ہالی وڈ ڈائریکٹر ڈیوڈ لین کی پیش کش خاصی پرکشش تھی۔ شہنشاہ جذبات دلیپ کمار نے فیصلہ کرنے کے لیے مہلت مانگی۔ ڈیوڈ لین، دلیپ کمار کی اداکاری سے خاصے متاثر ہوئے تھے۔ جنہوں نے ایک ملاقات میں جہاں انہیں بتایا کہ وہ بھارتی فلموں میں استعمال زبان کو تو نہیں سمجھ سکتے لیکن یہ ضرور ہے کہ دلیپ کمار کے چہرے کے تاثرات، اُن کے مکالمات کی ادائیگی کا انداز اور پھر اُن کی حرکات و سکنات نے جیسے انہیں دلیپ کمار کے سحر میں مبتلا کردیا تھا۔
ڈیوڈ لین، ہالی وڈ کے منجھے ہوئے ہدایتکار تسلیم کیے جاتے تھے جنہوں نے 60 کی دہائی تک کئی فلموں میں اپنی صلاحیتوں کا کامیاب امتحان لیا تھا۔ ان میں بریف ان کاؤنٹر، اولیور ٹوئسٹ، گریٹ ایکزپیٹیشن، سمر ٹائم اور دی برج آن دی ریور کاوئی نمایاں رہیں۔ اُن دنوں وہ ایک نئی فلم ’لارنس آف عربیہ‘ کی تیاریوں میں مصروف تھے، جب دلیپ کمار کی شہرت کا ڈنکا چاروں طرف بج رہا تھا تو برطانوی ہدایتکار ڈیوڈ لین نے یہ جاننے کے لیے شہنشاہ جذبات کہلانے والے دلیپ کمار کیسی اداکاری کرتے ہیں، ان کی کچھ فلمیں دیکھیں تو دلیپ کمار کے پرستاروں میں ایک اور بڑے مداح کا اضافہ ہوا۔
ہدایتکار ڈیوڈ لین کو لگا کہ’لارنس آف عربیہ‘ کے شریف علی ابن ال خاریش کے کردار کے لیے جس اداکار کی تلاش میں وہ ہیں وہ دلیپ کمار کے علاوہ کوئی اور نہیں ہوسکتا۔ دلیپ کمارسے خصوصی ملاقات ہوئی اور انہیں بتایا گیا کہ بالی وڈ کے بعد اب ان کی اگلی منزل ہالی وڈ منتظر ہے۔ دلیپ کمار کو ان کا کردار سنایا گیا۔ کوئی اور اداکار ہوتا تو آنکھ بند کرکے ہالی وڈ کی اڑان بھرتا لیکن دلیپ کمار نے تحمل مزاجی اور صبر کے ساتھ ساتھ دور اندیشی کا اظہار کرتے ہوئے ڈیوڈ لین سے سوچنے کے لیے مہلت مانگی۔
ڈیوڈ لین تو اس قدر بے صبرے تھے کہ انہوں نے یہ اعلان بھی کردیا کہ وہ ’لارنس آف عربیہ‘ کے بعد ایک اور فلم ’تاج محل‘ میں بھی دلیپ کمار کو کاسٹ کرنے جارہے ہیں۔ جس میں ان کی ہیروئن کوئی اور نہیں الزبتھ ٹیلر ہوں گی۔ یہ وہ دور تھا جب ہالی وڈ الزبتھ ٹیلر کی مثالی خوبصورتی اور حسین انداز نے ہر دل کو گھائل کیا تھا۔ جو اپنی دلکشی کے ساتھ ساتھ اداکاری کے جوہر دکھانے میں بھی کسی سے کم نہیں تھیں۔ کون سا ایسا اداکار نہیں ہوگا جو الزبتھ ٹیلر کے ساتھ ہیرو بننے کا ارمان آنکھوں میں نہ سجاتا ہو۔ اب ایسی اداکارہ اور ہدایتکار کے ساتھ کام کرنے کے لیے دلیپ کمارنے ’انتظار فرمائے‘ کا بورڈ اٹھا لیا تھا۔
اور پھر وہی ہوا جس کا کسی نے تصور نہیں کیا تھا۔ دلیپ کمار نے دونوں فلموں کے لیے معذرت کرلی۔ ڈیوڈ لین ہی کیا کسی کو بھی یقین نہیں آیا کہ دلیپ کمار نے اتنی بڑی پیش کشوں کو یوں آسانی کے ساتھ ٹھکرادیا۔
ہالی وڈ ہدایتکار نے اس کردار کے لیے پھر عرب اسٹار عمر شریف کا انتخاب کیا جن کے کیرئیر کو اس کردار کی وجہ سے ایک نئی پہچان ملی۔
دلیپ کمار کے انٹرویوز میں بارہا ان سے ہالی وڈ میں کام نہ کرنے کی وجہ دریافت کی گئی تو ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے ایک ایسا فیصلہ کیا جو اُس وقت کے اعتبار سے مناسب تھا۔ دلیپ کمار سمجھتے تھے کہ خود کو ثابت، منوانے یا پھر مطمئن کرنے کے لیے وہ ہالی وڈ کا ر خ کیوں کریں؟ یہ کام تو وہ بھارتی فلموں میں کام کرکے بھی پورا کرسکتے ہیں۔ اسی بنا پر انہوں نے ڈیوڈ لین سے معذرت کی۔
دلیپ کمار کا خیال تو یہ بھی تھا کہ ان کو ملنے والے کردار میں عمر شریف نے بھرپور انصاف کیا۔ یہاں تک کہ دلیپ کمار تو یہ بھی سمجھتے تھے کہ عمر شریف نے ان سے کہیں زیادہ بہتر طور پر یہ کردار نبھایا۔
اب یہ دلچسپی سے بھری یہ بات ہوگی کہ 1966 میں دلیپ کمار کی شریک سفر بننے والی سائرہ بانو سے جب ایک طویل عرصے بعد شوہر کے ہالی وڈ میں کام نہ کرنے پر سوال کیا گیا تو سائرہ بانو نے ہنستے مسکراتے ہوئے کہا کہ اُس وقت جب انہوں نے یہ سنا تو انہیں تو خاصی خوشی ہوئی تھی کہ یوسف صاحب نے ہالی وڈ کے لیے معذرت کرلی۔ اب تصور کریں کہ وہ ایک فلم ’تاج محل‘ میں طلسماتی حسن کی مالک الزبتھ ٹیلر کے بھی ہیرو بننے والے تھے۔ اب اگر وہ اس فلم میں کام کرتے اور اُن کے اور الزبتھ کے درمیان’ کچھ ‘ ہوجاتا تومیں کہاں جاتی۔ کیونکہ وہ اتنا جانتی ہیں کہ الزبتھ ٹیلر، یوسف صاحب کی محبت کی اسیر بن جاتیں اور اُن کے پاس شادی کے سوا کچھ اور انتخاب نہیں ہوتا۔ تب میں کہاں جاتی؟
یہاں یہ بھی بتا دیں کہ سائرہ بانو اور دلیپ کمار کی عمروں میں لگ بھگ 22 سال کا فرق تھا اور اسی پہلو کو دیکھتے ہوئے شادی سے پہلے دلیپ کمار کئی فلموں میں سائرہ بانو کے ہیرو بننے سے انکار کرچکے تھے جبکہ پری چہرہ نسیم بانو کی حسین وجمیل صاحبزادی سائرہ بانو کا بچپن سے ہی دلیپ کمار پر دل آیا ہوا تھا۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