سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں سویلین ٹرائل کے خلاف درخواستوں پر سماعت کل تک ملتوی کردی گئی، سپریم کورٹ نے درخواست گزار کے وکیل سلمان اکرم راجا کی فوری حکم امتناعی کی استدعا مسترد کردی، ساتھ ہی اٹارنی جنرل کو تمام تفصیلات فراہم کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے ملٹری کے زیر حراست 102 ملزمان کی تفصیلات بھی طلب کردیں۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 6 رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی، جسٹس اعجازلاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحیٰی آفریدی، جسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی اور جسٹس عاٸشہ ملک 6 رکنی لارجر بینچ کا حصہ ہیں۔
اس سے قبل جسٹس سید منصور علی شاہ حکومتی اعتراض پر بینچ سے علیحدہ ہوگئے تھےجس کے بعد سات رکنی بینچ ٹوٹ گیا تھا، تاہم چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے 6 رکنی نیا بینچ تشکیل دیا اور سماعت دوبارہ شروع کر دی گئی۔
چیف جسٹس کے ریمارکس
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے دلائل سننے کے بعد ریمارکس دیے کہ امید کرتا ہوں اس کیس کی سماعت کے دوران کسی سویلین کا ملٹری ٹرائل نہیں کیا جائے گا۔ چیف جسٹس نے ہدایت کی کہ تمام گرفتار افراد کی مکمل تفصیلات عدالت کو فراہم کی جائیں، تمام 102 زیر حراست افراد کو اہلخانہ سے ملنے کی اجازت دی جائے گی، زیر حراست افراد کے کھانے کی بھی شکایت آئی ہے، تمام زیر حراست افراد کو ریڈنگ میٹیریل بھی فراہم کرنے کی اجازت ہونی چاہیے۔
چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے استفسار کرتے ہوئے کہاکہ خاندان کو قیدی کیوں بنایا گیا ہے، درخواست گزار جنید رزاق کی فیملی کب سے قید ہے، اتنے دن گزر گئے ابھی تک کچھ پتہ نہیں، اٹارنی جنرل صاحب آپ خود اس معاملے کو دیکھیں، ان کو خاندان سے ملنے کی اجازت دیں، خاندانوں کو کیوں اٹھایا گیا ہے؟ جس پراٹارنی جنرل نے کہاکہ آپ نام بتا دیں میں آگے بات کروں گا۔
’آپ ذاتی طور پر اس معاملے کو دیکھیں‘ یہ کہتے ہوئے چیف جسٹس نے سماعت صبح ساڑھے 9 بجے تک ملتوی کر لی۔
چیف جسٹس برہم کیوں ہوئے؟
سماعت شروع ہوتے ہی وکیل حامد خان روسٹرم پر آئے اور عدالت سے کہاکہ ہماری درخواست پر نمبر نہیں لگا، جس پر چیف جسٹس نے انہیں روکتے ہوئے کہاکہ اس معاملے پر بعد میں بات کریں گے ابھی ہم ایک تازہ سیٹ بیک سے ریکور کرکے آرہے ہیں۔ یہاں دلائل کے بجائے دیگر حربے آزمائے جا رہے ہیں، آپ نے درخواست میں بھی مختلف استدعائیں کر رکھی ہیں۔ جس پر حامد خان نے کہاکہ میں صرف ملٹری کورٹس والی استدعا پر فوکس کروں گا۔
وقفے کے بعد دوبارہ سماعت کا احوال
سپریم کورٹ میں چیف جسٹس کی سربراہی میں 6 رکنی لارجر بینچ نے 45 منٹ کے وقفے کے بعد سماعت کے دوبارہ آغاز پر درخواست گزار کے وکیل سلمان اکرام راجا نے دلائل دینا شروع کیے۔
سلمان اکرم راجا نے کہاکہ آرمی ایکٹ میں ریٹائرڈ آرمی افسران کے علاوہ سویلینز کو بھی شامل کیا گیا ہے، آرمی ایکٹ کے دائرے میں سویلینز کو شامل کیا گیا اس لیے آرمی ایکٹ 2 ڈی کو چیلنج کیا ہے، عدالت پر چھوڑتا ہوں کہ سویلینز کو آرمی ایکٹ کے دائرے میں شامل کیے جانے کو وہ کیسے دیکھتے ہیں۔
’میرے موکل جنید رزاق کو اٹھا لیا گیا، جنید رزاق کے بیٹے ارزمرزاق کو ایل الزام لگا کر اٹھا لیا گیا۔‘
سلمان اکرم راجا نے مزید کہاکہ یہ تفریق کیسے ہوئی کہ ایک ہی الزام پر کچھ لوگ عام کورٹس جبکہ کچھ ملٹری کورٹس میں ٹرائل کیلئے جائیں۔
جسٹس یحییٰ آفریدی نے سلمان اکرم راجا سے استفسار کیاکہ اگر وہ کہیں کہ ہم کچھ کو ملٹری کورٹس میں ٹرائل کریں گے اور باقی گھر جائیں گے تو آپ کو پھر کوئی مسئلہ نہیں؟ جس پر سلمان اکرم راجا نے کہاکہ اگر ایسی عدالت لے جایا جائے جہاں بنیادی حقوق دستیاب ہوں گے تو مجھے اعتراض نہیں ہے۔
اس کے ساتھ ہی سلمان اکرم راجا نے اپنے دلائل مکمل کر لیے۔
چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کے وکیل کے دلائل
چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کے وکیل عزیز بھنڈاری نے اپنے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہاکہ ہم تمام درخواست گزاروں کو سپورٹ کرتے ہیں، ہم چاہتے ہیں اوپن ٹرائل ہوں اور جو قصوروار ہواسے سزا ملنی چاہیے۔ عدالت سے استدعا ہے کہ 9 مئی کی تحقیقات کے لیے جوڈیشل کمیشن تشکیل دیا جائے۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کے وکیل عزیز بھنڈاری کوہدایت کرتے ہوئے کہاکہ آپ صرف قانون کی بات کریں، سیاسی مقاصد کے اہداف اور خواہشات کے حصول کی بات نہ کریں۔
وکیل سلمان اکرم راجا کے دلائل اور ججز کے ریمارکس
درخواست گزار جنید رزاق کے وکیل سلمان اکرم راجا نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہاکہ میرے موکل کے بیٹے کا معاملہ ملٹری کورٹس میں ہے، ٹرائل صرف آرٹیکل 175 کے تحت تعینات کیا گیا، ایف پی ایل ای کیس کا جب فیصلہ ہوا اس وقت تک اختیارات کی تقسیم کا اصول واضح نہیں تھا۔
وکیل سلمان اکرم راجا کے دلائل پر جسٹس عائشہ ملک نے استفسار کیاکہ آپ کس طرح ایف پی ایل ای کو اس کیس کے ساتھ جوڑ سکتے ہیں، کیا آپ کی دلیل یہ ہے کہ فوجی اہلکاوں کا بھی کورٹ مارشل نہیں ہو سکتا؟ جس پر سلمان اکرم راجا نے کہاکہ آئین میں سویلین اور فوجی افسران کی تقسیم نہیں کی گئی، مقدمہ ایک عدالت میں چلے یا دوسری عدالت میں فیئر ٹرائل سمیت دیگر حقوق متاثر نہیں ہوتے۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے استفسار کرتے ہوئے کہاکہ کیا کسی کا ٹرائل شروع ہوا یا نہیں؟ مفروضے پر مبنی بات کر رہے ہیں ، آپ کیس کو مزید الجھاؤ کا شکار کر رہے ہیں، آپ کا کیس یہ ہونا چاہیے کہ سویلین کے حقوق سلب نہیں ہونے چاہیے۔
سلمان اکرم راجا نے کہاکہ سویلینز کی دو اقسام ہیں، ایک وہ جو آرمڈ فورسز کو کوئی سروسز فراہم کرتے ہیں، دوسرے وہ ہیں جن کا فورسز سے کسی قسم کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ دوسری قسم کے سویلینز کا ٹرائل آرٹیکل 175/3 کے تحت تعینات جج ہی کرے گا۔
جسٹس عائشہ ملک نے سلمان اکران راجا کے دلائل کے جواب میں کہاکہ ہم ملٹری کورٹس کو کیسے کہیں گے کہ وہ عدالتیں نہیں ہیں؟ جس پر سلمان اکرم راجا نے کہاکہ ایسی کئی عدالتیں اور ٹریبونل ہیں جن کا آرٹیکل 175/3 سے تعلق نہیں ہے۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے استفسار کیاکہ کیاملٹری کورٹس کے فیصلے چیلنج نہیں ہوسکتے؟ سلمان اکرام راجا نے کہاکہ آرمی چیف کے سامنے یا انکی بنائی کمیٹی کے سامنے چیلنج ہو سکتے ہیں۔ جس پر چیف جسٹس نے کہاکہ آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ ان کورٹس میں اپیل کا دائرہ وسیع ہونا چاہیے۔
چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں کہاکہ ملٹری کورٹس ڈسٹرکٹ کورٹ کی طرح ہوتو کیس کا دائرہ کار وسیع کردے گا، ہم آسٹریلیا یا جرمنی کی مثالوں پر نہیں چل سکتے ہیں۔
جسٹس مظاہر علی نقوی نے درخواست گزار کے وکیل سلمان اکرم راجا سے استفسار کرتے ہوئے کہاکہ آپ کہنا چاہتے ہیں کہ ملٹری کورٹ ایک متوازی نظام ہے جسے عدالت نہیں کہہ سکتے؟ جس پر سلمان اکرم راجا نے کہاکہ جی میں یہی کہہ رہا ہوں کیونکہ وہاں سویلین کو بنیادی حقوق نہیں ملتے۔ آرمی ایکٹ کے تحت ملٹری کورٹس میں ڈسپلن کی خلاف ورزی پر ٹرائل ہوتا ہے۔
چیف جسٹس نے سلمان اکرام راجا کے دلائل کے جواب میں کہاکہ یہ ایک اچھا پوائنٹ ہے۔
جسٹس اعجاز الحسن نے استفسار کیاکہ آپ سویلین کی حد تک ہی ٹرائل چیلنج کررہے ہیں نا؟ آپ آرمی آفیشل کے ٹرائل تو چیلنج نہیں کر رہے؟ وکیل سلمان اکرم نے نفی کرتے ہوئے کہاکہ میں آرمی آفیشل کے نہیں بلکہ سویلین کے ٹرائل کی بات کر رہا ہوں۔
جسٹس منیب اختر نے سلمان اکرام راجا سے مکاملہ کرتے ہوئے کہاکہ ملک میں ایمرجنسی نافذ ہو اور بنیادی حقوق معطل ہوں تو کیا پھر سویلینز کا ملٹری کورٹ میں ٹرائل ہو سکتا ہے؟ جس پر سلمان اکرم راجا نے کہاکہ امریکی قانون اس پر برا واضح ہے۔
چیف جسٹس نے سلمان اکرم راجا سے استفسار کیاکہ امریکا میں جو سویلین ریاست کے خلاف ہوجائیں ان کا ٹرائل کہاں ہوتا ہے؟ ایسے سویلین کا ٹرائل امریکا میں عام عدالتیں کرتی ہیں؟ فیصل صدیقی ایڈووکیٹ نے کہاتھاکہ دنیا میں ملٹری کورٹس میں سویلین کا ٹرائل ہوتا ہے۔
جسٹس عائشہ ملک نے بھی سلمان اکرم سے استفسار کیاکہ کیا ہمارے خطے میں بھی سویلین کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل ہوتا ہے؟ جس پر سلمان اکرم راجا نے کہاکہ بھارت میں ایسا نہیں ہوتا ہے۔
چیف جسٹس نے وکیل سلمان اکرم راجا سے مکالمہ کرتے ہوئے کہاکہ 21ویں آئینی ترمیم کا فیصلہ دیکھیں، مسلح افواج پر ہتھیار اٹھانے والوں پر آرمی ایکٹ کے نفاذ کا ذکر کیا گیا ہے۔
7 رکنی لارجر بینچ کیسے ٹوٹا؟
سپریم کورٹ میں گزشتہ سماعت کے دوران وفاقی حکومت کے وکیل اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے جسٹس منصور علی شاہ کا بینچ میں شامل ہونے پر اعتراض اٹھایا تھا، اٹارنی جنرل نے روسٹرم پر آکر بینچ کے حوالے سے وفاقی حکومت کی ہدایات سے آگاہ کیا، اٹارنی جنرل نے کہا کہ درخواست گزار جسٹس منصور علی شاہ کا رشتہ دار ہے اس لیے ان کے کنڈکٹ پر اثر پڑ سکتا ہے۔
جس کے بعد جسٹس منصور علی شاہ نے خود کو بینچ سے الگ کرتے ہوئے کہا کہ میں نے پہلے دن ہی کہا تھا کہ کسی کوکوئی اعتراض ہے تو بتا دیں۔
چیف جسٹس نے کارروائی کے دوران برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ایک پوری سیریز ہے جس میں پینچ پر بار بار اعتراض اٹھایا جا رہا ہے، آپ ایک مرتبہ پھر بینچ کو متنازع بنا رہے ہیں۔ کبھی کہا جاتا ہے بینچ درست نہیں بنایا گیا، آپ ہمیں ہم خیال ججز کا طعنہ دیتے ہیں۔ آپ کرنا کیا چاہتے ہیں؟ ہم نے ہمیشہ تحمل کا مظاہرہ کیا ہے۔
’ہم نے عدالتی فیصلوں پر عمل درآمد نہ کرنے والوں کو سزا نہیں سنائی، ہم سمجھتے ہیں یہ وقت ایک قدم پیچھے ہٹنے کا ہے۔‘
بیرسٹر سلمان اکرم راجا نے کہا کہ جسٹس منصور شاہ اپنے فیصلے پر نظر ثانی کریں، جس کے جواب میں جسٹس منصور علی شاہ نے کہاکہ میں اپنا کنڈکٹ جانتا ہوں کوئی ایک انگلی بھی اٹھا لے تو میں دوبارہ اس بینچ کا حصہ نہیں رہتا۔
وکیل حامد خان نے کہاکہ اس موقع پر اعتراض کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔
ایڈووکیٹ فیصل صدیقی نے کہاکہ جسٹس ایم آر کیانی نے اپنے طلبا سے مذاق میں ایک بات کہی تھی، انہوں نے کہا کیس ہارنے لگو تو بنچ پر اعتراض کر دو، وفاقی حکومت اب یہی کر رہی ہے۔
واضح رہے چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کیس کی سماعت کے لیے 7 رکنی بینچ تشکیل دیا تھا جس میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحیٰ آفریدی، جسٹس مظاہر علی نقوی اور جسٹس عائشہ ملک شامل تھیں۔
گزشتہ سماعت کا احوال
آج ہونے والی سماعت میں شہری جنید رزاق کے وکیل سلمان اکرم راجا نے دلائل دیے جبکہ اعتزاز احسن کے وکیل لطیف کھوسہ کے دلائل پچھلی سماعت میں مکمل ہو چکے تھے، سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ کے وکیل احمد حسین کے بھی دلائل مکمل ہو چکے ہیں۔
گزشتہ سماعت میں سول سوسائٹی کے وکیل فیصل صدیقی نے بھی اپنے دلائل مکمل کر لیے تھے جبکہ اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان، وزیر اعظم شہباز شریف کے وکیل فروغ نسیم نے آج عدالت کو اپنے دلائل پیش کیے۔
دوسری جانب چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان کے وکیل نے بھی آج مقدمے میں دلائل دیے۔
سپریم کوٹ میں ہونے والی گزشتہ سماعت کے دوران اٹارنی جنرل منصور عثمان نے 9 مئی کے بعد گرفتار افراد کے اعداد و شمار عدالت میں پیش کیے تھے، اٹارنی جنرل کی رپورٹ کے مطابق 9 مئی کے واقعات میں ملوث 102 ملزمان فوج کی تحویل میں ہیں، جن میں کوئی خاتون، کم عمر افراد، صحافی یا وکیل شامل نہیں ہیں۔
پنجاب حکومت نے بھی ایڈووکیٹ جنرل کے ذریعے گرفتار افراد کی فہرست سپریم کورٹ میں جمع کرائی تھی، عدالت عظمٰی نے اسلام آباد سمیت چاروں صوبوں سے گرفتار افراد کی تفصیلات طلب کی تھیں۔