چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کے خلاف توشہ خانہ فوجداری کارروائی سے متعلق کیس میں ایڈیشنل سیشن جج ہمایوں دلاور نے درخواست کو قابل سماعت قرار دے دیا۔ ایڈیشنل سیشن جج ہمایوں دلاور نے محفوظ شدہ فیصلہ سنایا۔
مزید پڑھیں
ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج اسلام آباد ہمایوں دلاور نے 12 جولائی کو گواہان کو طلب کر لیا۔
سماعت کے دوران جج ہمایوں دلاور نے ریمارکس دیے کہ جب سے توشہ خانہ مقدمہ میری عدالت میں آیا ہے باقی مقدمات رک گئے ہیں۔ جتنا عدالت اس کیس میں تحمل کا مظاہرہ کر رہی ہے ایسا تاریخ میں کبھی نہیں ہوا۔ عمران خان کے سینیئر وکیل خواجہ حارث کے نہ آنے پر عدالت نے حق سماعت ختم کر دیا۔
آج کی سماعت کا احوال
ہفتے کے روز سماعت شروع ہوئی تو عمران خان کے وکیل بیرسٹر گوہر علی خان کے جونیئر وکیل سلمان ایوب عدالت میں پیش ہوئے اور کہا کہ ان کے سینیئر راستے میں ہیں ان کے آنے تک سماعت ملتوی کی جائے جس پر عدالت نے استدعا منظور کرتے ہوئے سماعت ساڑھے گیارہ بجے تک ملتوی کر دی، ساتھ ہی ساتھ عدالت نے ریمارکس دیے کہ جتنا عدالت اس کیس میں تحمل کا مظاہرہ کر رہی ہے ایسا تاریخ میں کبھی نہیں ہوا۔
ایڈیشنل سیشن جج ہمایوں دلاور نے کہا کہ ساڑھے گیارہ بجے تک اس کیس میں دلائل دیں بصورت دیگر میں اس کیس میں فیصلہ سنا دوں گا۔ سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو عمران خان کے وکیل کی جانب سے ایک بار پھر عمران خان کی عدالت میں حاضری سے استثنیٰ کی درخواست دائر کر دی گئی جبکہ الیکشن کمیشن کے وکلا نے اس کی مخالفت کی۔
عمران خان کے وکیل بیرسٹر گوہر علی خان نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے وکیل امجد پرویز ایڈووکیٹ اس مقدمے میں پہلے بحث کر لیں ہم اگلے ہفتے بحث کر لیں گے۔
ہائیکورٹ نے ایک ہفتے میں فیصلے کا حکم دے رکھا ہے: وکیل الیکشن کمیشن
الیکشن کمیشن کے وکیل امجد پرویز نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ نے ایک ہفتے میں فیصلہ کرنے کا حکم دے رکھا ہے، انہوں نے اسلام آباد ہائیکورٹ کی جانب سے جاری فیصلے کا متعلقہ پیراگراف پڑھ کر سنایا اور مختلف عدالتی فیصلوں کے حوالے دیتے ہوئے کہا کہ چیئرمین پی ٹی آئی کے خلاف توشہ خانہ کے حوالے سے شکایت کے ساتھ اتھارٹی لیٹر لگا ہواہے، الیکشن کمیشن کے فیصلے کے بعد ہی عمران خان کے خلاف شکایت دائر کی گئی۔
انہوں نے کہا کہ الیکشن ایکٹ سیکشن 190شکایت دائرکرنےکااختیاردیتا ہے اور قانون کےمطابق ہی الیکشن کمیشن کےافسر نےتوشہ خانہ کیس میں شکایت دائر کی۔ الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا کہ الیکشن ایکٹ کے تحت عدالت کے پاس ایسی شکایات سننے کا اختیار موجود ہے۔
امجد پرویز نے مزید دلائل دیتے ہوئے کہا کہ اگر آپ اس بات کو فراموش بھی کر دیں کہ الیکشن کمیشن نے توشہ خانہ سے متعلق کوئی فیصلہ دے رکھا ہے پھر بھی عدالت میں شکایت دائر کرنے کا تو ہر شخص کو حق ہےناں۔
الیکشن کمیشن کے وکیل نے مزید کہا کہ اگر کوئی کرپٹ پریکٹس کرے تو الیکشن ایکٹ سیکشن 190 اس کے خلاف شکایت دائر کرنے کا حق دیتا ہے اور اس معاملے میں کسی عام شخص نہیں بلکہ ڈسٹرکٹ الیکشن کمشنر نے شکایت دائر کی اور ساتھ میں اتھارٹی لیٹر کو بھی لگایاہے۔
امجد پرویز ایڈووکیٹ نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ہائیکورٹ کا پہلا سوال یہ ہے کہ کیا شکایت دائر کرنے کی ڈائریکشن ہے یا نہیں؟ انہوں نے کہا کہ اتھارٹی لیٹر سے ثابت ہوتاہے کہ الیکشن کمیشن کی طرف سے شکایت دائر کرنے کی ڈائریکشن دی گئی اور الیکشن کمیشن تو آئینی ذمے داری سمجھتےہوئے توشہ خانہ کیس کو فالو کررہاہے، الیکشن کمیشن کی آئینی ذمے داری ہےکہ کرپٹ پریکٹس کے خلاف کارروائی کرے۔
اثاثوں کی تفصیلات ظاہر کرنا امیدوار کا کام ہے: امجد پرویز ایڈووکیٹ
وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ کسی پر لگا جرم کبھی مرتا نہیں، انہوں نے کہا کہ کسی کا کیس یہ نہیں کہ کرپشن اور کرپٹ پریکٹس جرم نہیں، انہوں نے سوال اٹھایا کہ کرپشن یا کرپٹ پریکٹس جرم ہے تو کیا اس کی کوئی میعاد ہوتی ہے۔ جرم کی ایکسپائری نہیں ہوتی۔
امجد پرویز ایڈووکیٹ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ عمران خان کے وکلا کے مطابق چیف الیکشن کمشنر وزیراعظم کے ساتھ ملا ہوا ہے، یہ دراصل چاہتے ہیں کہ الیکشن کمیشن کرپٹ پریکٹس پر شکایت دائر نہ کرے۔
انہوں نے کہا کہ کسی شخص کو کرپٹ ثابت کرنے کے لیے قانون میں کوئی مخصوص وقت نہیں لکھاہوا، الیکشن ایکٹ کے مطابق اثاثوں کی تفصیلات ظاہر کرنا امیدوار کا کام ہے، اس مقدمے میں اسپیکر قومی اسمبلی نے الیکشن کمیشن کو ریفرنس بھیجا کہ سابق وزیر اعظم نے توشہ خانہ سے تحائف لیے جن کو ظاہر نہیں کیا گیا، الیکشن کمیشن نے ریفرنس پر نوٹس لیا اور اس پر قانونی کارروائی کرکے فیصلہ جاری کیا۔
امجد پرویز ایڈووکیٹ نے عدالت کے سامنے موقف اختیار کیا کہ عمران خان اس مقدمے میں متعدد بار استثنا کی درخواستیں دائر کر چکے ہیں اور وہ صرف تاخیری حربے استعمال کر رہے ہیں۔
عمران خان کے وکیل کی سماعت پیر تک ملتوی کرنے کی استدعا
عمران خان کے وکیل بیرسٹر گوہر علی خان نے کہا کہ اس مقدمے میں ان کے سینیئر کونسل خواجہ حارث احمد ہی دلائل دیں گے وہ آج نہیں آ سکے اس لیے سماعت سوموار تک ملتوی کی جائے۔ جس پر جج ہمایوں دلاور نے کہا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ نے آپ کو اتنا بڑا ریلیف دیاہے۔
وکیل گوہر علی خان نے کہا اسلام آباد ہائیکورٹ نے چیئرمین پی ٹی آئی کو کوئی ریلیف نہیں دیا، ہائیکورٹ نے ہمیں سننے کے لیے آپ کے پاس بھیجا اور میں اس پر بھی متفق نہیں کیونکہ عمران خان سے سے ان کا حق سماعت لیا جارہاہے۔ عمران خان کے وکیل گوہر علی خان نے کہا اس کیس میں جلد بازی میں فیصلہ کیا گیا تو ناانصافی ہو گی۔
توشہ خانہ کیس پر ہر پاکستانی کی نظر ہے: جج ہمایوں دلاور
سماعت کے دوران عمران خان کے سینیئر وکیل خواجہ حارث کی عدم موجودگی پر جج ہمایوں دلاور نے کہا کہ خواجہ حارث سینیئر وکیل ہیں، ان سے اس طرح کا رویہ نہیں توقع کیاجاسکتا، جج نے کہا توشہ خانہ کیس پر ہر پاکستانی کی نظر ہے۔ یہاں یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے ڈسڑکٹ اینڈ سیشن عدالت کو اس مقدمے کے قابل سماعت ہونے کے بارے میں 7 دن میں فیصلہ کرنے کی ہدایت جاری کی تھی۔
واضح رہے کہ چیئرمین پی ٹی آئی نے توشہ خانہ کیس قابل سماعت ہونے کے خلاف درخواست دائر کر رکھی تھی۔اسلام آباد ہائی کورٹ نے سیشن کورٹ کو 7 روز میں فیصلہ کرنے کا حکم دے رکھا تھا۔
عمران خان کے خلاف توشہ خانہ کے تحائف اثاثوں میں ظاہر نہ کرنے سے متعلق فوجداری مقدمہ درج ہے۔ الیکشن کمیشن پہلے ہی سابق وزیراعظم کو اثاثوں میں توشہ خانہ کے تحائف چھپانے پر ڈی سیٹ کر چکا ہے ۔ الیکشن کمیشن نے الیکشن ایکٹ 137 اور 170 کے تحت فوجداری مقدمہ بھی دائر کیا ہے۔ توشہ خانہ کیس میں جرم ثابت ہونے کی صورت میں تین سال قید یا جرمانے کی سزا ہو سکتی ہے۔
توشہ خانہ سے کس نے لیا؟ 2002 سے 2023 تک کا ریکارڈ سامنے آگیا
سابق صدر آصف علی زرداری نے 10 گھڑیاں۔ سابق وزیراعظم عمران خان نے 7 گھڑیاں توشہ خانہ سے حاصل کیں۔ سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے ایک گھڑی توشہ خانہ سے حاصل کی۔
وزیراعظم شہباز شریف نے ماضی میں بطور وزیر اعلیٰ 2 گھڑیاں توشہ خانہ سے حاصل کیں، تاہم بطور وزیراعظم ملنے والی گھڑیاں توشہ خانہ میں جمع کرا دیں۔
وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے 4 گھڑیاں حاصل کیں۔ سابق نیول چیف ایڈمرل ذکاء اللہ نے 13 اور ان کی اہلیہ نے توشہ خانہ سے 4 گھڑیاں حاصل کیں۔
بیس سال میں بارہ سو گھڑیاں
سال 2002 سے 2023 تک مجموعی طور پر 1200 سے زائد گھڑیاں حکومت پاکستان کو تحائف میں دی گئیں۔ جن میں سے بیشتر گھڑیاں، وزراء اعظم ان کی فیملیز، صدور، وفاقی وزراء، سیکرٹریز، آرمی افسران، نیول چیف ، صحافی، کیمرہ مین، حتیٰ کہ پروٹوکول افسران اور گن مینوں نے بھی حاصل کیں۔