’5 جولائی 1977‘ ۔۔۔ ایک تاریک ترین دن

جمعرات 6 جولائی 2023
author image

ڈاکٹر ناظر محمود

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

5 جولائی 1977 کو  46 سال کا طویل عرصہ گزر چکا ہے، اس دن جمہوریت پر مارا جانے والا شب خون اب بھی لوگوں کی یادوں میں تازہ ہے اور تازہ رہنا بھی چاہیے۔

پاکستان کو بار بار جمہوریت کی پٹڑی سے اتارنے کا عمل یوں تو قیامِ پاکستان کے فوراً بعد ہی شروع کر دیا گیا تھا جب پے در پے صوبائی حکومتوں کو معطل یا برخاست کیا جاتا رہا اور پھر 1953 میں ملک کے دوسرے وزیراعظم خواجہ ناظم الدین کو ایک افسر شاہی کے نمائندے گورنر جنرل غلام محمد نے برطرف کیا ۔ اگلے ہی برس 1954 میں ملک کی پہلی دستور ساز اسمبلی کو بھی لپیٹ دیا گیا۔

پھر 1955 کے بعد میجرجنرل (ریٹائرڈ ) اسکندر مرزا جو صدر بھی بن بیٹھے تھے، بار بار وزیراعظم بدلتے رہے۔ 1958 کے بعد جنرل ایوب خان نے ملک میں براہِ راست مارشل لا لگا کر ملک کا پہلا آئین جو 9 سال کی محنت سے تشکیل دیا گیا تھا فردِ واحد کے حکم پر ختم کر دیا گیا۔

1965 میں محترمہ فاطمہ جناح کو جنرل ایوب خان نے دھاندلی کے ذریعے ہرایا اور پھر 1971 میں ایک اور فوجی آمر جنرل یحییٰ خان نے ملک کی سب سے بڑی اور انتخابات جیتنے والی جماعت عوامی لیگ کو اقتدار منتقل کرنے کے بجائے فوجی ایکشن کو ترجیح دی، جس کا نتیجہ بنگالیوں کی طرف سے جنگِ آزادی اور پاکستان کو بھارت کے ہاتھوں شکست کی صورت میں نکلا، جس نے ملک کا ایک بازو گنوا دیا۔

ان تمام جمہوریت دشمن اقدامات کے بعد بالآخر دسمبر 1971 میں بچے کچھے پاکستان میں جمہوریت بحال ہوئی اور ملک کے پہلے منتخب وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے اقتدار سنبھالا۔ انہوں نے نہ صرف ملک کو پہلا ایسا آئین دیا جس میں چاروں صوبوں کی نمائندگی کے لیے سینیٹ یا ایوانِ بالا کو متعارف کرایا گیا۔

گو کہ بھٹو سے کچھ غیر جمہوری اقدام بھی سرزد ہوئے مگر مجموعی طور پر بھٹو کا دور عوامی سیاست کا دور تھا جس نے عوام میں جمہوریت کا شعور بیدار کیا۔ یہاں مقصد بھٹو کی کامیابیوں یا ناکامیوں کو دہرانا نہیں صرف یہ بتانا مقصود ہے کہ بھٹو اپنی تمام تر خامیوں کے باوجود پاکستان کے ایک مقبول ترین عوامی رہنما تھے۔

انہوں نے 5 سال حکومت کرنے کے بعد جنوری 1977 میں نئے انتخابات کا اعلان کیا جو 7 مارچ اور 10 مارچ 1977 کو بالترتیب قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے لیے ہونا تھے۔ جب 7 مارچ کے قومی اسمبلی کے نتائج آنا شروع ہوئے تو حزبِ مخالف کے پاکستان قومی اتحاد نے جو ملک میں نظامِ مصطفیٰؐ کے نفاذ کا وعدہ لے کر میدان میں نکلی تھی، نے نتائج تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ۔

پاکستان قومی اتحاد کے سربراہ مولانا مفتی محمود تھے۔ جو مولانا فضل الرحمان کے والد اور جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ تھے۔ اس اتحاد میں ملک کی چیدہ چیدہ قدامت پرست جماعتیں شامل تھیں جو بھٹو کے خلاف نکل آئیں۔

پاکستان قومی اتحاد جسے پاکستان نیشنل الائنس یا PNA بھی کہا جاتا تھا نے، 10 مارچ کو ہونے والے صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کے بائیکاٹ کا اعلان کر دیا اور ایک بڑے احتجاج کا ڈول ڈالا۔ تقریباً 4 ماہ کے شدید احتجاج اور توڑ پھوڑ کو در پردہ جنرل ضیاء الحق اور ان کے بہی خواہوں کی حمایت حاصل رہی۔

بین الاقوامی طور پر امریکا جو بھٹو سے خوش نہیں تھا، وہ پاکستان میں دائیں بازو کی قدامت پرست حکومت لانا چاہتا تھا تاکہ پاکستان کو ایک بار پھر پوری طرح سے امریکا کے زیرِ نگیں کر دیا جائے۔

گوکہ 4 جولائی کو پیپلز پارٹی اور PNA میں نئے انتخابات کے انعقاد پر اتفاق رائے ہوگیا تھا اور 5 جولائی کو اس نئے معاہدے پر دستخط ہونے تھے لیکن پھر بھی جنرل ضیاء الحق نے اپنے وفادار فوجی جنرلوں کے ساتھ مل کر بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹ دیا۔

اس طرح قیام پاکستان کے ٹھیک 30 سال بعد ایک بار پھر جمہوریت کی گاڑی کو پٹڑی سے اتار دیا گیا۔ تمام سیاسی سرگرمیوں پر پابندی لگادی گئی اور بڑے سیاسی رہنما نظر بند کر دیے گئے۔ گو کہ جنرل ضیاء الحق نے وعدہ کیا تھا کہ وہ 90 دن میں صاف و شفاف انتخابات کرا کر اقتدار منتخب نمائندوں کے حوالے کر دیں گے، تاہم ان کا یہ وعدہ پورا نہ ہوسکا اور انہوں نے 11 سال سے زیادہ حکومت کی اور ملک کو افغان جنگ میں جھونکا۔ جمہوری اداروں کا صفایا کیا۔ طلبہ اور مزدور تنظیموں کو نشانہ بنایا اور خود آمر بن کر بیٹھے رہے۔

گو کہ اس سے قبل پہلے میجر جنرل ( ریٹائرڈ ) اسکندر مرزا نے 1955 سے 1958 اور جنرل ایوب خان نے 1958 سے 1969 اور پھر جنرل یحییٰ خان نے 1969 سے 1971 تک مجموعی طور پر 16 سال جمہوریت کو یرغمال بنائے رکھا تھا لیکن جنرل ضیاءالحق کا دور سب سے زیادہ تباہ کن تھا۔

اس پر گفتگو کی جاسکتی ہے کہ جنرل یحییٰ خان کا دور زیادہ تباہ کن تھا کہ اس میں بے شمار مشرقی پاکستانی باشندوں کا قتل عام ہوا اور ملک کو ایک ایسی جنگ میں جھونکا گیا جس نے پاکستان کو دو نیم کر دیا، لیکن جنرل یحییٰ خان کی حرکتوں اور بد اعمالیوں کا اثر 1971 میں ختم ہو گیا۔ ملک ٹوٹ گیا اور باقی ماندہ پاکستان بھٹو کی قیادت میں ایک راستے پر چل پڑا۔

جنرل ضیاء الحق کی فوجی آمریت اس سے کہیں زیادہ تباہ کن اس لیے تھی کہ اس نے ملک کے سیاسی و سماجی حالات کا نقشہ ہی بدل دیا۔ جنرل ضیاء الحق نے اپنے ساتھی جرنیلوں کے ساتھ مل کر ملک کی تمام جمہوری اور ترقی پسند قوتوں کو بے دریغ نشانہ بنایا۔ انتہا پسند اور مذہبی جنون میں مبتلا قوتوں کی سرپرستی کی اور ملک کو اسلام کے نام پر ایک ایسے جہنم میں جھونک دیا جس کی آگ میں ملک اب تک جل رہا ہے۔ یہ یقیناً بڑی  تباہی تھی۔

جنرل ضیاء الحق اپنی منافقت میں دیگر تمام فوجی اور غیر فوجی حکمرانوں کو مات دے چکے تھے۔ بار بار وعدے کرنا اور انہیں توڑنا، پھر نئے وعدے کرنا اور انہیں بھی پورا نہ کرنا، ان کا خاصا تھا۔ جنرل ضیاء الحق برملا کہا کرتے تھے کہ آئین ایک کاغذ کا پرزہ ہے جسے کسی بھی وقت پھاڑ کر پھینکا جا سکتا ہے، پھر اسی طرح کی بات 20 سال بعد جنرل مشرف نے بھی کی۔

ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی ملک کی تاریخ کا ایک انتہائی درد ناک اور دور رُس اثرات کا حامل واقعہ تھا جس کو عملی جامہ پہنانے کے لیے جنرل ضیاء الحق نے تمام قانونی اور عدالتی ضابطوں کو بالائے طاق رکھ دیا تھا۔

اپنی مرضی کے جج مقرر کیے اور ناپسندیدہ ججوں کو منتقل، معطل یا سبکدوش کردیا ۔ ایسے جج لائے گئے جو زیادہ تر بھٹو سے شدید نفرت کرتے تھے یا بھٹو کے کسی نہ کسی فیصلے سے ناخوش تھے۔

بھٹو کا مقدمہ ایک ایسا نادر مقدمہ ہے جس میں قتل کا ملزم موقع واردات پر موجود نہیں تھا۔ اس سے کوئی آلہ قتل برآمد نہیں ہوا اور اس کے خلاف کوئی ٹھوس شواہد بھی موجود نہ تھے، لیکن صرف وعدہ معاف گواہی پر اور ناکافی ثبوت ہونے پر بھٹو کو پھانسی لگا دی گئی۔ جب تمام جج متفق نہ ہوں تو ملزم کو شک کا فائدہ دے کر کم سزا دی جاتی ہے لیکن بھٹو کو بہرحال پھانسی دے دی گئی۔

اس طرح ملک میں سیاسی قیادت کا اتنا بڑا خلا پیدا کیا گیا جسے پُر کرنا ممکن نہیں رہا۔ اس کے ساتھ ہی جنرل ضیاء الحق نے اظہارِ رائے کی آزادی پر شدید پابندیاں لگائیں اور اس کے خلاف احتجاج کرنے والے صحافیوں کو کوڑے لگائے گئے۔

سب سے بڑا نقصان پاکستان کو اُس وقت پہنچنا شروع ہوا جب جنرل ضیاء الحق نے خود کو برسرِ اقتدار رکھنے اور امریکی خوشنودی کے لیے افغان جہاد میں براہِ راست شمولیت کے خاطر ریاستی اداروں کا استعمال کیا۔ ملک کے نوجوانوں کو ایک ایسی راہ دکھائی جو تباہ کُن تھی۔ ملک میں دینی مدرسوں کا جال بچھایا گیا جن میں پچھلے 40 سال سے مسلسل اضافہ ہو رہا ہے ۔

ملک میں اس وقت جو مذہب کے نام پر جنونی کیفیت پائی جاتی ہے اس کا آغاز جنرل ضیاء الحق نے کیا۔ ایسے قوانین نافذ کیے جن سے اقلیتوں کو نشانہ بنانا بہت آسان ہوگیا اور رفتہ رفتہ یہ ملک ایک ایسی دلدل میں دھنستا چلا گیا جس سے نکلنا اب تقریباً ناممکن نظر آتا ہے۔

ان حادثات اور حقائق کے تناظر میں  5 جولائی ایک ایسا تاریک ترین دن قرار پایا ہے جس کی تلخیوں کو بھلایا نہیں جاسکتا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

کالم نگار اور ماہر تعلیم تیس سال سے تعلیم اور صحافت سے وابستہ ہیں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp