پاکستان کے حالات یہاں کے نوجوانوں کے لیے کچھ زیادہ موافق نہیں ہیں۔ ملک کی 64 فیصد آبادی نوجوان طبقے پر مشتمل ہے۔ یہ پاکستانی نوجوان اپنے ہنر، طاقت و توانائی سے حالات کو بدل سکتے ہیں لیکن حکمرانوں کے ذاتی مفادات اور لاپرواہی کی وجہ سے پاکستان میں بے روزگاری مسلسل بڑھ رہی ہے، جرائم کی شرح میں اضافے کے ساتھ مجموعی داخلی پیداوار بھی بحران کی خبر دے رہی ہے۔
جن خوش نصیب نوجوانوں کو روزگار میسر ہوتا ہے، انہیں وہ وسائل ہی فراہم نہیں کیے جاتے جن کی وجہ سے وہ اپنے شعبے میں نمایاں کارکردگی دکھا سکیں۔
گزشتہ برس ایم بی بی ایس مکمل کرنے اور مختلف مضامین میں ٹاپ کرکے 29 گولڈ میڈل حاصل کرنے والے حافظ ولید ملک تاحال بیروزگار ہیں اور انہیں کہیں بھی نوکری نہیں مل سکی۔
گزشتہ دنوں حافظ ولید ملک نے انسٹاگرام پوسٹ میں انکشاف کیا کہ انہوں نے 20 سے زائد ہسپتالوں میں نوکری کیلئے اپلائی کیا ہے مگر انہیں کہیں سے بھی کوئی مثبت جواب نہیں ملا۔
حافظ ولید ملک نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ نجی ہسپتالوں میں 99 فیصد نوکریاں سفارش کی بنیاد پر دی جاتی ہیں، صرف ایک فیصد نوکریاں میرٹ پر دی جاتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میرا دعویٰ غلط ہوسکتا ہے مگر میں نے ڈگری مکمل کرنے کے بعد یہی کچھ دیکھا ہے۔ اصولی طور پر میرٹ پر ہی نوکریاں ملنی چاہئیں مگر ہمارا نظام اب ناقابل مرمت ہوچکا ہے۔
وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر ولید ملک کا کہنا تھا کہ کہ انہوں نے اس سال جون میں ہاؤس جاب ختم ہونے کے بعد نجی اسپتالوں میں اپلائی کرنا شروع کر دیا۔ ابھی سرکاری اسپتالوں کی سیٹیں کھلی نہیں تھیں۔ نجی اسپتالوں میں پروفیسرز کی سفارش پر لوگوں کو نوکریاں دی جاتی ہیں جب کہ ایسا نہیں ہونا چاہیے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ کہ وہ سفارش کلچر کے خلاف ہیں اور ہمیشہ سے میرٹ پر ڈاکٹر بننا چاہتے تھے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ میں سوچتا ہوں کہ اگر میں اپنی سی وی دیتا ہوں تو وہ میرا انٹرویو کریں، اگر میرٹ پر انتخاب کرسکتے ہیں تو کریں۔
ڈاکٹر ولید کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے انہوں نے اپنے انسٹاگرام پر پوسٹ کیا تھا کہ میں نوکری ڈھونڈ رہا ہوں اور یہ بھی بتایا کہ سفارش کلچر موجود ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں سفارش کلچرایک حقیقت ہے۔ کسی عام طالب علم کے لیے بھی اور کسی ٹاپر طالب علم کے لیے بھی۔ میرا مقصد سوشل میڈیا پر وائرل ہونا نہیں تھا، مجھے یہ چیز پسند نہیں ہیں کہ لوگ یہ کہنے لگیں کہ اس شخص کو 29 گولڈ میڈل ملے اور یہ بے روزگار ہے۔ انہیں آج بھی اس چیز پر فخر ہے کہ انہوں نے ایم بی بی ایس جیسی مشکل تعلیم میں 29 گولڈ میڈل حاصل کیے۔
انہوں نے بتایا کہ سفارش کلچر موجود نہیں ہونا چاہیےاور سرکاری اور نجی اداروں میں چیزیں غیر جانبدار ہونی چاہییں۔ مگر آپ نجی اداروں کو بھی نہیں کہہ سکتے کہ ایسا نہیں ہونا چاہیے کیونکہ یہ ان کی اپنی مرضی ہوتی ہے۔
ہم صرف سرکاری اداروں پر بات کر سکتے ہیں مگر صحت کا نظام ہر جگہ ایسا ہی ہے۔
حافظ ولید ملک کی انسٹا گرام پوسٹ کے بعد یہ معاملہ سوشل میڈیا پر وائرل ہو چکا ہے اور لوگ اس پر اپنا رد عمل دے رہے ہیں۔
سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر ایک صارف نے ٹویٹ کرتے ہوئے لکھا کہ ڈاکٹر ولید ملک نے 29 گولڈ میڈل لیے ہیں مگر ابھی تک نوکری ڈھونڈ رہے ہیں، یہ ہے پاکستان کا تعلیمی نظام۔
Dr waleed malik , won 29 gold 🥇 medals and is still jobless. This is the education system of Pakistan 🇵🇰 pic.twitter.com/u1OfTimNrk
— Nawab (@nawaabsadiiq) June 23, 2023
سمین نے اپنے ٹویٹ میں لکھا کہ 29 طلائی تمغہ جیتنے والے ڈاکٹر ولید ملک نے کہا کہ انہوں نے 20 نوکریوں کے لیے اپلائی کیا لیکن کوئی نہیں ملی کوئی بھی آپ کی محنت اور قدر کو نہیں دیکھتا، وہ صرف یہ دیکھتے ہیں کہ آپ کتنی مضبوط سفارش کروا سکتے ہیں، میں اس نظام سے اکتا چکی ہوں۔
Dr. Waleed malik, the 29 gold medalist, said he applied for 20 jobs and didn't get any. I mean, this system has got to be screwed to the core for this to happen, right? No one sees your hard work & worth, all they see is how strong of a source you can afford. So effed up
— Sameen (@rantqueeen_) June 23, 2023
قومی انسانی ترقی انڈیکس کے سرویز کے مطابق پاکستان کی 60 فیصد سے زائد آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے جبکہ پاکستان دُنیا کے 5ایسے ممالک میں شامل ہے جن کی اکثر آبادی نوجوان ہے جبکہ بیروزگاری کی شرح 5فیصد سے زائد ہے۔
عالمی درجہ بندی کے مطابق پاکستان بیروزگاری میں 16ویں نمبر پر ہے، پاکستان بیورو آف امیگریشن اینڈ اوورسیز ایمپلائمنٹ کے مطابق 2021 میں پاکستان سے بیرون ملک جانے والے نوجوانوں کی تعداد 2لاکھ 88 ہزار تھی، 2022 میں یہ تعداد 3گُنا بڑھ کر سوا 8لاکھ سے تجاوز کر گئی ہے جبکہ 2023 میں اب تک 2 لاکھ سے زائد ہنرمند افراد بیرون ملک جا چکے ہیں۔
آبادی میں بے تحاشا اضافہ بھی ایک مسئلہ ہے مگر اتنی بڑی نوجوان آبادی کو ملکی ترقی کے لیے استعمال نہ کرنا زیادہ بڑا المیہ ہے۔
یہی وجہ ہے کہ بے روزگاری سے تنگ نوجوان مجبور ہو کر غیر قانونی طریقے سے باہر جانے کی کوشش کرتے ہیں اور پھر یونان جیسے واقعات رونما ہوتے ہیں۔
یورپی بارڈر اور کوسٹ گارڈ کے ادارے فرانٹکس کے مطابق جنوری اور مئی کے درمیان یورپی یونین کی بیرونی سرحد پر ایک لاکھ 2 ہزار غیرقانونی تارکین وطن کا پتا چلا ہے۔ یہ تعداد گزشتہ سال کے مقابلے میں 12 فیصد زیادہ ہے اور 2016 کے بعد سب سے زیادہ ہے۔
بے روزگاری ہمارا سب سے بڑا مسئلہ ہے- پاکستان کو درپیش چیلنجز کو آپ کسی بھی نظر سے دیکھیں، لگتا یہی ہے کہ روزگار کا فقدان ہی سب سے برا مسئلہ ہے۔ چاہے وہ دہشت گردی کا معاملہ ہو، صحت کے مسائل ہوں یا پھر سیاسی حالات، ہر بحران کے پیچھے اصل مسئلہ بے روزگاری ہے۔
یہ کہنا بھی ٹھیک نہیں ہو گا کہ مختلف وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے کچھ نہیں کیا- تاہم یہ بھی سچ ہے کہ اس حوالے سے انہوں نے جو طریقہ کار اختیار کیا وہ نہ صرف غلط ہے بلکہ اس میں بڑے پیمانے پر تبدیلی کی ضرورت ہے۔