بھارت کی جنوبی ریاست کیرالہ کے سر سبز جنگلوں کے مکین ہاتھی کا اہل علاقہ سے تعلق دہائیوں پر مشتمل ہے ۔ قصبہ منار کے لوگ اسے ’نرم دل دیو‘ کہتے ہیں۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ ہاتھی نے کبھی کسی کو نقصان نہیں پہنچایا اگرچہ وہ گھروں سے کھانا تک لے جاتا ہے ۔
جنگلی ہاتھی کو ’پادیاپا‘ کا نام 1999 میں دیا گیا جب معروف تامل اداکار رجنی کانت کی فلم ’پادیاپا‘ سینما گھروں کی زینت بنی ۔’نرم دل دیو‘ سیاحوں میں بھی مقبول ہے جو اس کے ساتھ تصاویر کھنچوانے کے لیے کھنچے چلے آتے ہیں ۔
زندگی کی پچاس بہاریں دیکھ چکا ہاتھی گزشتہ چند ماہ سے ضدی بچے کا روپ دھار چکا ہے۔ ’پادیاپا‘ جو کبھی قصبے کے قرب و جوار میں آرام سے ٹہلتا اور چہلتا دکھائی دیتا تھا اب انسانوں سے تنگ ہونے لگا ہے ۔
گزشتہ ماہ جنوری میں پادیاپا نے ایک ٹرک اور رکشہ کی سکرین توڑ دی یہی نہیں قریبی کھیت میں گھس کر فصل بھی تباہ کر دی۔ لوگوں میں اس کے نئے رویے کے بارے میں خاصی تشویش ہے ۔
کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ وہ ’مست‘ ہو چکا ہے یعنی ہاتھیوں میں تولیدی غدود بڑھنے سے ان میں غصہ بھی بڑھ جاتا ہے ۔ تاہم ماہر حیوانیات اسے قدرتی ماحول میں انسانوں کی بڑھتی ہوئی مداخلت قرار دیتے ہیں ۔
ماہر حیوانیات کہتے ہیں ہاتھی مست ہو کر بھی پرتشدد نہیں ہوتے جب تک انہیں چھیڑا نہ جائے۔’پادیاپا‘ کو ایسا ماحول درکار ہے جہاں وہ سکون و اطمینان سے گھوم پھر سکے اور کھا پی سکے ۔
اہل علاقہ کہتے ہیں ’پادیاپا‘ کیلے ناریل یا بانس کی تلاش میں گھروں یا دکانوں کے قریب آتا ہے، پھل وغیرہ کھانے کے بعد آرام سے واپس چلا جاتا ہے اور کسی کو نقصان نہیں پہنچاتا ۔
دکان دار بھی انوکھی منطق پیش کرتے ہیں کہ جب کبھی ہاتھی ان کی دکان پر ہلہ بولتا ہے تو خریداروں کا تانتا بندھ جاتا ہے۔ ایسی ہی کہانیوں نے ’پادیاپا‘ کو شہرت کی بلندی پر پہنچا دیا ہے ۔
’پادیاپا‘ کے رویے میں تبدیلی نے اہل علاقہ کو پریشان کر رکھا ہے۔ جبکہ ماہرین حیوانیات کا خیال ہے علاقے میں بڑھتی سیاحت بھی اس کے تنگ ہونے کی وجہ ہو سکتی ہے۔ جنگلی ہاتھی بے چین ہوتے ہیں جب کوئی ان کے قریب ہو کر سیلفی لینے کی کوشش کرے ۔
سرکار کی جانب سے ماہرین کی ایک ٹیم ’پادیاپا‘ کی صحت اور نقل و حرکت پر خاص نظر رکھے ہوئے ہے۔ یہی نہیں بھارتی اور بین الاقوامی میڈیا کی توجہ بھی اس فرینڈلی ہاتھی پر مرکوز ہے۔