20 یتیم اورلاوارث بچوں کی کفالت کرنے والی باہمت خاتون رضیہ سہتو جسے آبائی علاقے کے لوگوں نے ٹنڈو محمد خان کی مدر ٹریسا کا خطاب دیا ہے ایک کرائے کے مکان میں رہائش پذیر ہیں اور عورتوں کے کپڑے سلائی کرکے اپنا اور ان لاوارث بچوں کا پیٹ پالتی ہیں۔
رضیہ نے اپنی والدہ کے مشن کو آگے بڑھاتے ہوئے یتیم اور بے سہارا بچوں کی کفالت کا بیڑا اٹھایا اور اس وقت ان کے پاس 20 بچے موجود ہیں جن کی وہ کفالت کر رہی ہیں، لاوارث بچوں کی کفالت کے اس مشن کا آغاز انکی والدہ زلیخا سہتو نے اس وقت کیا جب انہیں سڑک کے کنارے ایک نوزائیدہ بچی ملی، جسےگود میں اٹھا کر وہ گھر لے آئیں اور اسکی پرورش کرنا شروع کی۔
یہ اس وقت کی بات ہے جب ٹنڈو محمد خان میں کچرے کے ڈھیر پر بچوں کو چھوڑنے کا واقعات عروج پر تھے، اس وقت رضیہ سہتو کی والدہ نے اپنے گھر کے باہر ایک جھولا لگا لیا تاکہ لوگ اپنے بچوں کو کوڑے دان میں چھوڑنے کے بجائے اس جھولے میں چھوڑ جائیں۔
جس کے بعد کئی بچوں کو زلیخا سہتو کے گھر پر پناہ ملی اور انکی بظاہر ڈوبتی زندگی کو سہارا مل گیا۔ 2021 میں اپنی ماں زلیخا کے انتقال کے بعد رضیہ نے ان تمام یتموں کا سہارا بننے کا ذمہ اپنے سر لے لیا۔
عرب نیوز سے کو انٹرویو دیتے ہوئے رضیہ سہتو نے بتایا کہ ان کی والدہ نے یہ 20 سے 25 سال قبل زندگی بچانے کے اس مقدس فریضہ کو نبھانے کا فیصلہ کیا تھا اور ان کے انتقال کے بعد وہ یہ ذمہ داری اٹھائے بغیر نہ رہ سکیں۔ ’اس وقت میرے پاس 20 بچے ہیں جن کے لیے ماں اور باپ دونوں میں خود ہوں۔‘
رضیہ سہتو کے مطابق یہ کام بہت مشکل ہے۔ ’لوگ ہمیں بہت تنقید کا نشانہ بناتے ہیں، میرے بہت سے رشتہ دار ان بچوں کو بہت نفرت سے دیکھتے ہیں، اور اپنے گھروں ’کے دروازے بند کر لیتے ہیں۔
بچوں کے بہتر مستقبل کی خاطر رضیہ یہ کام جاری رکھے ہوئے ہیں، 20 میں سے 12 بچے لاوارث ہیں جن کے باپ انکو چھوڑ گئے اور ماؤں نے دوسری شادیاں کر لی ہیں۔ باقی بچوں کو انکے والدین خود رضیہ کے پاس چھوڑ گئے جو غریب ہونے کی وجہ سے بچوں کی پرورش کرنے سے قاصر تھے۔
ٹنڈو محمد خان کے ایک سوشل ورکر جاوید ہالیپوٹو نےبتایا کہ پورے ٹنڈو محمد خان میں ایک بھی سرکاری یا نجی ادارہ ایسا نہیں ہے جو رضیہ سہتو کے ٹرسٹ کے معیار کا کام کرتا ہو، وہ بھی آج اس دور میں جب مہنگائی اپنے عروج پر ہے۔ رضیہ نہ صرف بچوں کی کفالت کر رہی ہیں بلکہ انہیں تعلیم سے بھی آشنا کررہی ہیں۔
’رضیہ سہتو ہمارے علاقے کا فخر ہیں اسی لیے انہیں ٹنڈو محمد خان کی مدر ٹریسا کا خطاب بھی دیا گیا ہے۔‘
مزید پڑھیں
35 سالہ رضیہ بچوں کا پیٹ پالنے کے لیے درزن کا کام کرتی ہیں، لوگوں کے کپڑے سلائی کرکے جو پیسے ملتے ہیں ان سے اپنی اور بچوں کی ضروریات پوری کرتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ رضیہ کا ایک رکشہ ڈرائیور بھائی بھی اپنی بہن کی مدد کرتا رہتا ہے۔ راشن اور کپڑوں کے عطیہ سے بھی بچوں کو گزر بسر کرنے میں مدد ملتی ہے۔
رضیہ سہتو کا کہنا ہے کہ حکومت یا نجی ادارے اسکی مدد کریں تو وہ ان بچوں کو مزید اچھی زندگی فراہم کر سکتی ہے۔
رضیہ سہتو نے ان بچوں کے لیے اس نے اپنی زندگی کی تمام خواہشات کو تقریباً ترک کردیا ہے یہاں تک کہ شادی بھی نہیں کی۔
’ ایک جگہ رشتہ ہوا تھا لیکن انہوں نے بچوں کو ساتھ رکھنے سے انکار کردیا تھا جس کی وجہ سے میں نے بھی شادی سے انکار کردیا اور یونہی تنہا زندگی گزارنے کو ‘فوقیت دی۔
معصوم چھوٹی بچی کو گلے لگاتے ہوئے رضیہ سہتو نے بتایا کہ انہوں نے ان بچوں کی کفالت کی ذمہ داری اٹھائی ہے اور ایک ماں کی طرح ان کے ساتھ رہ رہی ہیں۔ ’اس میں بچوں کا قصور نہیں ہے وہ بھی اس معاشرے میں سانس لینے کے حقدار ہیں۔‘