چھاتی پر مونگ دلنے والے مولانا

منگل 11 جولائی 2023
author image

وسعت اللہ خان

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

آپ میں سے  کتنوں کو یاد ہے کہ آج سے 16 برس پہلے 11 جولائی 2007 کو اسلام آباد میں لال مسجد اور ملحقہ جامعہ حفصہ کو مسلح شدت پسندوں سے خالی کرانے کا  آپریشن مکمل ہوا تھا؟

 اس آپریشن کے دوران پاک فوج کے 11 کمانڈوز سمیت لگ بھگ 150 انسانوں کی جانیں گئیں۔ آپریشن کے  36 گھنٹوں میں کمانڈوز کو ایک ایک انچ آگے بڑھنے کے لیے کمرہ در کمرہ مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔

آپریشن سے پہلے تک ایک ہزار سے زائد طلبا و طالبات کا انخلا ہوا۔ اس انخلا کے دوران مسجد کے سابق خطیب مولانا عبدالعزیز برقعہ پہن کے فرار ہوتے ہوئے گرفتار ہوئے۔ جبکہ ان کے چھوٹے بھائی اور خطیب عبدالرشید غازی آپریشن کے دوران مزاحمت کرتے ہوئے جان کی بازی ہار گئے تھے۔

دھوئیں سے سیاہ کمروں اور لاشوں کے درمیان سے ملٹری گریڈ کا جو بھاری اسلحہ برآمد ہوا وہ ایک پوری کمپنی کو لیس کرنے کے لیے کافی تھا۔ اس معمے نے مزید سوالوں کو جنم دیا اور یہ سوال آج تک اضافی سوالات پیدا کر رہے ہیں۔

فائدہ کسے اور کتنا ہوا ؟ پہلا فائدہ القاعدہ کو ہوا کہ جسے ان ’مظالم‘  کے خلاف نوجوانوں کو ابھارنے کے لیے ایک اور سنہری کاز مل گیا۔ پاک افغان سرحدی علاقوں میں علیحدہ علیحدہ کارروائیوں میں مصروف 2 درجن سے زائد انتہا پسند گروہوں نے ریاستی رٹ کو مؤثر انداز میں چیلنج کرنے کے لیے تحریک طالبان پاکستان ( ٹی ٹی پی ) کا پلیٹ فارم بنا لیا۔ ٹی ٹی پی  کی اعلانیہ و پوشیدہ حامی سیاسی و فرقہ وارانہ تنظیموں نے مساجد اور جلسوں کے ذریعے انتہاپسندی کو ایک مربوط بیانیے کی شکل دی۔ جبکہ شش و پنج  کے مرض میں مبتلا ریاست اور ریاست در ریاست قبیل کے اداروں کی باہمی مسابقت و رقابت انتہاپسندی کے مقابلے میں کوئی ٹھوس متبادل عقلی بیانیہ آج تک تشکیل نہیں دے پائی۔

جب ریاست اپنے مقاصد کو ہر قیمت پر حاصل کرنے کے لیے ہر قبیل کے عناصر کو گود لینے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتی تو پھر وہی ہوتا ہے جو گزشتہ کم ازکم 4 عشروں سے ہماری تیسری نسل دیکھ اور بھگت رہی ہے۔ اس عمل کی ایک روشن مثال  لال مسجد ہے جو ریاست کے قلب میں ایک اور ریاست بننے سے کبھی نہیں ہچکچائی۔

سنہ 1965 میں نئے دارلحکومت کے ابتدائی کوارٹرز کے درمیان قائم ہونے والی اسلام آباد کی پہلی جامع مسجد کے خطیب مولانا عبداللہ بظاہر سرکاری ملازم تھے مگر ان کی پہنچ ریاست کے اعلیٰ ترین مقامات تک تھی۔ بالخصوص افغان خانہ جنگی کے 10 سالہ دور میں مولانا عبداللہ ضیا الحق کی آنکھوں کا تارہ تھے کیونکہ تب ریاست کو جہادی بیانیہ آگے بڑھانے کی اشد ضرورت تھی اور مولانا عبداللہ جیسے علما اس مہم کے لیے جواں سال فصل کی آبیاری میں کلیدی نظریاتی ساتھی تھے۔

سنہ 1998 میں مولانا عبداللہ کے پراسرار قتل کے بعد ان کے 2 صاحبزادوں مولانا عبدالعزیز اور عبدالرشید غازی نے یہ نظریاتی جھنڈا اٹھائے رکھا۔ جب نائن الیون کے بعد ریاست نے پالیسی یو ٹرن لیا تو لال مسجد کے عبداللہ خاندان سمیت بہت سے نظریہ سازوں نے یوٹرن لینے سے انکار کر دیا اور بدستور نظریاتی ترویج جاری رکھی۔

ریاست اس مقام پر کوئی ٹھوس قدم اٹھانے کی بجائے حسبِ عادت ” اسٹرٹیجک مروت ” سے کام لیتے ہوئے اپنے سابق نظریاتی ساتھیوں سے درگزر فرماتی رہی۔ وجہ شائد یہ تھی کہ جانے  کب جلد یا بدیر ان دوستوں کی پھر سے ضرورت پڑ جائے۔ جب بین الاقوامی برادری کا دباؤ بڑھا تو بظاہر پرویز مشرف حکومت نے سرکردہ جہادی تنظیموں اور ان کی سرگرمیوں پر پابندی لگا دی لیکن لال مسجد ان پابندیوں سے مستثنیٰ رہی۔

جب 11 جولائی 2007 کو آپریشن مکمل ہونے کے بعد مسجد اور ملحقہ مدرسے سے اسلحہ اور کچھ غیر پاکستانیوں کی لاشیں ملیں تب کہیں جا کے میڈیا نے سوال اٹھایا کہ یہ غیرملکی انتہاپسند اور ملٹری گریڈ کا اسلحہ ایک ایسی مسجد تک کیسے پہنچے جس کا ملک کے آنکھ ناک کان کہلانے والے ادارے کے دفتر سے فاصلہ محض 2 ڈھائی کلومیٹر ہے۔

اس بابت نہ کوئی آزاد تحقیقاتی کمیشن بنا اور نہ ہی کسی نے اس کا مطالبہ کیا حالانکہ یہ آپریشن اپنی نوعیت اور وجوہات کے اعتبار سے گولڈن ٹمپل آپریشن سے خاصا مماثل تھا۔

مولانا عبدالعزیز بظاہر سنہ 2004 میں خطیب کے منصب سے سبکدوش ہو گئے تھے۔ سال 2007 کے آپریشن کے بعد وہ لگ بھگ 2 برس سرکاری اداروں کی تحویل میں رہے۔ سنہ 2009 میں سپریم کورٹ کے حکم پر انہیں خطیب کے منصب پر بحال کردیا گیا اور جامعہ حفصہ کے لیے متبادل زمین کی فراہمی کا بھی حکم دیا گیا۔ مگر دسمبر 2014 میں آرمی پبلک اسکول پشاور کے قتلِ عام کے بعد جب مولانا نے ایک خطبے میں اے پی ایس کے حملہ آوروں کے اقدام  کا دفاع کیا تو انہیں پھر خطیب کے منصب سے ہٹا دیا گیا۔

تب سے آج تک ان پر کئی بار پابندی لگی کئی بار ہٹی۔ سنہ 2017 میں انہیں تمام سابق مقدمات سے بری قرار دے دیا گیا۔ اس دوران جامعہ حفصہ کی طالبات کی داعش کی اسلامی ریاست سے حلف کی وڈیو بھی سامنے آئی ۔جامعہ حفصہ پر داعش کا جھنڈا بھی لہرایا گیا۔ فروری 2020 میں طالبات نے مولانا کی قیادت میں جامعہ حفصہ کی تباہ شدہ عمارت کی سیل توڑ کے دھرنا دیا۔ انتظامیہ نے گلو خلاصی کے لیے جامعہ کے لیے 80 کنال زمین الاٹ کرنے کا وعدہ کر لیا۔ اہلسنت والجماعت (سابق سپاہِ صحابہ) کی مقامی قیادت کو ثالثی کے لیے بیچ میں آنا پڑا۔ مولانا نے نئی جامعہ کی تعمیر کے لیے ڈھائی کروڑ روپے بھی طلب کیے۔ نئی اراضی پر تعمیرات ہوئیں یا نہیں، مولانا کو پیسے ملے نہیں ملے یہ تو نہیں معلوم البتہ لال مسجد سے متصل جامعہ حفصہ کی اردگرد کی عمارتوں میں آج بھی تدریس ہوتی ہے اور ان طالبات سے بوقت ضرورت اسٹرٹیجک فورس کا بھی کام لیا جاتا ہے۔

اگست 2021 میں کابل پر طالبان کے قبضے کے بعد سے جامعہ حفصہ کی عمارت پر 3 بار افغان طالبان کا جھنڈا لہرایا گیا۔ چھت پر کھڑے مسلح افراد نے اسلحہ بھی اچھال کر دکھایا۔ بس کچھ اور مقدمات درج ہو گئے۔

گزشتہ مہینے جب پولیس نے مولانا عبدالعزیز کو  مقدمات کے سلسلے میں سڑک پر گرفتار کرنے کی کوشش کی تو مسلح مولانا اور ان کے مسلح باڈی گارڈز کا پولیس سے مقابلہ ہوا۔ مولانا وہاں سے نکلنے میں کامیاب ہوگئے۔ ان کی اہلیہ ام ِ احسان نے ایک ویڈیو پیغام میں کالعدم ٹی ٹی پی  سے مدد کرنے کی اپیل کی اور ٹی ٹی پی  نے ان کی حمایت میں بیان بھی جاری کیا۔

بس یہ ہوا کہ مولانا پر ریاستی اداروں کی مزاحمت اور بغاوت کا ایک اور مقدمہ درج ہو گیا۔ اس کا کرارا جواب مولانا نے لال مسجد میں اعلانیہ عید الاضحیٰ کی نماز پڑھا  کے دیا۔ اس بار انتظامیہ نے مقدمات میں مطلوب مولانا کو گرفتار کرنے کی ہرگز کوشش نہیں کی۔ اسے کہتے ہیں مونگ لانے والے کی چھاتی پر ہی مونگ دلنا۔

مولانا عبداللہ کے خاندان کا لال مسجد پر 58 برس سے قبضہ ہے۔ اس دوران نہ جانے کتنی حکومتیں آئیں اور گئیں۔ اس مضمون کے شروع میں  غلطی سے میں نے بتایا کہ  لال مسجد آپریشن 11 جولائی 2007 کو ختم ہوا تھا۔ تصیحح فرما لیجیے کہ یہ آپریشن آج تک جاری ہے۔ مولانا عبدالعزیز بدستور اپنی جگہ کھڑے ہیں۔

ریاست کبھی کھڑی ہو جاتی ہے، کبھی بیٹھ جاتی ہے اور کبھی لیٹ جاتی ہے۔ اس آپریشن میں سرجن کون ہے اور مریض کون؟  کیا یہ بھی میں ہی بتاؤں؟

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

وسعت اللہ خان معروف پاکستانی صحافی، کالم نگار اور تجزیہ کار ہیں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp