ہم ایک گوشت خور قوم ہیں

پیر 17 جون 2024
author image

مہوش بھٹی

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

ہم ایک گوشت خور قوم ہیں۔ ایک جذباتی حد تک گوشت خور قوم۔ ہم جمہوریت کی قربانی دے سکتے ہیں لیکن گوشت کے بغیر سالن ہمارے حلق سے نہیں گزر سکتا۔ ہم سبزی گوشت کے سالن میں سے سبزی نکال کر گوشت کھانے والے لوگ ہیں۔ یہ عشق گوشت پُورا سال اسی جذبے سے محسوس کیا جاتا ہے۔ اور اسی جذبے کی ترجمانی بکرا عید پر اور بھی کھل کر سامنے آتی ہے جب ہم پہلے تِین دن ایسے گوشت کھاتے ہیں جیسے اب پُورا سال نہیں ملنا۔ اِس عید پر والہانہ انداز سے گوشت كھانا بنیادی طور پر اپنے آپ سے یہ وعدہ ہوتا ہے کہ بقیہ پورا سال بھی ایسے ہی گوشت پھڑکانا ہے۔

عيد الاضحى یا بڑی عید یا بکرا عید، آپ کو جو بھی مناسب لگے، ہمیشہ سے بچوں کے لئے زیادہ اہم رہی ہے۔ میرے لیے تو رہی ہے۔ میں نے تمیز سے بات کرنا بکرے سے ہی شروع کی تھی کیوں کہ وہ باہر کا تھا۔ تھوڑی ٹینشن تھی کہ کہیں برا نہ مان جائے۔ جب میں بڑی ہوئی، اِس حادثے کو ہوئے اب کافی سال بیت چکے ہیں، تو میری والدہ نے مجھے بتایا کہ میں بکرے کو کہہ رہی تھی “آپ كھانا کیوں نہیں کھا رہے ؟ ”۔ آج تک آپ نے کبھی بکرے کو آپ کہا ہے ؟ اِس لیے میں ہمیشہ بکروں کی شکر گزار رہوں گی۔

ہاں جی، تو بکرا عید پر، حسب ذائقہ اور حسب صنفی کردار، عورتیں کچن میں ہی پائی جاتی ہیں اور مرد بکروں کے ساتھ۔ جب قربانی کا گوشت آتا ہے تو شاید ہی کوئی ایسا بکرے کا حصہ ہو جو ہم بخش دیں۔ دینے دلانے کے بعد جو پکوان کا سلسلہ شروع ہوتا ہے، وہ ختم ہونے کی طرف آتا ہی نہیں۔ پہلے بنتی ہے کلیجی، پِھر چپلی کباب، پِھر پلاؤ، پِھر بلا وجہ آلو گوشت، اور پِھر بے وجہ خالی گوشت کا سالن اور پِھر فرائی گوشت جس کی مجھے سمجھ ہی نہیں آتی اور پِھر ران روسٹ۔ ران روسٹ ہونا ایک مکمل تقریب ہوتی ہے۔ پِھر آ جائیں پائے کی طرف، گردے کپورے اور اوجری۔ بھائی، ٹائیٹینک اتنی گہرائی میں نہیں گئی ہوگی جتنا ہم بکرے کی گہرائیوں کو چھو لیتے ہیں۔ ایسی کوئی غیبی طاقت آجاتی ہے کہ ہم یہ سب کچھ کھائے جاتے ہیں، بغیر کسی وقفے کے۔ ہم اپنا دِل، جگر، گردے اور پیٹ سب وقف کر دیتے ہیں بکرے کو۔

ہو سکتا ہے آپ اِس سے بھی متفق نا ہوں کیوں کہ میں گوجرانولہ شہر سے ہوں۔ ہمارے ہاں ایسے ہی گوشت کھایا جاتا ہے۔ بلکہ ہمارے ہاں سب کچھ ایسے ہی کھایا جاتا ہے۔ ہم اٹھتے ہیں تو پہلا سوال یہی ہوتا ہے کہ كھانا کیا ہے۔ ناشتہ کرتے ہوئے ہم سوچ رہے ہوتے ہیں کہ اب دوپہر میں کیا كھانا ہے۔ لگے ہاتھوں ہم یہ بھی سوچ لیتے ہیں کہ دوپہر اور شام میں کافی گھنٹے ہیں، وہ کیوں ضائع کریں۔ اس میں بھی کچھ سوچ لیا جائے۔ یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے جب تک اگلی صبح نہیں آ جاتی۔ جیسے لوگ ہر بات پر چائے پیتے ہیں، اسی طرح ہم ہر بات پر کچھ کھا لیتے ہیں۔

سائنس بہت کچھ کہتی ہے کھانے کے بارے میں۔ ایک اعتدال سے کھائیں، یہ اِس ٹائم کھائیں، گوشت کم ہی کھائیں۔ لیکن یہ خیال کہ گوشت پڑا ہوا ہے اور اس کا کوئی پرسان حال نہیں ہمیں دلبرداشتہ کر دیتا ہے اور ہم کہتے ہیں، اب نہیں تو کب ؟ ہم نہیں تو کون ؟

یہ تو تھا کہ ہم کرتے کیا ہیں اِس عید پر۔ لیکن میں اِس سب کا دفاع نہیں کر رہی۔ بس یہی روایت ہے۔ حیرانگی بھی ہوتی ہے کہ آخر 3 دن مکمل طور پر گوشت کے نام کیوں ہو جاتے ہیں جب کہ ہم روز ہی گوشت کھا رہے ہوتے ہیں۔ کبھی کبھی تو دانت بھی جواب دے جاتے ہیں چبا چبا کر لیکن وہ عید کے تِین دن دال چاول کے خیال پر بھی لعنت پھٹکار ہی ملتی ہے ”عزیز و اقارب“ سے۔

اور اِس سے پہلے کہ میں مزید کچھ اور کہوں اور لوگ کہیں ”گوشت ہماری ریڈ لائن ہے“، میرے خیال سے مجھے صرف کہہ دینا چاہیے کہ قربانی میں سب کا حصہ رکھیں اور جو بچ جائے اس کے لیے اپنے پیٹ میں تھوڑا حصہ خالی بھی رہنے دیں۔ وہ پنجابی میں کہتے ہیں نہ، ہتھ ہولا !

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

مہوش بھٹی کبھی کبھی سوچتی اور کبھی کبھی لکھتی ہیں۔ اکثر ڈیجیٹل میڈیا کنسلٹنٹ کے طور پر بھی کام کرتی ہیں۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp