آئی ایم ایف معاہدے میں بلاول اور آرمی چیف نے بھی اہم کردار ادا کیا، شہباز شریف

جمعہ 30 جون 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا ہے آئی ایم ایف سے معاہدہ ہوگیا ہے جس کا اعلان عالمی ادارے نے اپنے اعلامیے میں بھی کیا ہے۔

لاہور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ سنہ 2018  تک نواز شریف کی قیادت میں ملک ترقی کی منازل طے کر رہا تھا اور سی پیک معاہدے پر بھی تیزی سے عمل ہوا، بجلی کے منصوبے مکمل کیے گئے اور کئی منصوبے پایہ تکمیل تک پہنچے جس کے باعث ملک دیگر ممالک سے دوڑ میں تیزی سے آگے بڑھ رہا تھا۔

شہباز شریف نے کہا کہ سنہ 2018 کے انتخابات تاریخ کے بدترین الیکشن تھے اور اس وقت آنے والی حکومت نے آئی ایم ایف کے معاہدے کی دھجیاں بکھیر کر رکھ دیں اور پاکستان پر سے عالمی اداروں کا بھروسہ اٹھ گیا۔

انہوں نے کہا کہ گو کورونا کی وبا آئی اور مشکلات پیش آئیں لیکن اس وقت کی حکومت نے معاملات ٹھیک سے نہیں نمٹائے اور ملک کو نقصان ہوا۔

شہباز شریف نے کہا کہ یہ 9 ماہ کا معاہدہ ہے جس کی منظوری وسط جولائی میں آئی ایم ایف بورڈ سے ہوجائے گی۔

انہوں نے کہا کہ اسحاق ڈار اور ان کی ٹیم بھی مبارکباد کی مستحق ہے جنہوں نے اس معاہدے کے لیے سرتوڑ کوششیں کیں۔ انہوں نے کہا کہ بلاول زرداری نے بھی بھرپور سفارت کاری کی، آرمی چیف نے بھی اپنا کردار کیا اور یہ ایک ٹیم ورک ہے جس کی وجہ سے ہم شدید مشکل سے باہر آئے۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ کوئی فخر کی بات بھی نہیں کیوں کہ قرضہ ہمیں مجبوری میں ہی لینا پڑا اور عوام بھی دعا کرے کہ یہ آخری مرتبہ ہو کہ ہم آئی ایم ایف سے قرضہ لیں اور اس کے بعد ہمیں ضرورت ہی نہ پڑے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ترکی سمیت دیگر ممالک ہیں جنہوں نے آئی ایم ایف کے قرضوں سے جان چھڑالی ہے اور انہیں اس کی ضرورت نہیں۔

انہوں نے کہا کہ اس عرصے کے دوران چین نے پاکستان کو انتہائی مشکل صورتحال سے دوچار ہونے سے بچایا۔ انہوں نے مزید کہا کہ سعودی عرب نے 2 ارب ڈالر کا وعدہ پورا کیا اور متحدہ عرب امارات نے بھی وعدہ پورا کیا۔

شہباز شریف نے کہا کہ سری لنکا جو خود مشکلات کا شکار تھا وہ پاکستان کو دلاسے دے رہا تھا لیکن ہمارے اپنے ملک میں کچھ لوگ پاکستان کو ڈیفالٹ قرار دے رہے تھے اور اس کے لیے دشمنوں سے بڑھ کر کردار بھی ادا کر رہے تھے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ملک کے دوست نما دشمنوں اور بیرون ملک کے کچھ عناصر نے بھرپور کوشش کی کہ ملک دیوالیہ ہوجائے اور 9 مئی والی سازش بھی کی گئی۔

وزیر اعظم نے کہا کہ معاشی بحالی کا ماسٹر پلان بنا لیا گیا ہے تاکہ پاکستان قرضوں کا محتاج نہ رہے اور ہم نے مل کر اس پر عمل کرلیا تو پھر پاکستان کی ترقی کو کوئی نہیں روک سکتا۔ انہوں نے کہا کہ ان کی آرمی چیف، صوبائی حکومتوں اور دیگر سے بات ہوچکی ہے اور ایک دن آئے گا کہ ہم قرضوں کے مرہون منت نہیں رہیں گے۔

عالمی مالیاتی ادارے سے پیرس میں ہونے والی میٹنگ ٹرننگ پوائنٹ ثابت ہوئی، شہباز شریف

انہوں نے کہا کہ ملاقات کے دوران آئی ایم ایف سربراہ نے کہا کہ اب 30 جون قریب ہے وقت نہیں رہا، پھر میں نے ان سے کہا کہ ہم نے آپ کی کونی شرائط تسلیم نہیں کی، ہم سب نے اپنا سیاسی سرمایہ داؤ پر لگالیا ہے صرف اس لیے کہ پاکستان کو دیوالیہ ہونے نہ دیں اور پاکستان کے استحکام کے لیے ہم نے کڑوے فیصلے کیے ہیں۔

وزیراعظم نے کہا کہ آئی ایم ایف سربراہ نے کہا کہ 2 ارب ڈالر کے گیپ کا کیا ہونا ہے جس کے بعد میں نے اسحٰق ڈار سے رابطہ کیا اور کہا کہ پاکستان کے مستقبل کا معاملہ ہے کچھ کریں، مجھے وہاں پتا چلا کہ اسلامک ورلڈ بینک کے چیئرمین آئے ہوئے اور میں نے اپنے سفیر کے ذریعے ان کو ملاقات کے لیے پیغام بھیجا اور ان سے ملاقات کرکے 2 ارب ڈالر دینے کی درخواست کی جس کے بعد انہوں نے واپس جاکر ایک ارب ڈالر کا اعلان کیا۔

انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف سے پیرس میں ہونے والی میٹنگ ٹرننگ پوائنٹ تھی جس کے بعد اسٹاف لیول کا معاہدہ ہوگیا ہے جو کہ بورڈ کی میٹنگ کے حوالے سے بہت بڑی سیڑی ہے کیونکہ 12 جولائی کو بورڈ کی میٹنگ ہوگی جس کے لیے 3 ارب ڈالر کا ’اسٹینڈ بائے ایگری منٹ‘ بنایا گیا ہے جو کہ 9 ماہ کا پروگرام ہے۔

واضح رہے کہ حکومت کی طویل کاوشوں اور مصلحتاً کیے گئے چند سخت معاشی فیصلوں کے باعث بالآخر پاکستان اور عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے مابین اسٹاف لیول معاہدہ طے پاگیا جس سے ملکی معیشت کو درپیش خطرات خاصی حد تک ٹلنے کے امکانات روشن ہوگئے۔

کل 3 ارب ڈالر کے اسٹینڈ بائی انتظامات کے بعد اسٹاف کی سطح کا معاہدہ ہوگیا۔ وزیراعظم میاں شہباز شریف اور وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی جدوجہد اور متعلقہ اداروں و افراد سے مسلسل ملاقاتوں کے نتیجے میں یہ معاہدہ طے پاگیا تاہم یہ جولائی کے وسط میں آئی ایم ایف کے ایگزیکٹو بورڈ کی منظوری سے مشروط ہے جس کے بعد ادائیگیوں کے توازن کے شدید بحران اور گرتے ہوئے زرمبادلہ کے ذخائر کی وجہ سے مشکلات کا شکار پاکستان کو کچھ مہلت مل جائے گی۔

9 مہینوں پر محیط 3 ارب ڈالر کی فنڈنگ پاکستان کے لیے توقع سے زیادہ ہے کیوں کہ پاکسستان سنہ 2019 میں طے پانے والے 6.5 ارب ڈالر کے بیل آؤٹ پیکج سے بقیہ ڈھائی ارب ڈالر کے اجرا کا انتظار کر رہا تھا جس کی میعاد جمعہ 30 جون کو (آج) ختم ہورہی تھی اور یہ اسٹاف لیول معاہدہ ایک نیا ایگریمنٹ ہے جو ملک کی موجودہ معاشی صورتحال میں ایک معجزے کی حیثیت رکھتا ہے گو اسے شرمندہ تعبیر کرنے میں کڑی تنقید کے سامنے کے باوجود حکومت کی مسلسل جدوجہد اور ضرورت کے تحت کیے گئے سخت مگر سودمند فیصلوں کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔

گزشتہ 10 روز میں آئی ایم ایف کو آمادہ کیا تاہم ہمارے پاس پلان بی بھی تھا، وزیرخزانہ

پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا کہ پاکستان نے آئی ایم ایف کو اسٹاف لیول معاہدے کے لیے گزشتہ 10 روز کے دوران آمادہ کیا۔

اسحاق ڈار نے کہا کہ ڈھائی ارب ڈالر کا پروگرام ہے اور معاہدہ 9 ماہ کا ہے اور 12 جولائی کو بورڈ میٹنگ ہوگی اور اس کے بعد ہمیں رقم مل جائے گی۔

وزیر خزانہ نے کہا کہ پاکستان کبھی ڈیفالٹ نہیں ہوسکتا اور نہ ہی ہو رہا تھا۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگر کسی وجہ سے آئی ایم ایف سے معاہدہ نہ بھی ہوتا تو صورتحال سنبھالنے کے لیے ہمارے پاس ایک پلان بی بھی تھا جس کا اب تذکرہ کرنا غیر ضروری ہے۔

میڈیا کے سوالات

ایک سوال کے جواب میں وزیر اعظم نےکہا کہ گزشتہ حکومت نے ملک کو غیرذمہ دارانہ رویے سے ملک کو نقصان پہنچانے میں کوئی کثر نہیں چھوڑی۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے 5 ارب کے قرضے لیے جو واپس کیے اور جہاں تک چین اور سی پیک کا تعلق ہے ہم کبھی اپنے دوست ملک کو مایوس نہیں کریں گے اور پروجیکٹ بھی جاری رہے گا۔

ایک اور سوال کے جواب میں وزیراعظم نےکہا کہ اب معاہدہ ہوگیا ہے اس لیے پلان بی کی تفصیل بتانے کی نہ ہی کوئی ضرورت ہے اور نہ ہی موقع۔

ایک اور سوال کے جواب میں شہباز شریف نے کہا کہ ملک مشکل سے دوچار تھا جسے دھرنوں، جلوسوں اور 9 مئی جیسے واقعات سے مزید بحران کا شکار کرنے کی کوششیں کیں کیا وہ حب الوطنی کا تقاضا تھا؟ انہوں نے مزید کہا کہ 9 مئی کو بھی پوری کوشش کی کہ آئی ایم ایف سے معاہدہ نہ ہو، ملک ڈیفالٹ کرجائے، ملک میں انارکی پھیل جائے اور اگر ایسا کچھ ہوجاتا اور وہ سازشیں کامیاب ہوجاتیں تو نہ وہ خود کو کبھی معاف کرپاتے اور نہ ہی نواز شریف خود کو معاف کرتے۔

 

ایک صحافی کے سوال کے جواب میں وزیر اعظم نے کہا کہ آئی ایم ایف پروگرام کوئی مٹھائی نہیں ہے یہ معیشت کو استحکام دینے کے لیے ہے اور معاشی طور پر ملک کو مضبوط کرنے کا پروگرام ہے اس میں عوام کے لیے کچھ سختیاں بھی آئیں گی لیکن اشرافیہ کو زیادہ سختیاں سہنی ہوں گی۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ ملک تب ہی آگے بڑھے گا جب متمول افراد ٹیکس دیں گے۔

شہباز شریف نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ذراعت، معدنیات، آئی ٹی اور اسمال انڈسٹری کے شعبوں میں خلیجی ممالک سے انویسٹمینٹ آئیں گی اور اس کے لیے حکومت اور اداروں کے سربراہ بھی مل کام کریں گے اور معاشی بحالی کا ماسٹر پلان اسی کا نام ہے۔

ایک سوال کے جواب میں وزیراعظم نے کہا کہ نواز شریف نے ہمیشہ کیسز کا اور جیلوں کا سامنا کیا ہے وہ بالٹی سر پر رکھ کر نہیں گھومتے تھے اور پیشیوں میں ایک دن کا بھی ناغہ نہیں کرتے تھے اس لیے کوئی ان کا کسی اور سے موازنہ نہ کرے وہ جلد ملک واپس آئیں گے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp