مادر ملت کی جمہوری جدوجہد

اتوار 9 جولائی 2023
author image

صنوبر ناظر

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

جنوری 1965 کی ٹھٹھرتی ہوئی سردی میں جہاں ہر طرف ملک میں صدارتی الیکشن کی مہم زوروں پر تھی۔ وہیں پاکستان کے خود ساختہ صدر ’ایوب خان‘ اور اس کے حواریوں کی ریشہ دوانیاں بھی عروج پر تھیں۔ آمر اور اس کے ٹولے کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ ایک ’دھان پان‘ سی عمر رسیدہ خاتون ان کے مدمقابل آ کھڑی ہوئی۔

 ایوب خان اب پچھتا رہے تھےکہ آئین میں ’کوئی عورت ملک کی صدر نہیں بن سکتی‘ جیسی اہم شق کو کیوں شامل نہیں کیا۔

محمد علی جناح کی ہمشیرہ فاطمہ جناح کو مادر ملت کہا جاتا ہے لیکن کیا ہماری آج کی نئی نسل کو معلوم ہے کہ ہمارے ملک پر جابرانہ حکومت کرنے والے آمر ایوب خان نے مادر ملت کو سیاسی میدان سے دور رکھنے اور جمہوریت کی بحالی کے لیے جدوجہد کرنے  پر کیسے کیسے الزامات عائد کیے؟

جب ہماری درس گاہوں میں ہمیں اپنی ہی تاریخ  توڑ موڑ کر پڑھائی جائے گی تو ہمارے نوجوانوں کو سچائی کا علم کس طرح ہوگا؟

اس لیے آئیے آج ذرا اس پر بات کرتے ہیں!

پاکستان کے وجود میں آنے کے 11 سال بعد ہی فوجی آمریت نے اس نوزائیدہ ملک کو اپنے شکنجے میں جکڑ لیا تھا جس کا خمیازہ ہم آج بھی بھگت رہے ہیں۔اگر 1965 کے انتخاب میں دھاندلی نا کی جاتی تو  فاطمہ جناح ملک کی سربراہ ہوتیں اور شاید ملک کی سیاست کا دھارا بہتر سمت کی جانب بہہ رہا ہوتا۔ وللہ عالم !

فاطمہ جناح کے لیے آمریت اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی صورت حال بہت تکلیف دہ تھی اور وہ کھلے عام آمر وقت کو ’ڈرل ماسٹر ‘ کہنے کی جرات کرتی تھیں۔

1962 میں ایوب خان نے اپنی پسند کا صدارتی آئین پیش کیا جس کی رو سے ہر 5 سال بعد صدارتی الیکشن کروانا لازمی امر تھا۔

ایک جانب آمر صدر ایوب خان اور دوسری جانب اپوزیشن کی پانچ جماعتوں نیشنل عوامی پارٹی، جماعت اسلامی، نظام اسلام پارٹی، مسلم لیگ کونسل اور عوامی لیگ نے ’سی او پی ‘ کے نام سے ایک اتحاد قائم کیا اور مادر ملت کو اپنا مشترکہ صدارتی امیدوار نامزد کیا۔

مادر ملت جیسی قد آور شخصیت کا الیکشن میں کھڑا ہونا بذات خود ایک آمر کو للکار کی مانند تھا۔

آمریت سے تنگ اور جمہوریت کی ترسی  عوام نے فاطمہ جناح کی انتخابی مہم میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ ان کے ہر جلسے میں لوگ جوق در جوق کھینچے چلے آنے لگے جس سے فوجی حکمرانوں کی راتوں کی نیندیں اڑ گئیں۔

جلسوں میں عوام کی آمد اگر مادر ملت سے عقیدت اور ان کی جمہوریت سے وابستگی کی بنا پر تھی تو دوسری بڑی وجہ آمروں سے نفرت کا پہلو بھی تھا۔

ایوب خان کو واضح نظر آرہا تھا کہ عوام کی رائے فاطمہ جناح کے حق میں ہے اور وہی اگلی سربراہ مملکت بننے کی اہل ہوں گی۔

یہی سبب تھا کہ عوام کو براہ راست ووٹ دینے کا حق چھینا گیا اور ’بنیادی جمہوریت‘کے گمراہ کن نام پر 80 ہزار کونسلر منتخب کروائے گئے جن کے ذریعے صدر کا انتخاب ہونا تھا۔ اس تباہ کن نظام انتخاب کے ذریعے باآسانی دھاندلی کرنا ممکن بنایا جا سکتا تھا اور ایوب خان کو عوام کی رائے کے برعکس صدر منتخب کرالیا جانا عین مقصد تھا۔

مادر ملت نے 1965 کے صدارتی انتخاب کے موقع پر عوام کو واضح پیغام دیا کہ’انتخابی ادارے آج ایک انتہائی اہم فیصلہ کرنے جارہے ہیں جس پر پاکستان کے مستقبل اور اس کی قسمت کا دارومدار ہے‘۔

