بے یقینی کے دبیز سائے تھوڑی تھکن محسوس کرنے لگے ہیں اور اب وہ تصویریں اور خاکے جو کبھی دھندلے دکھائی دیتے تھے، واضح ہونے لگے ہیں۔ یہ ہے وہ حقیقی پاکستان جس کی خوب صورت اور چمک دار تصویر نام نہاد نئے پاکستان کے دھندلکوں میں گم ہوتی دکھائی دیتی تھی۔
سوالات کئی ہیں۔ مثلاً یہ کہ یہ جو کچھ عدالتوں میں ہو رہا ہے، اس کا مقصد تو واضح ہے لیکن یہ کیا نتائج پیدا کرے گا اور کس انجام کو پہنچے گا؟ عدالتی عمل کے ساتھ ساتھ پارلیمنٹ میں بھی کچھ ایسی سرگرمیاں جاری ہیں جن کے اثرات گہرے اور دور رس ہوں گے۔ پی ٹی آئی کے حمایت میں تمام حدود عبور کر جانے والے صدر کی موجودگی کے باوجود تیزی سے کی جانے والی قانون سازی کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا؟
سوال صرف اتنا نہیں ہے، اس سے کچھ بڑھ کر ہے کہ اس قسم کی قانون سازی ظاہر ہے کہ ایک طبقے کے عزائم اور خواہشات کے بالکل برعکس ہے، یہ ٹکراؤ معاملات کو کیا رخ دے گا؟
کچھ دن ہوتے ہیں، جناب آصف علی زرداری لاہور پہنچے تو ان کی سرگرمیوں کو ہمارے بعض اہل صحافت نے سنسنی خیز صورت دے دی۔ بتایا گیا کہ وہ جو اس اتحاد کے درمیان ہم آہنگی اور گرم جوشی پائی جاتی ہے، اس پر وسطی پنجاب میں اثرات بڑھانے کی پیپلز پارٹی کی خواہش اور پنجاب حکومت کے زور پر اسے بلڈوزر کرنے کی لیگی کوششوں نے مل کر پانی پھیر دیا ہے۔
یہ خبریں ابھی گرم ہی تھیں کہ وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری کی طرف سے خیبر پختونخوا کے ایک جلسے میں دیا گیا الٹی میٹم سامنے آ گیا۔ اس الٹی میٹم نے کشیدگی کی خبریں دینے والوں کو گویا ثبوت فراہم کر دیا لیکن ثبوت پانے والے ابھی اپنے ثبوتوں کو ٹٹول ہی رہے تھے کہ اسی بلاول نے میاں شہباز شریف کو اپنا وزیر اعظم اور وزیر خزانہ اسحاق ڈار کو اپنا انکل قرار دے دیا۔ یوں معاملہ ایک بار پھر الجھ گیا کہ اختلاف درست ہے یا اتفاق کی گرم جوشی؟
سوالات کچھ اور بھی ہو سکتے ہیں لیکن سوالات کی اس کشاکش میں اصل سوال کہیں پیچھے نہ رہ جائے۔ بہتر ہے کہ اسی سوال کی گہرائی میں اترنے کی کوشش کی جائے۔
ابھی یہاں پارلیمنٹ کے تحرک اور قانون سازی کا ذکر ہوا۔ ایک قانون سازی ایسی بھی ہوئی ہے جس کے تحت صدر مملکت کی طرف سے عام انتخابات کی تاریخ دینے کا اختیار سلب ہو کر الیکشن کمیشن کو منتقل ہو گیا ہے۔ اس قانون سازی سے ذہن فطری طور پر ڈاکٹر عارف علوی کی طرف متوجہ ہو جاتا ہے۔ ڈاکٹر علوی کی جگہ اگر کوئی ایسا شخص بھی ذہن میں آ جائے جو حکمراں جماعت کے دوسری طرف کھڑا ہو تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں۔
کہنا یہ ہے کہ اس قانون سازی سے ذہن اس طرف جاتا ہے کہ حکومت نے اس امکان کے پیش نظر کہ کوئی بھی مخالف صدر کسی بھی وقت مسائل پیدا کر سکتا ہے لہذا انتخابات کی تاریخ دینے کے ضمن میں اس کا اختیار ہی سلب کر لیا جائے۔ یہ بات اگر کسی کے ذہن میں آتی ہے تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں لیکن اس سلسلے میں دو پہلو اہم ہیں۔ ایک تو یہی کہ انتخابات کی تاریخ دینے کے ضمن میں الیکشن کمیشن ہر دباؤ سے آزاد ہو گیا ہے۔ اس قانون کا دوسرا پہلو اس سوال سے جڑا ہوا ہے کہ آئندہ عام انتخابات کب ہوں گے؟
