپیکس کمیٹی میں شرکت کرنے سے انکار کر دیا جبکہ آل پارٹیز کانفرنس میں بھی شرکت کا کوئی امکان نہیں ہے۔ الٹا مشکل حالات میں تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے جیل بھرو تحریک شروع کرنے کا اعلان کیا ہے جو مزید انتشار کو دعوت دے گا۔
جبکہ حکومتی عہدیداروں کی طرف سے اپوزیشن کو رام کرنے کی بجائے ان کو غصہ دلانے والے بیانات دیئے جا رہے ہیں جبکہ گرفتاریوں کا سلسلہ بھی جاری ہے جو جلتی پر تیل کا کام کر رہاہے۔ ایسے حالات میں اپنے مستقبل کو لے کر پریشان پڑھے لکھے نوجوان ملک چھوڑ کر جا رہے ہیں یا دہشت گردوں کا الی کار بن رہے۔ بائیس کروڑ سے زائد آبادی والے ملک میں ایسے حالات کسی بھی لمحے بڑے انتشار کو جنم دے سکتے ہیں۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت حالات کی سنجیدگی کو سنجیدہ لیتے ہوئے اپوزیشن کو ایک پیج پر لانے کے لئے اقدام اٹھائے جبکہ ریاستی ادارے بھی سیاسی معاملات میں مداخلت کی سابق روایت ختم کرتے ہوئے ٹھوس اقدامات اٹھائے اور دہشت گردوں کی پچانوے فیصد کمر توڑنے کی بجائے مستقل سدبات کرے تاکہ ملک کے بچوں کے سروں سے معاشی مسائل اور دہشت گردی کا خوف ختم ہو سکے۔