چند دن پہلے ایک جگہ بلاول بھٹو زرداری نے خطاب کرتے ہوئے کہا اب میری باری ہے میں آپ کی خدمت کروں گا۔ ویسے ان کی ممکنہ خدمت کی بازگشت اب شہر اقتدار میں بھی زبان زد عام ہے کہ اگلا باری پیپلزپارٹی کو ملے گی۔ ویسے مجھے بلاول بھٹو کے وزیراعظم بننے کے امکانات ذاتی طور پر کم لگتے ہیں۔
حلقوں کی جمع تفریق سے کون کتنی سیٹیں جیتے گا، یہ ایک الگ سائنس ہے۔ ویسے یہاں سیٹیں جیتتا ہی کون ہے جمع تفریق تو پہلے ہی کر لی جاتی ہے ، اسی واسطے میں پاکستان کی جمہوریت کو جمہور کے بغیر سب کچھ سمجھتا ہوں۔
2008 سے لے کر اب تک کے تمام انتخابات کو اپنی آنکھوں سے ہوتا دیکھا، سمجھا، پرکھا اور پڑھا ہے۔ ہر بار ہی کہیں نا کہیں کوئی 25 سے 35 سیٹوں پر جھاڑو پھیرا جاتا ہے اور من پسند لوگ من پسند طریقے سے مسند اقتدار پر بیٹھ جاتے ہیں۔ ایسے تو نہیں یہ ملک تجربات کی آماج گاہ بنا۔
13 اگست موجودہ اسمبلیوں کی آخری تاریخ ہے 60 روز کے اندر انتخابات ہوں تو شاید اکتوبر کے پہلے، دوسرے ہفتے میں پولنگ کا امکان بنتا ہے۔ معلوم نہیں بلاول بھٹو کو کیسے پتا چل گیا کہ اب ان کی باری ہے ؟
بد قسمتی یہ ہے اس ملک کہ انتخابات پر اربوں روپے خرچ کیے جاتے ہیں ، مار کٹائی دھکم پیل ، اساتذہ کی تعیناتیاں سب کچھ ہوتا ہے مگر اس سے پہلے فیصلہ ہو چکا ہے کہ کون وزیراعظم ہو گا، ویسے پاکستان میں اب انتخابات کا سلسلہ ختم کر کے ٹاس کر لیا جائے تو قوم کے پیسے اور وقت دونوں بچ جائے گا اور ” لانے ” والوں کی شاید خواہشات کی تکمیل بھی ہو جائے۔
میں عمران خان کی سیاست سے لے کر پالیسیوں تک کا ہمیشہ ناقد رہا ہوں اور بار بار کہتا ہوں کہ یہ ملک دوبارہ کسی عمرانی تجربے کا متحمل نہیں ہو سگتا مگر شاید خواہشات کی تکمیل کہیں رکنے کا نام نہیں لے رہی۔
ہم کیوں یہ فیصلہ وقت اور عوام پر نہیں چھوڑ دیتے ہم کیوں جمہور کو جمہوری طریقے سے جمہوری حکومت منتخب کرنے کا حق نہیں دیتے 2018 میں جو تجربہ ہوا وہ غلط تھا مگر اب ووٹ کی طاقت سے اگر لوگ عمران خان کو ہی لانا چاہتے ہیں تو لانے دیں مگر انتخابات سے پہلے ہی یہ نا بتائیں کہ کون وزیراعظم ہے اگر پہلے ہی اعلان کرنا ہے تو پھر یہ جمہوریت کا نام نہاد ڈرامہ بند کر کے ٹاس کے ذریعے “سلیکشن” کر لیں جس میں سکے کی دونوں اطراف پر من پسند افراد لائے جا سکتے ہیں۔
ہم تو قرضوں میں ڈوبے ہوئے معاشی بدحال لوگ ہیں شاید کچھ پیسے بھی بچ جائیں گے اور خواہشات کی تکمیل بھی با آسانی ہو جائے گی۔
اس پاک وطن کو تو قائم رہنا ہے انشااللہ یہ رہے گا مگر کاش یہ تجربہ گاہ سے نکل کر ترقی کی منزل پر کوئی ایک قدم بھی اٹھائے۔ شاید ایسا ہو تو کوئی ایک ایسا حکمران بھی آتا جس کا مقصد محض اقتدار کا حصول ہی نہیں اس ملک کی پسی ہوئی عوام کے دردوں کا مدوا کرنا بھی ہو۔
مگر یہاں تو حکمران اشرافیہ جو شاید 1 فیصد ہو وہ تو وزارت عظمی کے خواب دیکھتے ہیں ماتھا کہیں اور ٹیکتے ہیں اور پھر انہیں عملی جامہ کوئی اور پہناتا ہے اس میں عوام کا نام و نشان کہیں نہیں ہوتا ۔
شاید اب بھٹو کا نواسہ بھی ایسے ہی خواب دیکھ رہا ہے۔ اگرچہ اس سب کے لیے پنجاب میں جوڑ توڑ کی محنت ضروری ہے لیکن کرنے والوں کے لئے نا ممکن تو کچھ بھی نہیں !