ریڈیو لاہور: جب بھارتی گلوکار ہنس راج سجدے میں گر پڑے

پیر 3 جولائی 2023
author image

اکمل شہزاد گھمن

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

فنِ موسیقی  کے دو بڑے گُنی فن کاروں کے تمغہ برائے حُسنِ  کارکردگی ایوارڈ کے لیے تعارف لکھنے کا اعزازمجھے ملنا اتفاق تھا۔  1973 میں ریڈیو لاہور پرسنٹرل پروڈکشن  یونٹ  سلیم گیلانی صاحب  کی کاوش سے بناجس کا مقصد عمومی طور پر کوالٹی  فیچرز، انٹرویوز اور دیگر خصوصی پروگرام تیار کرنا تھا جب کہ  خاص  طور پراعلیٰ درجے کا  میوزک پروڈیوس کرنا فرضِ اولین قرار پایا۔  وقت کے بہترین  سازندوں اور دیگر ماہرینِ فن کو مستقل بنیادوں پر اس ادارے کا حصہ بنا لیا گیا۔ ان سازندوں کے معیار کا اندازہ آپ یہاں سے لگا لیں کہ  کوک سٹوڈیوز کے اب تک جتنے سیزن ہوئے ہیں ان میں لیڈ وائیلنسٹ جاوید لوّلی رہے ہیں جو سی پی یو (سنٹرل پروڈکشن یونٹ لاہور) کے ملازم تھے۔ وہ  پاکستان کے ان چند لوگوں میں شامل ہیں  جو میوزک لکھ اور پڑھ سکتے ہیں مطلب میوزک نوٹیشن لکھ  پڑھ سکتے ہیں۔ اسی طرح ریڈیو پاکستان کراچی میں بھی  سی پی یو  قائم کیا گیا۔ ریڈیو پاکستان لاہور کے اس یونٹ  پر کام کرنے کا  مطلب یہ تھا کہ آپ بہت اعلیٰ درجے کے فن کار ہیں۔ چونکہ یہاں کام بہت چھان پھٹک کر کیا جاتا تھا  اورمقدار سے زیادہ معیار پیشِ نظر تھا  لہذا کام بھی کم ہوتا تھا۔

پاکستان میں بنائی اور گائی گئی مشہور غزلوں  کا ساٹھ ستر فی صد  حصہ ریڈیو پاکستان لاہور اوراس کے سنٹرل پروڈکشن یونٹ کا پروڈیوس کردہ ہے۔ اپنے عہد کے ہر بڑے گلو کار نے یہاں گایا۔ چند برس قبل لاہور اور کراچی کے سنٹرل پروڈکشن یونٹ بند کر دیے گئے۔

نصرت فتح علی خاں اور ہم نوا جوانی میں ریڈیو پاکستان لاہور کے سٹوڈیوز میں قوالی کرتے ہوئے۔ (فوٹو: سوشل میڈیا)

ریڈیو پاکستان لاہور کے براڈ کاسٹنگ ہاؤس پر موسیقی کے پروگرام تین طرح کے ہوتے تھے۔ ایک تو روزانہ شام کے وقت لاہور نمبر دو سے کلاسیکل میوزک پر مبنی آدھے گھنٹے کا پروگرام روزانہ لائیو نشر ہوتا جس میں کلاسیکل گویّے مختلف راگ گاتے یا سازندے کسی ساز پر کوئی راگ بجاتے۔ بعد ازاں یہ پروگرام  بجٹ کی وجہ سے پندرہ منٹ کا رہ گیا اور وہ بھی ریکارڈڈ۔ ہر جمعے کے روز جمعہ کی نماز  کے وقت سے پہلے لائیو قوالی نشر ہوتی۔ قوال گروپ کے آنے کا شیڈول بنا ہوا ہوتا، جس میں لاہور کے علاوہ دور دراز کی قوال پارٹیاں بھی شامل ہوتیں۔ نصرت فتح علی خان کے علاوہ اپنے وقت کے کئی نامی گرامی قوال خواہش اور کوشش کر کے اس پروگرام کے لیے آتے تھے۔