موجودہ سیاسی منظر نامے کا سب سے بڑا سوال یہی ہے جو دبئی میں ہوا یا ہو رہا ہے اور اس کے بعد کچھ سعودی عرب یا لندن وغیرہ میں سرگرمی ہو گی، اس کا تعلق بھی اسی سوال سے ہو گا۔ یہاں تک کہ میاں نواز شریف کی واپسی کے سوال کا جواب بھی اسی سوال کے بطن سے برآمد ہو گا۔
عمومی خیال یہی ہے کہ موجودہ حکومت انتخابات اپنے وقت پر نہیں کرانا چاہتی۔ وہ کچھ ایسی مہلت چاہتی ہے جس میں وہ اپنی کھوئی ہوئی مقبولیت کو بحال کر سکے اور کچھ ایسے اقدامات کر سکے جس سے مہنگائی کے دباؤ میں کراہتے ہوئے عوام قدرے سکون کا سانس لے سکیں۔ یہ انداز فکر حکومت کے ایوانوں اور ان ایوانوں کے بعض مکینوں کے میں پایا ضرور جاتا تھا لیکن اب یہ کچھ پرانی بات ہے کیونکہ حالیہ قانون سازی کے بعد ان کی حکمت عملی اور منصوبے میں تبدیلی رونما ہو چکی ہے۔
انتخابات کی تاریخ کا تعین الیکشن کمیشن کو منتقل ہو جانے کے بعد ایک پہلو پر ابھی تک توجہ نہیں دی جاسکی۔ اس تبدیلی کا تعلق ملک میں جاری بعض آئینی سرگرمیوں کے ساتھ ہے۔ یہ آئینی سرگرمیاں کیا ہیں؟ ایک آئینی سرگرمی ہے، مردم شماری کے نتائج کا مرتب ہونا۔ دوسری سرگرمی اسی سرگرمی کے ساتھ منسلک ہے، یعنی ان نتائج کی بنیاد پر حلقہ بندیوں کی تشکیل۔ حالیہ قانون سازی نہ صرف یہ کہ اپنی گہرائی اور گیرائی کے اعتبار سے غیر معمولی ہے بلکہ موجودہ حالات میں حکومت کی ایک ایسی ضرورت بھی پوری کرتی ہے جسے پورا کرنے کے لیے اگر کوئی مختلف ذریعہ اختیار کیا جاتا تو اس کے لیے اتحاد کے اندر اور باہر خاصے مسائل بھی پیدا ہو جاتے۔
اب اندازہ یہی ہے کہ مردم شماری کے نتائج اور حلقہ بندیوں کا معاملہ نمٹتے نمٹتے آپ سے آپ کچھ ایسا نظام الاوقات بن جائے گا جس کی وجہ سے نومبر یا زیادہ سے زیادہ دسمبر تک عام انتخابات ہوسکیں گے اور اس مقصد کے لیے حکومت کو از خود کسی قانون سازی کی ضرورت پڑے گی اور نہ کسی دوسرے سہارے کی۔ یوں وہ مخالفین کے طعن و تشنیع کا نشانہ بننے سے یقینی طور پر بچ جائے گی۔
اب رہ گیا یہ سوال کہ اس منظر نامے میں نواز شریف کہاں فٹ ہوتے ہیں؟ عام طور پر کہا یہی جاتا ہے کہ جسٹس بندیال کے غروب کے ساتھ ان کا سورج طلوع ہوگا تاکہ وہ یقینی گرفتاری سے بچ سکیں لیکن سوال یہ ہے کہ نواز شریف نے کیا کبھی گرفتاری سے پہلو بچایا ہے جو وہ اب بچائیں گے؟ واپسی کی صورت میں اگر ان کی گرفتاری بندیال دور میں ہوتی ہے یا کسی مختلف صورت حال میں ، نواز شریف کو اس کی پروا نہیں ہوگی۔ اب وہ بہر صورت لوٹیں گے لیکن ان کی واپسی کا نظام الاوقات جاننے کے لیے الیکشن کمیشن کی سرگرمیوں پر نگاہ رکھنی ہوگی۔ سادہ الفاظ میں یوں کہہ لیں تو شاید درست ہو کہ مستقبل کے وزیر اعظم کی جلا وطنی میں یہ آخری عید ہے۔