لاروا انسانی جسم کے مردہ ٹشوز کو کھانے کا کام بخوبی انجام دیتا ہے لہٰذا جب لاروا کو زخموں پر رکھا جاتا ہے تو یہ مردہ ٹشوز کو کھا جاتے ہیں اور شفا بخش مادے خارج کرتے ہیں، اینٹی بائیوٹکس کے استعمال کو کم کرتے ہیں یا ان کی ضرورت سرے سے ختم کر دیتے ہیں۔ یہ نئی دریافت ذیابیطس اور السر کے مریضوں کے لیے کسی بڑی خوشخبری سے کم نہیں ہے۔
نئی تکنیک جسے لاروا تھراپی کا نام دیا گیا ہے، برازیل میں ابھی ابتدائی مراحل میں ہے، اس کی جڑیں قدیم علمِ طب سے ملتی ہیں۔ برازیل کے شہر ساؤ پالو میں واقع کیمپیناس لیبارٹری سے ننھے لاروے برازیل کے کئی شہروں کے ہسپتالوں میں بھیجے گئے تھے۔ یہ مکھیوں کی 2 قسموں کے لاروے تھے جنہیں ایک بہت ہی مخصوص طبی مقصد کے لیے تیار کیا گیا تھا اور وہ طبی مقصد تھا کہ ’ناقابل علاج زخموں کا علاج۔‘
کیمپیناس سٹیٹ یونیورسٹی کی ماہرِ حیاتیات پیٹریسیا تھیسن نے یہ لاروا تخلیق کیا ہے، اگرچہ یہ کسی حد تک مانع عمل ہے تاہم ایسے تاریخی حوالے موجود ہیں جن کے مطابق ہزاروں سال پہلے وسطی امریکا میں مایان لوگ اور آسٹریلوی باشندے زخموں کو ٹھیک کرنے کے لیے لاروا ہی استعمال کرتے تھے۔
20ویں صدی تک، پینسیلن اور اینٹی بائیوٹک ادویات نے اس طرح کے علاج کو ختم کر دیا تھا۔عہد موجود میں زیادہ سے زیادہ اینٹی بائیوٹکس مزاحمت کرنے والے بیکٹیریا کے خلاف اپنی تاثیر کھو دیتے ہیں، جسے عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) صحت عامہ کے لیے 10 سب سے بڑے خطرات میں سے ایک سمجھتا ہے۔
حالیہ دہائیوں میں صحت کے زیادہ سے زیادہ ماہرین نے لاروا کی طرف رجوع کیا ہے تاکہ ان دائمی اور متاثرہ زخموں کا علاج کیا جا سکے جو اینٹی بائیوٹکس اور روایتی ڈریسنگ سے ٹھیک نہیں ہو پاتے۔ برازیل میں محقیقین چاہتے ہیں کہ نیشنل ہیلتھ سرویلنس ایجنسی اس قسم کی تھراپی کی اجازت دے دے۔ کیونکہ فی الحال اس قسم کے علاج کی ادویات یا طبی علاج کے طور پر درجہ بندی نہیں کی گئی ہے۔ لیکن یہ ایک ایسا علاج ہے جس میں بہت سی رکاوٹوں کا سامنا ہے اور اس سے وابستہ خطرات بھی ہیں۔
بعض کیسز میں یہ علاج درد بڑھنے، جلد کی جلن یا خون بہنے کا باعث بنتا ہے، اور ان صورتوں میں لاروا کو نکالنا ضروری ہوتا ہے۔ لاروا کو ایسے مریضوں میں استعمال نہیں کیا جاتا جن میں خون بہنے کا زیادہ خطرہ ہو۔ ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ اس قسم کا علاج کبھی بھی طبی ماہرین کے بغیر نہیں ہونا چاہیے اور لاروا کو لیبارٹری میں جراثیم سے پاک کیا جانا چاہیے۔