پی سی بی کا تھیٹر اور ذکا اشرف

جمعہ 7 جولائی 2023
author image

سمیع محمد

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

گو پاکستان کرکٹ بورڈ کے دھندلے افق پہ اک نیا سویرا طلوع ہو چکا ہے اور بظاہر بے یقینی کے بادل چھٹنے کو ہیں مگر پچھلے چند ماہ میں جو مدوجزر اس ادارے کو نصیب ہوئے ہیں، اب کوئی یقینی کیفیت آتے آتے ہی آئے گی۔

ایشیا کپ ہر 2سال بعد منعقد ہوتا ہے جبکہ چئیرمین پی سی بی کے عہدے پہ براجمان شخص کی سرکاری مدتِ ملازمت 3سال ہوا کرتی ہے۔ لیکن حالیہ ایشیا کپ کے 2سالہ سائیکل میں پی سی بی کو اپنا تیسرا چئیرمین مل چکا ہے۔ اور اس کے بعد بھی ہم متحیر رہتے ہیں کہ دنیائے کرکٹ ہمیں سنجیدگی سے کیوں نہیں لیتی؟

جب ایشیا کپ میزبانی کے حقوق پاکستان کے حصے میں آئے، تب رمیز راجہ اس کرسی پہ براجمان تھے۔ ابھی شیڈول طے نہ ہوا تھا کہ رمیز راجہ کو رخصتی کا پروانہ مل گیا۔ ان کے جانشین نجم سیٹھی کی خاصیت ان کی سفارتکارانہ صلاحیتیں تھیں۔ سیٹھی نے آتے ہی اپنی سفارت کاری کا جادو جگایا اور ایک ایسا ہائبرڈ ماڈل پیش کیا جس پہ بھارت کے ساتھ ساتھ سری لنکا اور بنگلہ دیش بھی معترض ہو بیٹھے۔

پہلے ہائبرڈ ماڈل کی ناکامی کے پیشِ نظر سیٹھی نے ایک اور ہائبرڈ ماڈل پیش کیا جسے ورلڈ کپ میں شمولیت کے بھاؤ تاؤ پہ منظور کر لیا گیا مگر ہائبرڈ ماڈل کی منظوری ملتے ہی نجم سیٹھی کو بھی رخصتی کا پروانہ مل گیا کیونکہ اقتدار و اختیار کی تازہ تر حرکیات پھر سے پی سی بی جیسی سونے کی چڑیا پہ اپنا اپنا حق جتانے لگی تھیں۔

نجم سیٹھی تو یہ کہہ کر چلتے بنے کہ وہ آصف زرداری اور نواز شریف کے بِیچ محاذ آرائی کی وجہ نہیں بننا چاہیں گے۔ مگر ان کے جانشین ذکا اشرف نے نامزد ہوتے ہی سیٹھی کے طے کردہ ہائبرڈ ماڈل کو بھی بیک جنبشِ قلم مسترد کر ڈالا۔ اس سے پہلے کہ یہ جگ ہنسائی طول پکڑ پاتی، ذکا اشرف نے پی سی بی کی ‘زبان’ کا پاس رکھنے کو اپنا استرداد واپس لے لیا۔

ذکا اشرف کے اس یو ٹرن کی برکت سے پاکستان کرکٹ کی جگ ہنسائی تو طول نہ پکڑ پائی مگر وہ انتظامی ہڑبونگ بہرحال مزید بڑھ گئی جس کے تحت پچھلے 2ہفتوں میں پی سی بی 2بار اپنی ہی جاری کردہ پریس ریلیز واپس لے چکا ہے اور صحافت بھی خلجان میں مبتلا ہے کہ کس کو خبر مانیں اور کس کو تردید جانیں۔

سوال مگر یہ ہے کہ پی سی بی جیسی اکانومی پہ براہِ راست حکومتی گرفت ضروری ہی کیونکر ٹھہری؟

24 کروڑ آبادی کے ملک کا وزیراعظم جسے صرف دفاع، خارجہ اور داخلہ ہی نہیں، معاشی محاذوں پہ بھی ہمہ وقت نظر جمائے رکھنا ہوتی ہے، آخر کیوں کرکٹ بھی اس کی نظرِ التفات کی اسیر ٹھہرا دی گئی؟ کیا ضروری ہے کہ اقتدار کے ایوانوں میں بدلتے سیاسی توازن کے نقوش پی سی بی کی کرسیٔ صدارت پہ بھی اپنا عکس مرتب کریں؟

