پاکستان میں قازقستان کے سفیر ہژداں گستافن کا کہنا ہے کہ وسط ایشیاء اس وقت علاقائی رابطہ کاری کے معاملات میں نشاۃ ثانیہ کے مرحلے سے گزر رہا ہے۔ تمام وسط ایشیائی ممالک پاکستان کے ساتھ علاقائی تعاون بڑھانے میں بہت زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں۔ پاکستان اور افغانستان کے درمیان اچھے تعلقات پورے علاقے کے لیے بہت بڑی تبدیلی کی نوید بن سکتے ہیں۔
قازقستان کے سفیر ہژداں گستافن نے وی نیوز کے ساتھ خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ وسط ایشیاء علاقائی رابطہ کاری کے معاملے میں نشاۃ ثانیہ کے دور سے گزر رہا ہے۔
علاقائی تعاون کے بغیر سروائیو نہیں کر سکتے
انہوں نے کہا کہ ہمارے پہلے صدر نے سب سے پہلے وسط ایشیائی ممالک کی ایک یونین بنانے کی کوشش کی، لیکن 90 کی دہائی کے شروع میں ہر کوئی اس خیال کی حمایت نہیں کر رہا تھا۔ تاہم اب ہمارے تمام ہمسایہ ممالک میں یہ احساس اجاگر ہو گیا ہے کہ علاقائی تعاون کے بغیر ہم سروائیو نہیں کر سکتے۔
پاکستان سے تعاون میں بہت دلچسپی رکھتے ہیں
قازق سفیر کے مطابق روس، چین، جنوبی کوریا اور خطے کے دیگر ممالک کے ساتھ ہمارے علاقائی تعاون کے معاہدے ہیں اور اسی طرح کا علاقائی تعاون کا معاہدہ ہم پاکستان کے ساتھ کرنا چاہتے ہیں۔ وسط ایشیاء کے تمام ممالک پاکستان کے ساتھ تعاون میں بہت دلچسپی رکھتے ہیں۔ ہم خطے کے تمام ممالک کے درمیان رابطہ کاری کے لیے بنیادی ڈھانچہ بنانا چاہتے ہیں اور یہ ان تمام ممالک کو درپیش چیلنجز سے نمٹنے میں مددگار ہو گا۔
پاکستان اپنی بندرگاہوں کی وجہ سے بہت اہم ملک ہے
قازق سفیر ہژداں گستافن نے کہا کہ پاکستان اپنی بندرگاہوں کی وجہ سے وسط ایشیائی ممالک کے لیے بہت اہم ملک ہے کیونکہ پاکستان کے راستے یہ ممالک دنیا سے تجارت کر سکتے ہیں اور اس کے علاوہ پاکستان کے وسط ایشیائی ممالک کے ساتھ تاریخی نوعیت کے تعلقات ہیں جس کی وجہ ہماری مشترکہ روایات و ثقافت ہے۔
طالبان کے آنے سے تجارت میں آسانی ہوئی ہے
ایک سوال کے جواب میں قازق سفیر نے کہا کہ جب سے افغانستان میں طالبان کی حکومت آئی ہے، ہمیں مال برادار کمپنیوں کے جانب سے یہ سننے کو مل رہا ہے کہ وہاں اب تجارت میں آسانی پیدا ہو گئی ہے۔ اب وسط ایشیائی ممالک کی جانب سے افغانستان کے راستے پاکستان کے ساتھ تجارت کرنا بہت آسان ہو گیا ہے جو کہ ایک بہت ہی مثبت خبر ہے کہ افغان لوگوں کو علاقائی تعاون کی اہمیت کا احساس ہو گیا ہے۔
تجارتی حجم 8 ارب ڈالر تک لے کر جا رہے ہیں
انہوں نے کہا کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات پورے علاقے کے لیے بہت بڑی تبدیلی کی نوید بن سکتے ہیں۔ ہم قازقستان اور ازبکستان کے درمیان تجارتی حجم کو 8 ارب ڈالر تک لے کر جا رہے ہیں، یہ صرف دو ممالک کی کہانی ہے جبکہ اگر پورا علاقہ آپس میں جڑ جائے تو ہم بہت زیادہ فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔
تجارتی راستے فعال کرنے کی ضرورت ہے
قازق سفیر نے کہا کہ پاکستان اور قازقستان کے درمیان تجارتی راستے پہلے سے موجود ہیں صرف ان کو فعال کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں وہ بالکل اپنے گھر جیسا محسوس کرتے ہیں اور دونوں ملکوں میں مزید تعاون کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔
تعاون میں تیزی سے اضافہ ہوا
اس سے قبل نیشنل پریس کلب اسلام آباد میں گول میز مباحثے سے خطاب کرتے ہوئے قازق سفیر نے کہا کہ وہ دو برس قبل پاکستان آئے۔ پاکستانی حکومت نے تب وسط ایشیاء پالیسی متعارف کرائی۔ اس پالیسی کے بعد پاکستان اور وسط ایشیائی ممالک کے ساتھ پاکستان کے تعاون میں تیزی سے اضافہ ہوا۔ ہم نے الماتے اور لاہور کے درمیان براہِ راست پروازوں کا سلسلہ شروع کیا ہے۔
کراچی میں قازقستان کا اعزازی قونصل خانہ
قازق سفیر کے مطابق ہم این ایل سی کے ساتھ مل کر باہمی تجارت کے فروغ کی کوشش کر رہے ہیں۔ آئندہ ماہ ہم کراچی میں قازقستان کا اعزازی قونصل خانہ کھول رہے ہیں۔ ہم سارے صوبائی دار الحکومتوں میں اعزازی قونصلر تعینات کریں گے۔ سارے صوبائی دارالحکومتوں میں قازقستان ہاؤس بھی قائم کیے جائیں گے۔
قازقستان، پاکستان کی مدد کر سکتا ہے
انہوں نے کہا کہ ہم آج کل ویزے کی جلد اور آسان فراہمی پر کام کر رہے ہیں۔ کوشش ہے کہ ویزا درخواست دہندگان کا جلد از جلد ویزے کا اجراء یقینی بنایا جائے۔ بطور سفیر یہ میرا مشن ہے کہ میں پاکستان اور قازقستان کے درمیان پل کا کردار ادا کروں۔
قازق سفیر نے کہا کہ قازقستان ایک لینڈ لاک ملک ہے۔ ہمارے لیے گرم پانی تک رسائی انتہائی اہم ہے۔ اسی طرح پاکستان کی توانائی کی قلت اور خوراک کی ضروریات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اس صورتحال میں قازقستان، پاکستان کی مدد کر سکتا ہے۔ قازقستان میں مینوفیکچرنگ یونٹس لگانے سے وسطی ایشیا تک رسائی آسان ہو سکتی ہے۔
پاکستانی جامعات کا وفد قازقستان کا دورہ کرے گا
انہوں نے کہا کہ گزشتہ برس قازقستان میں غیر ملکی سرمایہ کاری میں اضافہ ہوا ہے۔ اس سال اگست میں پاکستان کی اعلیٰ جامعات بشمول، جامعہ قائد اعظم، نمل، نسٹ کا ایک وفد قازقستان کا دورہ کرے گا۔ اس وفد کو قازقستان کی جامعات اور تعلیمی اداروں کا دورہ کرایا جاے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ سیاحت کے حوالے سے ہم قازقستان میں سیاحت کے فروغ پر ایک بین الاقوامی سیمینار منعقد کرائیں گے۔ پاکستان اور قازقستان کی قیادت باہمی اقتصادی تعاون کے فروغ کے لیے پرعزم ہے۔ ہمیں عوامی سطح کے تعلقات کو فروغ دینا ہو گا۔ براہِ راست پروازوں سے ہمارے باہمی تعلقات ایک نئی جہت میں آگے بڑھیں گے۔
پھلوں کی برآمدات کے وسیع امکانات موجود ہیں
قازق سفیر کے مطابق ہمیں تجارت اور کاروبار کے علاوہ لوگوں کے درمیان رابطوں کو بڑھانا ہے۔ میں نے بہاولپور اور ملتان کا دورہ کیا۔ وہاں آم، فالسہ اور دیگر پھلوں کی برآمدات کے وسیع امکانات موجود ہیں۔ ٹیکسٹائل کے شعبے اور دیگر شعبوں میں تعلقات بڑھائے جا سکتے ہیں۔
انہوں بتایا کہ پہلی براہِ راست پرواز میں 50 کے قریب کاروباری شخصیات قازقستان جائیں گی۔ براہ راست پروازوں سے آم، فالسہ، کینو، امرود کی قازقستان برآمد کے مواقع میں اضافہ ہو گا۔ ان سے علاقائی و خطے کی صورتحال پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔
دنیا پاکستان کے بارے میں مثبت چیزوں سے آگاہ نہیں
ان کا کہنا تھا کہ دنیا پاکستان کے بارے میں مثبت چیزوں سے آگاہ نہیں۔ پاکستان ٹیکسٹائل کے شعبے میں دنیا کے 10 بڑے ملکوں میں آتا ہے۔ آلات جراحی بنانے میں پاکستان ایک نمایاں ملک ہے۔ پاکستان کی فارماسیوٹیکل انڈسٹری بہت بڑی اور ترقی یافتہ ہے۔ لیکن دنیا میں پاکستان کا جب بھی ذکر ہوتا ہے تو سیلاب اور دہشتگردی کے واقعات کے حوالے سے ہوتا ہے۔ ہمیں پاکستان کے اس تاثر کو بدلنا ہو گا۔
قازقستان سی پیک منصوبے کا حصہ ہے
انہوں نے کہا کہ چین کے صدر شی جن پنگ نے 10 سال پہلے ون بیلٹ ون روڈ منصوبے کا اعلان کیا۔ قازقستان سی پیک منصوبے کا حصہ ہے۔ چین کی یورپ کو 70 فیصد برآمدات قازقستان کے راستے سے ہیں۔ سی پیک علاقائی رابطہ کاری کا اہم ذریعہ ہے۔