چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی خصوصی بنچ نے نیب ترامیم کےخلاف عمران خان کی درخواست پر سماعت کی۔
نیب کی جانب سے جمع کرائی گئی رپورٹ میں بتایا گیا کہ تحریک انصاف کے دور میں 2019 سے 2022 تک 50 ریفرنس واپس ہوئے ۔
راجا پرویز اشرف کیخلاف 9 ، یوسف رضا گیلانی کیخلاف 2، سابق وزیر خزانہ شوکت ترین کیخلاف 2 نیب ریفرنس واپس ہوئے۔
آصف علی زرداری، سابق رکن گلگت بلتستان جاوید حسین، لیاقت علی جتوئی، سابق گورنرخیبرپختونخوا مہتاب احمد خان، سابق وزیر صحت گلگت بلتستان گلبہار خان اور فرزانہ راجا کیخلاف بھی نیب ریفرنس پی ٹی آئی دور حکومت میں واپس ہوئے ۔
جسٹس منصورعلی شاہ نے استفسار کیا کہ اگر سزائے موت کے قانون کو ختم کر کے عمر قید کر دیا جائے تو کیا تمام مجرمان کی سزا بدل جائے گی؟
وفاقی حکومت کے وکیل مخدوم علی خان نے بتایا سپریم کورٹ کے حکم سے حدود آرڈیننس کے تحت ہونے والی سزاؤں کی نوعیت تبدیل ہوئی تھی، حدود آرڈیننس کے تحت غیر انسانی سزائوں کا سلسلہ رکا۔
جسٹس اعجازالاحسن نے کہا جب بھی کوئی نیا قانون پہلے سے موجود آئینی شقوں سے متصادم ہو تو کالعدم ہو سکتا ہے۔جسٹس منصورعلی شاہ کا کہنا تھا کیا سپریم کورٹ کسی قانون سازی کے پیچھے ممبران پارلیمنٹ کی نیت کا تعین کر سکتی ہے۔
کیا یہ کہا جا سکتا ہے کہ نیب ترامیم سے استفادہ ایک مخصوص طبقے نے حاصل کیا؟ حکومتی وکیل بولے نیب ترامیم سب کیلئے ہیں، ان سے کسی مخصوص طبقے کو فائدہ نہیں پہنچا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ مقننہ نے عدلیہ کو کسی بھی قانون کو کالعدم قرار دینے کے وسیع اختیارات دے رکھے ہیں۔ عدالت نے سماعت 9 فروری تک ملتوی کر دی ۔