ایسا نہیں کہ پی سی بی کو ہر عہد میں کرکٹ سے ناآشنا پیٹرن ان چیف ہی ملے۔ گزشتہ دور میں ایک کرکٹر ہی اس کے پیٹرن ان چیف رہ چکے ہیں اور بطور پیٹرن، عمران خان نے احسان مانی کے تقرر میں ایک صائب فیصلہ کیا تھا۔ مگر جب 3سالہ مدت مکمل ہونے پہ مانی نے اپنے آغاز کردہ اصلاحاتی پروگرام کی تکمیل کے لیے ایک اور ٹرم کی ایکسٹنشن مانگی تو عمران خان نے اپنے سابقہ کھلاڑی رمیز راجہ کو ان پہ فوقیت دی۔

رمیز راجہ نے آتے ہی احسان مانی کے طے کردہ سٹرکچر کو اتھل پتھل کر دیا۔ دفتر سنبھالنے سے پہلے ہی کوچنگ سٹاف کی چھٹی کر دی گئی اور بے یقینی کی وہ فضا پیدا ہوئی کہ کپتان بابر اعظم کی نوکری بھی آزمائشی مراحل میں داخل ہو گئی۔ بطور منتظم رمیز راجہ کا عہد پاکستان کرکٹ کے وابستگان کے لیے ہنگاموں سے بھرپور رہا۔

اور پھر جب نئے پیٹرن ان چیف نے رمیز کی برخاستگی کا فیصلہ صادر کیا تو اس کے محرکات بھی انتظامی نہیں، سیاسی تھے۔ نجم سیٹھی نے آتے ہی کچھ مقبول فیصلے کرنے کی جستجو میں رمیز کے لگ بھگ تمام اقدامات کو تہہِ تیغ کیا اور اپنی نیام سے کچھ نئے فیصلے آشکار کیے۔

ابھی نجم سیٹھی کے فیصلوں کو جڑ پکڑنا تھی کہ پیٹرن ان چیف اپنے اتحادیوں کی کھینچا تانی سے مسحور ہو گئے اور ذکا اشرف بطور چئیرمین نامزد ہو گئے۔ ان کی نامزدگی سے استحکام کی بجائے ایک اور انتظامی بحران اٹھ کھڑا ہوا اور اس دوران پی سی بی کی گمراہ کن پریس ریلیزز بھی اس بحران کی عکاس رہیں۔

اب جبکہ بالآخر ذکا اشرف چئیرمین منتخب ہو چکے ییں، ایک بار پھر وہ تمام تقرریاں شکوک و شبہات کے حصار میں ہیں جن پہ نجم سیٹھی نے مہرِ تصدیق ثبت کی تھی۔ اور یہ فیصلے وہ تھے جن کے گرد پاکستان کرکٹ کو اپنا مستقبل کھوجنا تھا۔

مکی آرتھر کو بہت اصرار کے ساتھ ایک ریموٹ ٹیم ڈائریکٹر مقرر کیا گیا۔ کوچنگ سٹاف کی آسامیوں کے لئے خوب تشہیر کی گئی مگر جب تمام ممتاز انٹرنیشنل کوچز نے اپنا مستقبل اس انتظامی ہڑبونگ میں جھونکنے سے احتراز برتا تو بالآخر گرانٹ بریڈبرن کو ذمہ داری تفویض کر دی گئی۔

پی سی بی کی یہ روایت رہی ہے کہ ہر آنے والا چئیرمین اپنی ہستی کا ثبوت دینے کے لیے بعض محیرالعقول فیصلے ضرور کر گزرتا ہے۔ سو، اب جہاں ایک طرف ذکا اشرف کی خوش بختی کے دن شروع ہو رہے ہیں تو دوسری طرف پچھلے چئیرمین کے طے کردہ تمام تقرر پھر سے بے یقینی کے کچے دھاگے سے لٹکنے لگے ہیں۔

اور کیسی پرلطف بات ہے کہ ان سبھی ہنگاموں کے بعد اگر کل کلاں قومی کرکٹ ٹیم کسی انٹرنیشنل ایونٹ میں متوقع کارکردگی نہیں دکھا پاتی تو صحافیانہ توپوں کی برق پھر بیچارے کرکٹرز پہ ہی گرے گی۔ سوال اٹھیں گے تو کپتان کی قائدانہ صلاحیتوں پہ، پریمئم بولرز کی استعداد پہ اور زیرِ بحث آئے گی تو قابل بلے بازوں کی فارم اور تسلسل۔ مگر تسلسل اور استحکام کے سوالات اٹھانے والے یہ یکسر بھول جائیں گے کہ پچھلے 2برس میں پی سی بی کے اس تھیٹر پہ کیا کیا تماشے رچائے گئے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp