بقرعید پر لگنے والی مویشی منڈیوں میں اس سال بھی بھانت بھانت کے قربانی کے جانوروں کی بولیاں لگائی گئیں۔
ان مویشی منڈی کے جانوروں کی ہر سال پورے شہر میں دھوم مچتی ہے۔ جانور چاہے وہ بیل ہو یا گائے، بکرا ہو یا دنبہ ، ہوتے بڑے ہٹے کٹے اور تگڑے۔۔ نجانے ان جانوروں کے مالکان کون سا چارہ کھلا کر انھیں پالتے تھے کہ بقرعید کی آمد تک ان کی ساخت اور حجم سال بھر ملنے والے جانوروں سے کئی گنا زیادہ ہوتا ہے۔
یہی وجہ تھی کہ شہر کے تمام امراء ایسے جانور خریدنے کو اپنی شان سمجھتے اور منہ مانگے دام خوشی سے ادا کرتے تھے۔
متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے بھی پورے سال کی جمع پونجی بہترین جانور خریدنے کے لیے بچا رکھتے تاکہ محلے میں ناک اونچی رہے۔
منڈیوں کے مالکوں نے اس سال بھی جانوروں کو سجانے کا بھی خوب اہتمام کر رکھا ہے۔
مہندی سے بیل گائے بکروں اور دنبوں پر خوبصورت نقش و نگار بنائے جارہے ہیں۔ رنگ برنگی گھنٹیاں اور مالائیں پہنائی جارہی ہیں تاکہ خریدار کو لبھایا جا سکے۔
جانوروں کی قیمتیں لاکھوں کیا اب تو کروڑوں تک پہنچ گئی ہیں۔
ہر خریدار اپنے رب کو خوش کرنے کے لیے مہنگے ترین جانور کا انتخاب کرنے کو ترجیح دیتا ہے۔
دوسرا آس پڑوس والوں پر بھرم ڈالنا بھی مقصود ہوتا ہے۔ اپنی امارت کا سکہ بٹھانے کے چند ہتھکنڈوں میں اب یہ ہتھکنڈا بہت مقبول عام ہے۔ رب کی خوشی سے زیادہ معاشرے میں اپنا رعب و دبدبہ مقدم جو ٹھہرا۔
ورنہ حقوق العباد سے اوپر والے کو خوش کرنا کون سا مشکل عمل ہے؟
جانوروں کی خریداری سے پہلے ہی ڈیپ فریزر اور ریفریجریٹر کی دکانوں پر رش دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ اس عید پر صاحب استطاعت افراد یا تو مویشی منڈیوں کا رخ کرتے پائے جاتے ہیں یا الیکٹرونکس کی دکانوں کا۔
کیونکہ سب سے پہلے گوشت انہی ریفریجریٹر کے اندر سمویا جانا جو ہوتا ہے۔
ایسی منڈیوں میں ایک طرف مالدار خریداروں کا ہجوم ہوتا ہے تو دوسری جانب اس معاشرے کے ستم رسیدہ عوام کی ایک بڑی تعداد بھی روزانہ کی بنیاد پر موجود ہوتی ہے جنھیں ان امراء سے کچھ نہ کچھ خیرات ملنے کی امید یہاں روز کھینچ لاتی ہے۔
یہ وہ لوگ ہیں جو بد قسمتی سے غریب گھرانے میں پیدا ہوگئے اور پھر نسل در نسل یہ معاشرہ انھیں اسی سماجی ڈھانچے میں قید کیے رکھتا ہے۔
مہنگائی کے اس عالم میں جن افراد کو ایک وقت کی روٹی کے لالے پڑے ہو ان کے لیے کیا قربانی ، کیسا ثواب اور کیسی عید۔۔۔؟ بھوکوں کو تو ایک وقت پیٹ بھر کھانا مل جائے وہی ان کی عید ہوتی ہے۔
پچھلے سال کی ورلڈ بینک کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 20 ملین افراد خط غربت سے نیچے زندگی بسر کررہے ہیں۔
اگر تضاد دیکھنا ہو تو ہمارے معاشرے پر ایک نظر ڈال لیجیے ۔ ایک جانب امارات، عیاشیوں ، اور شان و شوکت کا دکھاواعروج پر ہے تو دوسری جانب کروڑوں افراد خط غربت سے نیچے زندگی کے الاؤ میں جلنے پر مجبور ہیں اور روز اس آس پر دن کا آغاز کرتے ہیں کہ شاید آج واپسی پر پیٹ کا دوزخ بھرنے کو ہی کچھ میسر ہو جائے۔ ہر آنے والا دن اس تضاد میں مزید اضافہ ہی کر رہا ہے۔
بقرعید کی آمد پر جس طرح ملک بھر میں مویشی منڈیاں امنڈ آتی ہیں، اسی طرح ان منڈیوں کے ارد گرد ایسے افراد بھی اس آس میں منڈلاتے نظر آتے ہیں کہ صاحب استطاعت لوگ جو کروڑوں روپے حقوق اللہ پر بے دریغ خرچ کر دیتے ہیں وہ کیونکر چند سو یا ہزار روپے حقوق العباد پر خرچ کرنے سے منہ موڑیں گے۔
لیکن انسانیت کا سر شرم سے جھک جاتا ہے جب ایسے امراء قیمتی جانوروں کی ڈوری پکڑے مانگنے والوں کو جھڑک کر مویشی منڈی سے نکل جاتے ہیں۔