ہم پینڈو بچے جو دیہی پس منظر رکھتے ہیں اور پھر بہتر زندگی کی تلاش میں شہر میں آن بسے، ان کے اندر سے گاؤں کبھی نہیں نکل سکتا ، شاید جہاں انسان پیدا ہوا اور بچپن گزارا ہو اس کی جڑیں وہیں ہوتی ہیں، وہ کہیں بھی چلا جائے، کچھ بھی بن جائے اس کے اندر کہیں وہ سب زندہ رہتا ہے ۔
گاؤں جہاں اپنا بچپن گزرا ، زرد پتوں کی خوشبو ، آلودگی سے پاک صاف ٹھنڈی ہوائیں ، لمبے درختوں کا وجود ، افق پہ زردی بکھیرتا سورج ، پگڈنڈیوں پہ چلنے کی آوازیں ، سکول واپسی پہ سنیک کے طور پہ کسی کی گاجر ، مولی یا کچے امرود توڑ کر کھا لینا، ناشتا تندرو کی روٹی کے ساتھ مکھن میں چینی شامل کر کے کھانا اور مارننگ جوس کی جگہ لسی ۔
گاؤں میں ایک رسم تھی جو کسی حد تک اب بھی موجود ہے، جس کو “ونگار” (بلا معاوضہ اجتماعی کام ) یا پیار کا بہانہ کہہ لیں ، جب اتنی مشینری نہیں ہوتی تھی جو فصل کاٹنے یا بوتے وقت ہل چلانے میں لوگ ایک دوسرے کی مدد کرتے تھے کہ کام جلدی ہو سکے ، اور ایسے ہی تمام گاؤں کا کام مل مل جل کر ہو جاتا تھا۔ ایسے ہی کچے مکانوں کی سالانہ لپائی ہوتی تو تب بھی ایک بار پھر ونگار برپا ہوتا تھا اور یہ تمام کام خوشی خوشی ہوتے تھے ۔
گاؤں میں کسی کی بیٹی کی شادی ہے، تو مطلب وہ پورے گاؤں کی ہی بیٹی ہے. رشتے دار مہمان دوسرے گھروں میں بھی ٹھہرا لیے جاتے تھے اور رہن سہن کا انتظام پورا گاؤں مل کر ، کر لیا کرتا تھا.گاؤں کا بارٹر سسٹم گاؤں کے تمام لوگوں کے لیے فائدہ مند ہوتا تھا. جسے “سیپی” رکھنا کہا جاتا. اب بھی کسی حد تک یہ نظام اپنا وجود رکھتا ہے ۔
اجناس کے بدلے ہنر والے کام کسان خود نہیں کرتے تھے، وہ دوسرے ہنر مند کر دیتے تھے، جیسے لوہار سے کام کروانا یا موچی سے جوتی بنوانا، کھیس بنوانا وغیرہ اور بدلے میں فصل کا کچھ حصہ ہر چھ ماہ بعد دیا جاتا تھا، اس نظام کی بدولت وہ تمام لوگ جن کے پاس زمین نہیں بھی ہوتی تھی ان کو بھی سال بھر کی گندم مل جاتی تھی ۔
ہم شہروں میں آن بسے، اردو بولنے لگے، فاسٹ فوڈ کھانے لگے اور بچوں کو بھی ایڈوانس شہری خوراکوں پہ پالا. یہ سب کھانے کھاتے بچوں کی بیماری سے لڑنے کی صلاحیت ہم سے پھر بھی کم رہی اور صحت بھی، اب کہیں دیکھتے ہیں جو خوراک ہم گاؤں میں کھاتے تھے یہاں اب شہروں میں اسے آرگینک فوڈ کہا جاتا ہے ۔ اور لوگ بہت مہنگی قیمت پہ خریدتے ہیں پتہ نہیں سفر آگے کا ہوا یا پیچھے کا۔