پارلیمنٹ کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی (پی اے سی) کا اجلاس پیر کو پارلیمنٹ ہاؤس میں پی اے سی کے چیئرمین نور عالم خان کی زیر صدارت ہوا۔ اجلاس میں کمیٹی کے ارکان سمیت متعلقہ سرکاری اداروں کے افسران نے شرکت کی۔
وزارت مذہبی امور کی آڈٹ رپورٹ 20۔2019 کا جائزہ لیتے ہوئے نور عالم خان نے حج کے دوران پاکستانی حاجیوں کو پیش آنے والی مشکلات کو نوٹس لیتے ہوئے کہا کہ نجی شعبہ 25 لاکھ روپے جبکہ سرکاری شعبہ 11 لاکھ 80 ہزار میں حج کراتا ہے۔
مزید پڑھیں
انہوں نے کہا کہ حج ختم ہونے کے باوجود ایڈیشنل سیکرٹری عطاالرحمان اور ڈی جی حج سمیت دیگر عملہ بھی سعودی عرب موجود ہے۔ حج کے دوران عوامی شکایات کی انکوائری کا معاملہ ایف آئی اے کو بھجوا چکے ہیں۔ انکوائری کے بعد ذمہ داروں کے لائسنس منسوخ کرا سکیں گے۔
شیخ روحیل اصغر نے کہا کہ حج اور عمرہ سے متعلق شکایات کی صورت میں لائسنس کینسل ہونے چاہییں۔ سیکرٹری مذہبی امور نے کہا کہ مدینہ اور مکہ میں حج انتظامات ہماری ذمہ داری ہوتی ہے۔ زیادہ تر شکایات ایسے مقامات سے موصول ہوئی ہیں جہاں انتظامات سعودی حکومت کے پاس ہیں۔ فی کس حج اخراجات کم کرکے ساڑھے 10 لاکھ کر دیے گئے تھے۔ گزشتہ سال مفت سرکاری حج پر گئے افراد کی فہرست پی اے سی میں پیش کر دی گئی جس کے مطابق 1790 افراد گزشتہ سال مفت سرکاری حج پر گئے۔
’سعودی حکام کی طرف سے یہ احکامات ہیں کہ ہر 100 حاجیوں پر ایک معاون بھیجا جائے‘۔
کیا کبھی کوئی سیاستدان مفت حج پر گیا؟ نور عالم خان کا استفسار
نورعالم خان نے استفسار کیا کہ کیا کبھی کوئی سیاستدان مفت حج پر گیا جس پر سیکرٹری مذہبی امور نے لا علمی کا اظہار کیا۔
چیئر پی اے سی نے کہا کہ اس سال 8 ایم این ایز اپنے خرچے پر حج پر گئے ہیں۔ انہوں نے پوچھا کہ وزارت مذہبی امور سرکاری حکام کو حج معاونین کس طرح بھیجتی ہے۔
سیکرٹری مذہبی امور نے کہا کہ سرکاری ملازمین کو ان کے محکمے کی طرف سے ٹی اے ڈی بھی دیا جاتا ہے۔ چیئرمین پی اے سی نے کہا کہ معاونین کے نام پر مفت حج کرنے والوں کی فہرست کو پبلک کیا جائے گا۔ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے وزارت مذہبی امور کو آڈٹ پیراز پر اجلاس منعقد کرنے کی ہدایت کی۔
اجلاس کے بعد پی اے سی کے چیئرمین نور عالم خان نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ حج اخراجات سے متعلق فرانزک آڈٹ کرایا جائے گا۔ حاجیوں کے لیے انتظامات ناقص تھے۔
نور عالم خان نے کہا کہ رہائش، ٹرانسپورٹ اور کھانے پینے سے متعلق بہت شکایات ہیں، متعددلوگ بیمار ہوئے اور ان کے لیے ادویات نہیں تھیں۔