پاکستان مسلم لیگ ن کے قائد اور سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کی اگست میں وطن واپسی کی خبریں گردش کر رہی ہیں۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق نواز شریف کی پاکستان واپسی کا روڈ میپ طے کیا جا رہا ہے جس کے لیے وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کی سربراہی میں قانونی ٹیم بھی تشکیل دی جا چکی ہے۔
اس حوالے سے ن لیگ کی لیڈرشپ خاصی پریقین دکھائی دیتی ہے کہ نواز شریف اگست میں وطن واپس آجائیں گے اور جہاں تک جیل جانے کی بات ہے وہ تو انہوں نے ماضی میں بھی کاٹی ہیں اور اب بھی اس سے نہیں گھبرائیں گے تاہم سینیئر صحافیوں اور تجزیہ کاروں کی رائے میں گو نواز شریف کی جلد واپسی ان کی پارٹی کے لیے انتہائی اہمیت کی حامل ہوگی لیکن پھر بھی وہ اتنی جلدی واپس نہیں آئیں گے۔
نواز شریف کی اگست میں واپسی ممکنہ نہیں بلکہ یقینی ہے، نائب صدر ن لیگ
مسلم لیگ ن کے نائب صدر آغا شاہزیب درانی نے وی نیوز کو بتایا کہ کسی مخصوص تاریخ کے حوالے سے تو کچھ نہیں کہا جا سکتا مگر اگست میں میاں نواز شریف کی پاکستان واپسی متوقع نہیں بلکہ یقینی ہے۔
آغا شاہزیب درانی نے کہا کہ جہاں تک یہ کہا جا رہا ہے کہ وہ گرفتاری کے ڈر سے جلدی نہیں آئیں گے تو یہ بات واضح ہے کہ وہ گرفتاریوں اور جیل جانے سے نہیں ڈرتے۔ انہوں نے مزید کہا کہ نواز شریف سنہ 1998 میں اور اس کے بعد عمران خان کے دور حکومت میں بھی جیل میں رہ چکے ہیں تو اب اپنی حکومت کے ہوتے ہوئے انہیں کس بات کا ڈر ہوگا۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ میاں نواز شریف اپنے دور حکومت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے نہیں بلکہ حکمت عملی کے تحت پاکستان آرہے ہیں اور یہ ایک لیڈر کی خصوصیت ہے کہ اسے معلوم ہوتا ہے کہ کب کس طرح چلنا ہے۔
ن لیگ کے نائب صدر کا کہنا تھا کہ اگر نواز شریف سابق وزیراعظم عمران خان کے دور حکومت میں ہی واپس آتے اور جیل چلے جاتے تو انہیں نقصان بھی پہنچایا جا سکتا تھا جس سے پارٹی مشکل میں پڑجاتی اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار بھی ہوسکتی تھی اس لیے نواز شریف ایک حکمت عملی کے تحت اب آرہے ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ چوں کہ انتخابی مہم اور دیگر معاملات بھی نواز شریف کو ہی دیکھنے ہیں اس لیے وہ ہر صورت انتخابات سے قبل پاکستان آجائیں گے۔
نواز شریف کی جلد واپسی ناگزیر ہے لیکن وہ ابھی نہیں آئیں گے، سہیل وڑائچ
سینیئر صحافی اور تجزیہ نگار سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ ان کے خیال میں نواز شریف کو پاکستان واپس آنے میں ابھی وقت لگے گا کیوں کہ وہ اپنے بھائی کے دور حکومت میں جیل نہیں جانا چاہتے اس لیے وہ اپنے خلاف تمام مقدمات میں ضمانت مل جانے کا انتظار کریں گے۔
سہیل وڑائچ نے کہا کہ کہ جب تک نواز شریف کی وطن واپسی نہیں ہوتی تب تک ن لیگ انتخابات کے لیے مضبوط نہیں ہوسکتی کیوں کہ وہی آکر پارٹی کا بیانیہ آگے بڑھائیں گے اور ٹکٹ تقسیم کریں گے لیکن ان سب باتوں کے باوجود وہ اتنی جلدی پاکستان واپس نہیں آئیں گے۔
ضمانت و دیگر انتظامات سے پہلے نواز شریف کی وطن واپسی نہیں ہوگی، حامد میر
معروف صحافی و تجزیہ کار حامد میر کا کہنا تھا کہ اگست میں ہی کیوں نواز شریف کو فوری طور پر پاکستان آجانا چاہیے کیوں کہ وہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں سب کے سامنے قوم سے وعدہ کر کے گئے تھے کہ وہ علاج کے لیے جا رہے ہیں اور جلد واپس آجائیں گے۔
حامد میر نے خیال ظاہر کیا کہ نواز شریف اتنی جلدی وطن واپس نہیں آئیں گے کیوں کہ انہیں گرفتاری کا خطرہ ہے جس کے لیے وہ حفاظتی ضمانت چاہ رہے ہیں اور اس کے علاوہ وہ یہ بھی چاہتے ہوں گے کہ ان کے گھر کو سب جیل قرار دے دیا جائے لہٰذا ان تمام انتظامات کے بعد ہی وہ وطن آئیں گے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ضمانت حاصل کرلینے کے باوجود نواز شریف کو عدالت میں اپنے کیسز کا سامنا کرنا چاہیے۔
اگست میں بھی واپس آئے تو تاخیر ہی کہلائے گی، انصار عباسی
معروف صحافی و تجزیہ کار انصار عباسی نے اس حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اگر نواز شریف اگست میں بھی آتے ہیں تو ان کے خیال میں یہ بھی تاخیر سے آمد ہوگی کیوں کہ انہیں واپس آکر انتخابی مہم بھی چلانی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ’اگر نواز شریف کو سیاست میں مائنس سے دوبارہ پلس ہونا ہے تو انہیں وطن واپس آنا ہوگا‘۔
انصار عباسی کا کہنا تھا کہ انتخابات نومبر میں ہوں گے اور اگر اسمبلیاں 13 اگست کو تحلیل ہو جاتی ہیں اور نواز شریف 14 اگست کو آتے ہیں تو پھر ان کے پاس وقت نہیں رہے گا کیوں کہ ان پر جو مقدمات ہیں ان میں بھی وقت لگے گا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ نواز شریف کو ایک فائدہ یہ ہے کہ نگراں حکومت بھی مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کی ہوگی تو انہیں تحفظ فراہم کیا جائے گا لیکن اگر وہ اگست میں بھی واپس آتے ہیں تب بھی بہت دیر ہوچکی ہوگی۔