آج آپ نے یہ فیصلہ کرنا ہے کہ آیا ملک میں جمہوریت اور عوام کی حکمرانی ہونی چاہیے یا آمریت یا شخصی اقتدار؟

انہوں نے مزید فرمایا ’ہمیں یہ قطعی فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ اقتدار اعلیٰ کے مالک عوام اور صرف عوام ہیں وہی اس ملک کے اصلی مالک ہیں ۔ پاکستان اور جمہوری اقدار سے بڑھ کر کسی کی کوئی اہمیت نہیں۔

وہ مزید زور دیتے ہوئے کہتی ہیں ’انتخابی ادارے کے اراکین کا ووٹ ان کے پاس مقدس امانت ہے اور مجھے یقین ہے کہ وہ اس کا استمعال ذمہ داری اور ایمانداری سے کریں گے ‘۔

لیکن اس وقت بھی ستم ظریفی ملاحظہ کیجیے کہ وہی طریقے اپنائے گئے  جو آج تک چلے آرہے ہیں بس کرداروں کی ہیرا پھیری کی جاتی رہی ہے۔

جس طرح آج ہو رہا ہے بلکل اسی طرح دھونس، دھاندلی اور لالچ کے ذریعے کچھ اراکین کو خریدا گیا، کچھ کو ڈرایا دھمکایا گیا اور کچھ کو عوام کی رائے کے مطابق ووٹ دینے سے جبراً روک دیا گیا۔

ان سارے ہتھکنڈوں کے باوجود مادر ملت کو 30 ہزار اراکین کے ووٹ ملے لیکن جمہوریت ہار گئی اور آمریت جیت گئی۔

جس طرح آج سیاستدانوں کو غدار، وطن فروش کے الزامات سے نوازا جاتا ہے بلکل اسی طرح ایوب خان نے فاطمہ جناح کے لیے الیکشن مہم میں نازیبا الفاظ بلا تامل استمعال کیے۔ انھیں بھی غدار کا لقب دیا گیا۔

کراچی میں فاطمہ جناح کو واضح اکثریت میں ووٹ ملے جہاں کی بستی کو اس کی سزا الیکشن کے فوراً بعد مسلح افراد کے گروہوں کے ذریعے پوری پوری بستیوں کو نذرآتش کر کے دی گئی۔ کئی لوگ قتل اور زخمی بھی ہوئے۔

آج کے نوجوانوں کو شاید علم نہ ہو کہ یہ معرکہ ایوب خان کے بیٹے کیپٹن گوہر ایوب کی سربراہی میں ہوا۔ کتنی حیرت انگیز بات ہے نا کہ! ہمارے آمروں نے بانی پاکستان کی ہمشیرہ، مادر ملت کو جمہوری اقدار کی پاسداری کرنے کی کس طرح سزا دی!

اس دور کے اخبارات اور الیکٹرانک میڈیا کا کردار بھی خاصا شرمناک رہا۔ ہر طرف ایوب خان کی شہرت کا جھوٹا ڈنکا بجایا گیا اور فاطمہ جناح کی تمام تقاریر کو توڑ موڑ کر پیش کیا جاتا رہا۔

مادر ملت انتخاب ہارنے کے باوجود ہمت و عزم کی واضح مثال ثابت ہوئیں۔ دل گرفتہ یا شکستہ ہونے کے بجائے وہ اپنی آخری سانس تک جمہوریت کی بحالی کے لیے جدوجہد کرتی رہیں۔ آخر کار جولائی 1967 میں جمہوریت کی یہ شمع ہمیشہ کے لیے بجھ گئی۔

آج پاکستان کو قائم ہوئے 76سال ہو چکے ہیں لیکن محسوس یہی ہوتا ہے کہ ہم آج بھی اسی دور میں جی رہیں ہیں جیسا فاطمہ جناح چھوڑ کر گئی تھیں۔

لیکن یاد رکھنے کی بات یہی ہے کہ بے شک اس وقت جمہوری اقدار کا پاس رکھنے والے ہار گئے ہوں اور آمر فاتح قرار پائے ہو ں، لیکن تاریخ میں ان آمروں کے لیے ایک سطر بھی ستائش کی نہیں ۔۔۔۔۔لیکن چاہے فاطمہ جناح ہو ں یا بے نظیر یا شہید بھٹو ان کے نام ہمیشہ سنہری حروف سے لکھے جائیں گے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

صنوبر ناظر ایک متحرک سیاسی و سماجی کارکن ہیں۔ تاریخ میں ماسٹرز کر رکھا ہے جبکہ خواتین کی فلاح اور مختلف تعلیمی پراجیکٹس پر کام کر چکی ہیں۔ کئی برس سے قومی و بین الاقوامی میڈیا اداروں کے لیے باقاعدگی سے لکھتی ہیں۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp