وزیراعظم پاکستان کے معاون خصوصی اور مسلم لیگ ن کے رہنما عطااللہ تارڑ کا کہنا ہے کہ انہیں اکتوبر، نومبر میں عام انتخابات ہوتے نظر آ رہے ہیں، انتخابی مہم میاں نواز شریف ہی چلائیں گے۔ اگر مسلم لیگ ن پھر سے برسراقتدارآتی ہے تو ہمیں ہائبرڈ نظام بنانے والوں کو سزا دینے کے بجائے ہمیں معیشت کی بحالی اور ایک عام پاکستانی کی زندگی بہتر بنانے پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے۔
وی نیوز سے ایک خصوصی انٹرویو میں عطا اللہ تارڑ کا کہنا تھا’ ہم 2018 میں جو پاکستان چھوڑ کر گئے تھے، اس میں مہنگائی کی شرح 4 فیصد تھی، شرح نمو 5۔8 فیصد تھی، ہم پٹرول بھی سستا چھوڑ کر گئے تھے، بجلی کے کارخانے بھی لگا کر گئے تھے، لوڈشیڈنگ ختم کرکے گئے تھے، سڑکوں کا جال بچھا کر گئے تھے، سکول، کالج اور یونیورسٹیاں بنا کر گئے تھے۔ پھر مہنگائی کب ہوئی اور کیسے ہوئی؟ یہ 4 سال کی داستان ہے۔
جن پر تنقید کرتے تھے، انہیں خزانے کی کنجیاں تھما دیں
انہوں نے کہا ’ہم نے اپنی کارکردگی سے ثابت کیا کہ ہم اس ملک کو چلانے کے اہل ہیں۔ انہوں نے عمران خان دور کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ 4 سال کا نقصان، ہزاروں ارب روپے کا قرضہ ملک پر لاد دیا گیا۔ یہ کسی ایک میگا پراجیکٹ کا نام نہیں لے سکتے، جو لگایا ہو اور اسے پایہ تکمیل تک پہنچایا ہو۔ ہر مرض کی دوا یہ تھی کہ کالی عینک لگاؤ اور ترجمانوں کا اجلاس بلاؤ۔ صبح، دوپہر، شام ترجمانوں کا اجلاس ہوتا تھا۔ کہتے تھے کہ آئی ایم ایف کے پاس نہیں جاؤں گا ، خودکشی کرلوں گا۔ 4 یا 5 وزرائے خزانہ تبدیل کیے۔ جس پیپلزپارٹی پر تنقید کرتے تھے، اسی پارٹی کے 2 وزرائے خزانہ حفیظ شیخ اور شوکت ترین کو وزرائے خزانہ لگایا۔ ان کی پالیسیاں یا پہلے غلط تھیں یا پھر ان کے دور میں غلط تھیں۔ ایسا تو نہیں ہوسکتا کہ ان کی ماضی کی پالیسیوں پر تنقید کریں اور اپنے دور میں وزارت خزانہ کی کنجیاں ان کے حوالے کردیں‘۔
ایک سوال کے جواب میں عطااللہ تارڑ نے کہا ’اسحاق ڈار کی عدم دستیابی میں سمجھا گیا کہ مفتاح اسماعیل کے پاس وزارت چلانے کی قابلیت ہے۔ اسحاق ڈار نے آئی ایم ایف کو کئی دہائیوں تک ڈیل کیا، اس کے پروگرامات مکمل بھی کیے، معاشی گروتھ کو بڑھایا۔ 2013 سے 2018 تک کا دور مثالی تھا‘۔
وزیراعظم کے معاون خصوصی نے کہا’ میں سمجھتا ہوں کہ اب آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ طے پایا ہے ، اور اس سے پہلے بھی جو کاوشیں ہوئی ہیں، متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب اور چین نے جو امداد فراہم کی ہے، اس کے بعد آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ ہوا، سٹاک ایکسچینج اوپر گئی، ڈالر نیچے آیا، روپیہ مستحکم ہوا۔ اگر آئی ایم ایف سے ڈیل نہ ہوتی تو ڈیفالٹ کی تلوار لٹکتی رہتی‘۔
اب دن بدن حالات بہتر ہوں گے
انہوں نے کہا ’تبدیلی سرکار نے ملک کی جڑوں کو کھوکھلا کیا، بڑے بڑے دعوے کیے گئے۔ ان کا پوسٹر بوائے اسد عمر آج کہاں ہے؟ اس کے بارے میں دعوے کیے گئے کہ معیشت کو ٹھیک کرے گا۔ وہ معاشی گروتھ کو 5۔8 فیصد سے صفر اعشاریہ تین فیصد پر لے آیا اور مہنگائی کو 4 فیصد سے 20 فیصد تک لے گیا۔ انہوں نے کہا کہ اسحاق ڈار کے آنے سے چیزوں میں استحکام آیا ہے۔ دوست ممالک اور اسلامی ترقیاتی بینک کی طرف سے جو وعدے کیے گئے ہیں، وہ وقت پر پورے ہوں گے۔ اس کے نتیجے میں مزید معاشی استحکام آئے گا، روپیہ مستحکم ہوگا، معیشت میں بہتری آئے گی۔ اب دن بدن حالات بہتر ہوں گے‘۔
صرف 3 ارب ڈالرز سے کیا ہوگا؟
عطااللہ تارڑ نے کہا کہ ماضی کی حکومت نے آئی ایم ایف کے پروگرام کو تاخیر کا شکار کیا، اسے منطقی انجام تک بھی نہیں پہنچایا۔ اس پر سیاست کی۔ جو ریاست بچانے آئے تھے، ان کی ذمہ داری تھی کہ وہ اس معاہدے کو مکمل کرتے۔
انہوں نے کہا کہ امداد دینے والے باقی ممالک بھی دیکھتے ہیں کہ آئی ایم ایف کا پروگرام کس حد تک آگے چلا ہے، اس میں آپ سنجیدہ ہیں یا نہیں، اسے آپ پایہ تکمیل تک پہنچاتے ہیں یا نہیں۔ آئی ایم ایف کے 3 ارب ڈالر 9 ماہ کا ایک ریلیف ضرور ہے لیکن اس کے نتیجے میں دیگر ممالک کی طرف سے بھی امداد آئے گی۔ اس طرح معیشت پر ایک مثبت اثر پڑتا ہے‘۔
مسلم لیگ ن کے رہنما نے کہا کہ آئی ایم ایف سے معاہدے میں وزیر خزانہ بلاول بھٹو زرداری اور آرمی چیف کا بھی کردار ہے۔ وزیرخارجہ مختلف ممالک میں گئے، کابینہ کے اجلاس میں جنرل عاصم منیر کا خصوصی طور پر ذکر ہوا، ان کی بڑی کاوش ہے۔ سعودی عرب کی طرف سے جو امداد آنا تھی ، اس میں بھی ان کا بھرپور کردار ہے۔
نگران وزیراعظم کون ہوسکتا ہے؟
عطااللہ تارڑ نے کہا’ہم اپنی مدت مکمل کریں گے۔ 12 اگست آخری دن ہے‘۔ نگران وزیراعظم کون ہوسکتا ہے؟ اس سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ابھی مشاورت شروع نہیں ہوئی، اس لیے یہ سوال قبل از وقت ہے۔ کیا بطورنگران وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کا نام کہیں زیربحث آیا ہے؟ اس سوال کے جواب میں عطا تارڑ کا کہنا تھا ’شاہد خاقان عباسی نے انتخابی سیاست کرنی ہے، وہ ایک حلقہ سے جیت کر آئے ہیں۔ میری یہ خواہش ہے کہ شاہد خاقان عباسی اپنے حلقے سے انتخاب لڑیں، اور سیاست میں اپنا کردار ادا کریں‘۔
اکتوبر، نومبر میں عام انتخابات ہوتے نظر آرہے ہیں
ایک سوال کے جواب میں عطااللہ تارڑ کا کہنا تھا ’معاشی ایمرجنسی کا کوئی جواز نہیں ہے۔ آئی ایم ایف سے معاہدہ طے پا گیا اور چیزیں مثبت رخ کی طرف جا رہی ہیں۔ ویسے بھی فنانشل ایمرجنسی لگانے سے معیشت کو نقصان پہنچے گا، غیر یقینی صورت حال پیدا ہوگی‘۔
وزیراعظم کے معاون خصوصی کا کہنا تھا’ مجھے تو اکتوبر، نومبر میں عام انتخابات ہوتے نظر آرہے ہیں۔ میاں نواز شریف جلد آئیں گے۔ انتخابی مہم میاں نواز شریف ہی چلائیں گے‘۔
’ ان کے خلاف جو کیسز بنائے گئے تھے، وہ سیاسی بنیادوں پر بنائے گئے تھے، سیاسی انتقام کی وجہ سے بنائے گئے تھے۔ اس حوالے سے قانونی مشاورت جاری ہے۔ اور اس کے نتیجے میں جہاں جہاں اپیل دائر ہونی ہے، وہ مقررہ وقت پر دائر ہوگی‘۔
نواز شریف چیف جسٹس بندیال کے جانے کا انتظار کر رہے ہیں؟
پوچھا گیا کہ کیا میاں نواز شریف جسٹس بندیال کے جانے کا انتظار کر رہے ہیں؟ ان کا کہنا تھا’ نہیں، ایسا نہیں ہے۔ چیف جسٹس کوئی بھی ہو، میاں نواز شریف کی اپیل اس قدر مضبوط ہے کہ وہ بری ہوں گے‘۔
انہوں نے کہا کہ جب مریم نواز شریف کی طرف سے ایون فیلڈ کیس کی اپیل اسلام آباد ہائیکورٹ میں دائر ہوئی تو مخالف وکیل سے پوچھا گیا کہ مریم نواز شریف پر الزام کیا ہے؟ وکیل نے کہا کہ ان پر میاں نواز شریف کی معاونت کا الزام ہے۔ پوچھا گیا کہ میاں نواز شریف پر کیا الزام ہے؟ جواب دیا گیا کہ فلیٹس کی ملکیت کا الزام ہے۔ عدالت نے کہا کہ ہم معاونت کو بعد میں دیکھیں گے، پہلے دیکھنا ہے کہ مرکزی جرم ہوا ہے؟ عدالت تفصیل میں گئی تو پتہ چلا کہ میاں نواز شریف بے قصور ہیں، اس لیے معاونت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ چنانچہ مریم نواز شریف باعزت بری ہوگئیں‘۔
شہباز شریف نے ریاست بھی بچائی سیاست بھی
’میاں شہباز شریف نے سیاست کو دائو پر لگا کر ریاست بچائی۔ انہوں نے جانے سے پہلے آئی ایم ایف سے معاہدہ طے کیا، اتحادی حکومت چلائی، سیلاب ہو یا کوئی بھی قوم پر مشکل وقت آیا ہو، شہباز شریف صف اول میں کھڑے نظر آئے۔ مہنگائی کا مقابلہ کرتے ہوئے انہوں نے روس سے تیل لانے میں اپنا کردار ادا کیا، تاکہ یہاں سستے تیل کی فراہمی ہو۔ انہوں نے ریاست بھی بچائی ہے اور سیاست بھی بچائی ہے‘۔
اگلے عام انتخابات میں مسلم لیگ ن کی پوزیشن کیا ہوگی؟
’2018 میں بدترین سیاسی حالات میں مسلم لیگ ن نے الیکشن لڑا۔ پری پول دھاندلی ہوئی، پارٹی کو توڑا گیا، قیادت کو جیلوں میں بھیجا گیا، پولنگ والے دن دھاندلی کی گئی، اس کے باوجود ہم پنجاب میں سنگل لارجسٹ پارٹی بنے۔ ہماری سیٹیں 122 تھیں اور تحریک انصاف کی 110 تھیں۔ اب تو لوگوں میں بڑا شعور موجود ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ 2018 میں کیا حالات تھے، پھر اگلے 4 برسوں میں کیا حالات ہوئے؟ اور پھر ان حالات کو سنبھالنے میں ہمارا کیا کردار رہا؟ اور پھر سب سے اہم 9 مئی کے واقعات ہیں کہ کس طرح انارکی پھیلانے کی کوشش کی گئی۔ لوگ ان واقعات کو بہت غلط قرار دیتے ہیں‘۔
فوج کو نیوٹرل کرنے کا ہمارا مقصد پورا ہوگیا
میاں نواز شریف نے کبھی تہذیب کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا، جبکہ یہ تو جانور وغیرہ کے ناموں سے پکارتے تھے۔ میاں نواز شریف کا مطالبہ تھا کہ ادارہ ایک فرد کی حمایت چھوڑ کر غیر جانبدار ہوجائے۔ اپریل 2022 میں ادارے کا سربراہ خود کہتا ہے کہ ہم نیوٹرل ہوگئے۔ اس طرح ہمارا مقصد پورا ہوگیا۔ ہم چاہتے تھے کہ کسی بھی ایک فریق کی حمایت نہ کی جائے۔ بعد میں باتیں کھلیں کہ عمران خان اسمبلی میں حاضری پوری کروانےاور بجٹ پاس کروانے کے لیے ان سے فون کرواتے تھے۔ اور پھر جب وہ سپورٹ ہٹ گئی تو وہ دھڑام سے منہ کے بل گر پڑے‘۔
مسلم لیگ ن ہائبرڈ نظام بنانے والوں سے کیا سلوک کرے گی؟
’میری رائے ہے کہ ہمیں معیشت کی بحالی اور ایک عام پاکستانی کی زندگی بہتر بنانے کی طرف توجہ مرکوز رکھنی چاہیے۔ ادارے نے 9 مئی کے واقعات کے بعد خود احتسابی کی ایک نئی روایت قائم کی ہے۔ یہ ساتھ ساتھ چلتی رہنی چاہیے۔ یہ میری ذاتی رائے ہے۔ باقی پارٹی قیادت بیٹھے گی اور مشاورت کے بعد کوئی فیصلہ کرے گی‘۔
شہباز شریف اچھے حکمران اور سیاسی منتظم ثابت ہوئے
عطااللہ تارڑ نے کہا ’میری خوش قسمتی ہے کہ مجھے میاں نوازشریف، میاں شہباز شریف، مریم نواز اور حمزہ شہباز، ان چاروں کا قرب حاصل رہا ہے۔ میں اور مریم اورنگزیب ہی ہیں جنہوں نے ان سب کے ساتھ کام کیا ہے۔ شہباز شریف کے پرانے دور اور موجودہ دور میں بڑا فرق ہے۔ بطور وزیراعلیٰ وہ صرف کام، کام اور صرف کام پر توجہ دیتے تھے۔ اب نہ صرف ایک اچھے منتظم بلکہ سیاسی مینجمنٹ میں بھی بہت بہتر ثابت ہوئے ہیں۔ ایک اتحادی حکومت کو چلانا آسان کام نہیں ہوتا لیکن انہوں نے یہ بہت مشکل کام بہت احسن طریقے سے انجام دیا‘۔
نواز شریف چوتھی بار وزیراعظم بنیں گے؟
’میری زندگی کی خواہش ہے کہ میں میاں نواز شریف کو چوتھی مرتبہ وزیراعظم کے عہدے پر فائز دیکھوں۔ ان کے ساتھ جو ناانصافی اور زیادتی ہوئی، اس کا ازالہ کیا جائے۔ تعمیر و ترقی کے سفر کو جہاں سے روکا گیا تھا، اسے وہاں ہی سے شروع کیا جائے۔ اور اسے میاں نواز شریف ہی شروع کریں‘۔
مسلم لیگ ن میں نوجوان نسل کی قبولیت؟
’نئی نسل کو آگے لانے میں پارٹی میں تھوڑی کمی رہی ہے۔ جتنے نوجوان بھی سامنے آئے ہیں، وہ مشکل دور ہی میں سامنے آئے ہیں۔ پارٹی کے اندر قبولیت کا جذبہ موجود ہے۔ پارٹی کی پالیسی ہے کہ نوجوانوں کو آگے آنے کا موقع دیا جائے‘۔
مریم نواز شریف کا سیاسی مستقبل؟
’مریم نواز شریف میں بہت سی صلاحیتیں ہیں، جن کی بنیاد پر انہوں نے اپنا لوہا منوایا ہے۔ ضمنی انتخابات میں کامیابی حاصل کی، مشکلات کاٹیں، بڑے بڑے اجتماعات کیے۔ اس تناظر میں ان کا سیاسی مستقبل بہت روشن ہے۔ وہ چیف آرگنائزر ہیں اور ان کا عہدہ صدر کے بعد سب سے بڑا عہدہ ہے۔ وہ اس ملک کی قیادت کی صلاحیت بھی رکھتی ہیں۔ جو مثالی کوارڈینیشن میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف میں دیکھنے کو ملی، وہی مثالی کوارڈی نیشن مریم نواز شریف اور حمزہ شہباز شریف میں دیکھنے کو ملتی ہے‘۔
( عطااللہ تارڑ کا مکمل انٹرویو وی نیوز کے یوٹیوب چینل پر ملاحظہ فرمائیے)