  اسی طرح ہلکی پھلکی موسیقی جیسے گیت، غزل، فوک موسیقی کے دو آئٹم  روزانہ پہلے لائیو اور بعد ازاں ریکارڈڈ نشر ہوتے۔ یہ پروگرام نہ صرف کے ملک طول و عرض میں سُنے جاتے بلکہ سرحد پار انڈیا میں بھی یہ پروگرام اپنے سامعین رکھتے تھے۔ خطوط یا دیگر ذرائع سے ریڈیو لاہور کے پروگراموں کی پسندیدگی کا اظہار ہوتا رہتا تھا۔ ایک دفعہ انڈین گلو کا ر ہنس راج  ہنس ریڈیو  لاہور آئے۔ شام چوراسی گھرانے کے فرزند اور استاد سلامت علی خان کے چھوٹے بھائی  تصدق علی جانی جو ریڈیو لاہور پر میوزک پروڈیوسر اور کمپوزر رہ چکے تھے۔ان کی کئی دھنین بہت مشہور ہوئیں۔ جیسے ” تاہنگاں والے نیں کدوں سُکھ نال سون گے” “گورئیے میں جانا پردیس”

“جا وے پردیسیا”” جدوں یاد اساڈی آئے تے فیر سانوں خط لکھنا”

پرویز مہدی،ریشماں ،غلام علی ،افشاں اور شوکت علی سمیت بہت سے گلو کاروں نے ان کی دھنیں گائیں اور نام کمایا۔ انھی تصدق صاحب کی ایک بیٹی  ریڈیو پاکستان کے ایف ایم 101 پر بطور ڈیوٹی آفیسر کام کرتی تھیں۔ ہنس راج نے پہلے تو انھیں  نذر پیش کی اور پھر وہ ریڈیو لاہور کے میوزک سٹوڈیو میں آئے۔ اتفاق سے ان دنوں میں میوزک کا پروڈیوسر تھا اور اتفاق سے ہی سٹوڈیوز میں موجود تھا۔ تعارف ہوا تو ہنس راج نے سٹوڈیو میں پڑے ہوئے ہارمونیم کی طرف اشارہ کرکے  مجھ سے پوچھا حاضری کی  اجازت ہے۔ میرے اثبات میں گرم جوش جواب کے بعد وہ  آگے بڑھے اور سجدے میں گِر گئے اور پھر ہارمونیم کو تھوڑا سا چھیڑا۔ وہ بتانے لگے ریڈیو لاہور کو سُن سُن کر انھون نے  گانا سیکھا ہے۔ آج میری خوش قسمتی ہے کہ مجھے یہاں حاضری کا موقع ملا ہے۔

اپنے میوزک پروڈیوسر بننے کو میں نے اتفاق اس لئے کہا کہ بظاہر میرا، اور میوزک کا کوئی تعلق نہیں تھا۔ 2006 کی بات ہے نامور شاعر ستار سید  ریڈیو لاہور کے اسٹیشن ڈائریکٹر تھے۔ گرمیوں کے ایک دن انھوں نے اپنے دفتر بلایا اور کہا کہ آپ کو میوزک کا شعبہ دے رہے ہیں امید ہے آپ سنبھال لیں گے۔ قبل ازیں میوزک کے نامور پروڈیوسر اعظم خان صاحب میوزک کے شعبے کے انچارج تھے۔ وہ بطور کنٹرولر ریٹائرمنٹ کے بعد کنٹریکٹ پر میوزک پروڈیوسر کام کر رہے تھے۔ یہ اعظم خان وہی ہیں جنھوں نے 1965 کی جنگ میں میڈم نور جہاں کے جنگی ترانے ریڈیو لاہور میں پروڈیوس کیے تھے۔

 

فرح دختر خواجہ پرویز، ماسٹر منظور، اکمل شہزاد گھمن، بیٹھے ہوئے خالد عباس ڈار اور فراز بٹ۔ (فوٹو: اکمل شہزاد گھمن)

اعظم صاحب کسی وجہ سے ریڈیو سے علیحدہ ہو گئے تو پھر یہ شعبہ میرے حوالے کیا گیا۔  یہ ایک بڑا شعبہ تھا جہاں اوسطاً دو ڈھائی سو فن کار مختلف حثیتوں میں اپنے فن کا مظاہرہ کرتے تھے۔ دوسرے اسٹیشنز سے این او سی لے کر آنے والے فن کار اس کے علاوہ تھے۔

بہرحال دو سال یہ ذمہ داری بہت شوق سے نبھائی اور اپنے وقت کے بڑے فن کاروں کے ساتھ کام کرنے اور سیکھنے کا موقع ملا جس  کا تذکرہ پھر کبھی سہی۔

جب  موسیقی سے وابستہ فن کاروں کے نام قومی ایوارڈز کے لیے جانے ہوتے ہیں تو عموماً میوزک کا شعبہ ہی ہوتا ہے جس کے ذمے لگتا ہے کہ وہ حق دار فن کاروں کا تعارفی خط تیار کریں۔

اتفاق سے نامور علامتی افسانہ نگا ر علی تنہا ان دنوں ریڈیو پاکستان کی داخلی نشریات کے کنٹرولر تھے۔ ان سے کہلوا کے یکے بعد دیگرے گُنی موسیقار ماسٹر منظور اور کلاسیکل گلوکار استاد حسین بخش گلو خاں صاحب  کے پرائڈ آف پرفامنس کے کیس بھجوائے۔ لہذا ان دونوں گُنی فن کاروں کا تعارف تحریر کرنے کا اعزاز حاصل ہوا۔

ماسٹر منظور ان لوگوں میں سے ہیں جن کا  کام ان کے نام سے زیادہ مشہور ہوتا ہے۔

1959 میں ہی اپنی پہلی فلم سویرا سے وہ ہٹ ہو گئے ۔جس میں ایس بی جون  کا گایا ہوا گانا

“تو جو نہیں ہے تو کچھ بھی نہیں ہے ” آج بھی ویسے ہی مشہور ہے جیسے پہلے دن تھا۔ اسی طرح  “وہ عشق جو ہم سے روٹھ گیا” “داغِ دل ہم کو یاد آنے لگے” “اے جزبہِ دل گر میں چاہوں”

   “دیپک راگ ہے چاہت اپنی”” اے پاک وطن اے پاک  زمیں” سمیت ان کےکریڈٹ پر بہت سی دھنیں ہیں ۔

استاد حسین بخش گلو جن کی گائی ہوئی غزل ” ہے دعا یاد مگر حرفِ دعا یاد نہیں” بہت معروف ہے  اور وہ  برِ صغیر پاک و ہند میں اپنی نوعیت کے واحد کلاسیکل گویّے ہیں۔  اتفاق سے ان دنوں علم و ادب  دوست بیورو کریٹ ظہور احمد وزیرِ اطلاعات قمر زماں کائرہ کے ساتھ بطور ڈائریکٹر جنرل کے کام کر رہے تھے تو ہماری محنت ٹھکانے لگی  اور حق داروں کو ان کا حق دلوانے میں کام یابی ہوئی۔

استاد حسین بخش گُلو اور اکمل شہزاد گھمن۔ (فوٹو: اکمل شہزاد گھمن)

بعد ازاں دو   تین فن کار ایسے تھے جن کے لئے میں چاہ کر بھی کچھ نہ کر سکا۔ جن میں سے ایک  قادر شگن صاحب کو تو بعد از وفات  تمغہ ِ امتیاز مل گیا مگر نامور موسیقار رفیق حسین اور کلاسیکل  گویّے  اور گُنی استاد  غلام حیدر کو  ان کا حق نہ  مل سکا۔ اسی طرح  استاد   تصدق علی جانی مرحوم کو بھی کوئی قومی ایوارڈ نہیں ملا ۔ایسی ہی ایک زندہ مثال اپنے وقت کی نامور گلو کارہ سیّاں چوہدری کی ہے۔ جن کا دو سال سے کیس وزارتِ اطلاعات  میں آرہا ہے مگر کئی پوچھنے والا نہیں۔ یہ ایوارڈ پسند نا پسند پر ملتے ہیں یا کوئی میرٹ بھی ہے؟ اس پر بات ابھی اُٹھا رکھتے ہیں۔

اکمل شہزاد گھمن، استاد حسین بخش گُلو اور احد رضا چیمہ۔ (فوٹو: اکمل شہزاد گھمن)

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

اکمل گھمن تحریر و تحقیق کی دنیا کے پرانے مسافر ہیں۔ 'میڈیا منڈی' اور پنجابی کہانیوں کی کتاب 'ایہہ کہانی نہیں' لکھ کر داد وصول کر چکے ہیں۔ بی بی سی اردو سمیت مختلف اداروں کے ساتھ لکھتے رہے ہیں۔ آج کل وی نیوز کے لیے باقاعدگی سے لکھتے ہیں۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp