کیا پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کرنے والا لائق فائق ہوتا ہے یہ سوال ہر دوسرا شخص کرتا ہے۔ میرے پاس اس کا براہ راست کوئی جواب نہیں ہے حالانکہ میں خود پی ایچ ڈی کا طالب علم رہا ہوں۔ ہم نے ایم فل میں جتنا پڑھا اتنا پی ایچ ڈی میں نہیں پڑھا۔ ایم فل کرتے وقت روزانہ کی بنیاد پر کلاسز ہوتی تھیں۔ ایم فل میں تو اسی باقاعدگی سے پڑھنا پڑا جس طرح سکول کالج اور پھر دوران گریجویشن یونیورسٹی میں پڑھا تھا مگر پی ایچ ڈی کی کلاسز کے وقت کیونکہ ہم ساتھ غم روزگار میں بھی مصروف تھے اور ہفتے میں ایک دو دن ہی کلاسز ہوا کرتی تھیں جو کہ اکثر یونیورسٹیوں میں ہورہا ہے اس لئے ہم نے بھی اس طرح نہیں پڑھا جو کہ پی ایچ ڈی کا حق ہوتا ہے جس طرح ہمارے اساتذہ کرام نے باہر ممالک سے پی ایچ ڈیز کی ہیں اور ایک مقام حاصل کیا ہے اب اگر کوئی ٹیچنگ کے شعبے میں آنا چاہتا ہو اور وہ بھی یونیورسٹی لیول پر پڑھانا ہو تو اس کے لئے ہائر ایجوکیشن کمیشن نے فیصلہ کر لیا ہے کہ اب یونیورسٹیوں میں صرف ایم فل اور پی ایچ ڈی استاد بھرتی کئے جائیں گے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے اب یہاں یہ سوال کہ کیا پی ایچ ڈی کرکے کوئی زیادہ لائق ہوجاتا ہے ؟
پاکستان میں حالیہ سالوں میں جو پی ایچ ڈی کرنے کا جنون لوگوں کے سر پر سوار ہوا ہے وہ دیکھنے لائق ہے ۔ جس سے بھی پوچھا جائے وہ ایم فل یا پی ایچ ڈی کرنے میں مصروف ہے جب سن دو ہزار چار میں ہم کچھ دوستوں نے ایم فل شروع کیا تھا تو جس بندے کو بھی ایم فل کا کہتے وہ پریشانی سے دیکھنے لگتا۔ اب وہ حال نہیں اب جس سے پوچھا جاتا ہے تو جواب ملتا ہے کہ ایم فل کیا جارہا ہے تو سمجھ جائیں کہ بندہ اس امید پر ہائیر ایجوکیشن کے لئے گیا ہے کہ اسے پتہ ہے کہ ملازمت تو ملنے سے رہی تعلیم کو زیادہ کردیا جائے تاکہ اچھی ملازمت ملے اور پھر یوں ایم فل کے بعد وہ سوچتے ہیں کہ اتنا پڑھ لیا ہے تو اب پی ایچ ڈی بھی کرلی جائے اور یوں پی ایچ ڈی میں داخلہ لیا جاتا ہے ۔ کیونکہ اس میں اب پیسے کا دخل آگیا ہے۔
ایسا نوجوان جس پر خاندان کی کفالت کا بوجھ ہو وہ فوری طور پر کوئی بھی ملازمت کر نے کی کوشش کرتا ہے اس کے پاس ایم فل، پی ایچ ڈی کرنے کیلئے وقت ہوتا ہے نہ پیسہ ۔ ایسی ذمہ داری سے آزاد بآسانی ایم فل، پی ایچ ڈی کرلے گا خواہ اول الذکر سے کتنا ہی کم لائق ہو ۔ صرف داخلہ ہونا ضروری ہے۔
اس میں ایک وجہ پرائیویٹ تعلیمی ادارے بھی ہیں یعنی اُن میں ناں کا تصور ہی نہیں ہے وہاں پیسے دو تو ڈگری لازمی مل جائے گی جبکہ سرکاری یونیورسٹیوں میں سیاست کے سوا کچھ ہی نہیں ہے اس لئے زیادہ تر طلبہ کی ڈگریاں پاکستان میں پرائیویٹ تعلیمی ادارے دے رہے ہیں کیونکہ پرائیویٹ چارٹرڈ یونیورسٹیوں میں کسی کو انکار نہیں کیا داخلہ لے لیا تو سمجھیں پاس ہوگئے۔میٹرک کے امتحان میں پچاس فی صد نمبرات والا ، پی ایچ ڈی میں سو فیصد نمبر لے کر پاس ہوجاتا ہے بس شاذ و نادر ایسا ہوا کہ کسی کو کچھ حصہ دوبارہ لکھنا پڑا۔۔
کیونکہ ایم فل اور پی ایچ ڈی میں آپ کو بہت سے کتابوں کو پڑھ کر ایک نئی کتاب تخلیق کرنی پڑتی ہے بلکہ بہت سے لوگ اسے اجرت پر لکھتے ہیں آپ کو یونیورسٹیوں میں ایسے اساتذہ مل جائیں گے جو پیسے لے کر مقالے لوگوں سے لکھوا رہے ہیں اور دوسری زبانوں میں لکھے ہوئے مواد کو تین چار دفعہ اور زبانوں میں ترجمہ کرکے ہیت تبدیل کرلیں آپ کا ایک مقالہ تیار ہوگیا یہ سیدھا سادہ سرقہ ہے مگر اس کو کوئی سافٹ وئیر نہیں پکڑ سکتا۔ بلکہ بہت سے طالب علم تو ممتحن سے ہی لکھوا لیتے ہیں ۔
سوشل میڈیا پر خاص کر انسٹاگرام پر ایسے گروپس موجود ہیں جو پورے تھیسس کا سودا کرتے ہیں ۔ اس طرح کے ایم فل ، پی ایچ ڈی کے معیار کا اندازہ کیا جا سکتا ہے یہ حال صرف سوشل سائینسز کا نہیں بلکہ سائنیسی مضامین کا بھی ہے جس میں پی ایچ ڈی اتنا آسان نہیں۔ ان مضامین میں پی ایچ ڈی کرنے والے بھی انہی فری لانسرز کے ذریعے ملک میں تحقیق کو فروغ دینے میں مصروف ہیں ۔کیونکہ کورونا کے وبا کے دنوں میں کچھ پی ایچ ڈی ڈاکٹرز سے بات ہوئی تھی جنہوں نے تسلی بخش جواب نہیں دیا تھا بلکہ الٹا آئیں بائیں شائیں کررہے تھے ۔
اب یہاں پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا پی ایچ ٖڈی اور ایم فل والے لائق ہوتے ہیں وہ زیادہ بہتر پڑھائیں گے ۔ تو میری نظر میں نہیں۔ کیونکہ میں گزشتہ پندرہ سالوں سے یونیورسٹیوں میں پڑھا رہا ہوں میں نے ایسا کچھ خاص فرق نہیں دیکھا بلکہ ہم ہائی پروفائل سے ضرور متاثر ہوئے کہ اگر اتنے یہ لائق ہیں تو امریکہ والے اسے وہاں کیوں نہیں لے کر گئے ۔
جو ہم پڑھا رہے ہیں وہ مضمون یہ بھی پڑھانے پر مامور ہیں ۔ان کے طالب علموں کے بھی وہی نمبرات آرہے ہیں جو ہمارے طالب علموں کے آتے ہیں حالانکہ ہم پی ایچ ڈی نہیں ۔ اسی طرح بعض شعبہ جات میں ماسٹر کے لوگ پڑھا رہے ہیں مگر طالب علموں یا طالبات میں کوئی خاص فرق سامنے نہیں آیا بلکہ بعض جگہوں پر تو پی ایچ ڈی سے زیادہ بہتر ماسٹر والوں نے پڑھایا ہے ۔
اب تو کالجوں میں بھی بی ایس کے مضامین شروع ہوگئے ہیں انہیں ماسٹر ڈگری والے پڑھا رہے ہیں اور یونیورسٹیوں میں پی ایچ ڈی والے پڑھا رہے ہیں مگر ڈگری دونوں اداروں میں پڑھنے والوں کو ایک ہی مل رہی ہے تو کیا کالج والے بچے یا بچیاں نالائق ہیں ؟کالج سے یونیورسٹی کے میرے اساتذہ میں سے سب سے لائق استاد ایم فل تھے نہ پی ایچ ڈی۔ یونیورسٹی میں بعض اساتذہ نے ہمارے سامنے پی ایچ ڈی کی۔ اس طرح ترقی کیلئے ایک رسمی شرط ضرور پوری ہوگئی لیکن وہ اتنے ہی لائق رہے جتنے پہلے تھے۔
البتہ یہ ہوا ان کے ناموں کے ساتھ ڈاکٹر لگ گیا اور اب بہت سے دوستوں کو بھی ڈاکٹر بنوا دیا ۔میرے ناقص خیال کے مطابق تو پڑھانے کے لئے محض پی ایچ ڈی کی ڈگری ہی کافی نہیں ہوتی۔ پڑھانا اور تحقیق دو مختلف چیزیں ہیں ۔ ضروری نہیں کہ ایک اچھا استاد اچھا محقق بھی ہو۔ جس ملک میں پیسے دے کر مقالے چھپوائے جائیں اور ایک مقالے میں دس بارہ محقیقین کے نام ہوں جنہیں اپنے مقالے کے ٹائٹل کا بھی پتہ نہ ہواور ایچ ای سی کی اس حوالے سے کوئی اصلاحی کام نہ ہو بلکہ وہ خود راہ ہموار کریں تو وہاں کیا پی ایچ ڈی اور کیا وہاں پڑھنے کا پڑھانے کی پالیسی ہوگی ۔یعنی ہم صرف ڈگری یافتہ نا اہل لوگ پیدا کر رہے ہیں۔ جنہیں نہ تحقیق آتی ہے اور نہ ہی پڑھانا آتا ہے البتہ تنخواہ کے بڑھانے کے معاملے میں یہ سب سے پہلے صف میں موجود ہوتے ہیں ، اس حوالے سے یہ نہیں کہ حکومت کو معلوم نہیں وہ تمام معاملات سے باخبر ہوکر بھی چشم پوشی سے کام لے رہی ہے