پیرس میں 17 سالہ نوجوان کی پولیس کے ہاتھوں ہلاکت کے بعد فرانس بھر میں پرتشدد مظاہرے چوتھے روز بھی جاری رہے۔ نوجوان شرپسندوں کی پولیس کے ساتھ جھڑپوں سمیت متعدد دکانوں کو لوٹنے کی بھی اطلاعات ملی ہیں۔ موجودہ بد امنی کی اس لہر سے فرانسیسی سمندر پار علاقے بھی محفوظ نہیں رہے۔
جمعہ کے روز تقریباً 45,000 پولیس اہلکاروں کی بکتر بند گاڑیوں کی مدد سے تعیناتی کے ساتھ بھاری سیکیورٹی آپریشن کے باوجود لیون، مارسیلے اور گرینوبل کے شہروں میں لوٹ مار اور ہنگامہ آرائی جاری رہی، جس میں نوجوانوں پر مشتمل ٹولوں نے لوٹ مار کرتے ہوئے دکانوں کو آگ لگائی اور پولیس پر پروجیکٹائل پھینکے۔
ہلاکت کیسے ہوئی؟
گزشتہ ہفتے ہلاک ہونیوالے 17 سالہ نوجوان کی شناخت شمالی افریقی نژاد ناہیل ایم کے نام سے ہوئی ہے، جسے پیرس کے مضافاتی علاقے نانتیرے میں پولیس نے ٹریفک چیکنگ کے دوران مبینہ طور پر گاڑی نہ روکنے پر فائرنگ کا نشانہ بنایا جو جان لیوا ثابت ہوا۔
پیرس میں نوجوان کی اس طرح ہلاکت نے اس وقت سب کو چونکا کر رکھ دیا جب اس واقعہ کی ویڈیو سامنے آئی۔ یہ جان لیوا واقعہ ملک کے رہائشی منصوبوں اور پسماندہ محلوں کے نوجوانوں اور پولیس کے درمیاں تناؤ سمیت فرانسیسی معاشرے میں نسل پرستی کی چنگاریوں کو بھی ہوا دینے کا باعث بنا۔
حکومت کی جانب سے شہریوں کو پر امن رہنے کی متعدد تلقین اور ملک بھر میں سخت پولیس رویے کے ساتھ سینکڑوں گرفتاریوں کے باوجود کئی علاقوں میں دن کی روشنی میں پرتشدد واقعات رونما ہوئے۔ مشرقی شہر اسٹراسبرگ میں ایپل کا ایک اسٹور لوٹ لیا گیا جب کہ پیرس کے ایک شاپنگ مال میں فاسٹ فوڈ کی دکان پر بھی توڑ پھوڑ کی گئی۔
موجودہ صورتحال اور حکومتی رد عمل
فرانس کے وزیر داخلہ جیرالڈ ڈرمینین نے مقامی فرانسیسی میڈیا کو بتایا کہ ہفتہ کی صبح تک گرفتاریوں کی کل تعداد 470 سے زائد ہو چکی تھی۔ ان کے مطابق تشدد جمعرات کی رات کے مقابلے میں نسبتاً اتنا شدید نہیں تھا جب 900 سے زائد افراد کو گرفتار کیا گیا تھا۔
پیرس میں پرسکون صورتحال کے دوران لیون شہر میں حکام نے اطلاع دی ہے کہ فسادیوں نے ایک بار پھر مضافاتی علاقوں میں پولیس پر پتھراؤ اور املاک نذر آتش کرنے کے واقعات رونما ہوئے ہیں۔
شہر کے مرکز میں، پولیس نے دکانوں کو لوٹنے کی کوشش کو روکنے کے لیے 31 گرفتاریاں کیں، پولیس تشدد کے خلاف ایک غیر مجاز احتجاج کے بعد جس نے جمعہ کی شام تقریباً 1,300 افراد کو اپنی طرف متوجہ کیا۔
بیرون ملک فرانس کے زیر تسلط علاقوں میں بھی فرانسیسی حکومت کیخلاف پر تشدد احتجاج رپورٹ ہوا ہے۔ حکام نے بتایا کہ فرانسیسی گیانا میں فسادیوں نے دارالحکومت کائین میں پولیس پر فائرنگ کی جب کہ ایک آوارہ گولی لگنے سے ایک 54 سالہ شہری کی ہلاکت بھی ہوئی ہے۔
حکام نے بتایا کہ بحر ہند کے چھوٹے جزیرے ری یونین پر مظاہرین نے کچرے کے ڈبوں کو آگ لگا دی، پولیس پر پروجیکٹائل پھینکے اور کاروں اور عمارتوں کو نقصان پہنچایا۔
’کاپی کیٹ تشدد‘ ٹیک کمپنیوں کے تعاون سے روکا جائے گا، صدر میکرون
فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون ’نوعمروں کی موت کے استحصال‘ کو ناقابل قبول قرار دیتے ہوئے اس عمل کی مذمت کی، تاہم انہوں نے ملک میں ہنگامی حالت کا اعلان نہیں کیا۔ میکرون نے والدین پر زور دیا کہ وہ نابالغ فسادیوں کی ذمہ داری لیں۔ ان کے مطابق پر تشدد واقعات میں شامل مظاہرین میں سے ایک تہائی تعداد نوجوان یا بہت کم عمر افراد پر مشتمل ہے۔
فرانسیسی صدر نے ٹک ٹاک اور اسنیپ چیٹ جیسی سروسز کے ذریعے پھیلنے والے ’کاپی کیٹ تشدد‘ کو روکنے کے لیے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے ساتھ کام کرنے کا عزم ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ حکومت ’انتہائی حساس مواد کو ہٹانے‘ سوشل میڈیا سے ہٹانے کے لیے طریقہ کار وضع کرے گی اور اس ضمن میں وہ ٹیک کمپنیوں سے ذمہ داری کے جذبے کی توقع رکھتے ہیں۔