‘پچ اکھاڑنے والے، سانپ چھوڑنے والے’

بدھ 12 جولائی 2023
author image

سمیع محمد

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

12 برس بعد کوئی پاکستانی ٹیم بھارتی سر زمین پہ ایک ٹیسٹ میچ کھیل رہی تھی۔ فیروز شاہ کوٹلہ سٹیڈیم میں تماشائیوں کا جوش و خروش دیدنی تھا مگر یہاں کرکٹ سے بھی زیادہ خاص بات یہ تھی کہ اس گراؤڈ میں 2 درجن کے لگ بھگ سپیرے بھی موجود تھے جنہیں سرکاری طور پہ مدعو کیا گیا تھا کہ وہ شائقین کی سکیورٹی کو یقینی بنا سکیں۔

کچھ ہفتے پہلے ہی دہلی کے فیروز شاہ کوٹلہ سٹیڈیم کی پچ اکھاڑی گئی تھی اور ان کارروائیوں کا مقصد شیو سینا کے رہنما بال ٹھاکرے کے احکامات کو بجا لانا تھا جو 1999 میں پاکستانی ٹیم کے دورۂ بھارت کو ہر صورت ناممکن بنانے پہ تلے ہوئے تھے۔

مگر جب بھارتی کرکٹ بورڈ مُصر رہا کہ وہ بہر صورت میچ کا انعقاد یقینی بنائے گا تو شائقین کو سٹیڈیمز سے دور رکھنے اور مقابلے کی سنسنی بگاڑنے کو شیو سینا نے یہ دھمکی جاری کی کہ وہ سٹیڈیم میں خوفناک اژدھے چھوڑ دیں گے۔ ایسے کسی ناخوشگوار واقعے سے بچنے کے لیے دہلی پولیس نے سپیروں کی خدمات حاصل کیں۔

اس سے پہلے بھی شیو سینا دامے، درمے، سخنے اس سیریز کو ناممکن بنانے کی ہر ممکن تگ و دو کر چکی تھی۔ جب بات فیروز شاہ کوٹلہ سٹیڈیم کی پچ اکھاڑنے سے بھی نہیں بنی تو شیو سینا کے ‘کارکنوں’ نے بھارتی کرکٹ بورڈ کے دفتر پہ ہی حملہ کر دیا اور اس حملے میں کپل دیو کی جیتی ہوئی ورلڈ کپ ٹرافی کو بھی نقصان پہنچایا گیا۔

“کرکٹ پُرستاروں کے سر شرم سے جھک گئے ہیں۔ جس کسی نے بھی یہ کیا ہے، اسے اپنے ملک کی کرکٹنگ کامیابیوں کی کوئی قدر نہیں ہے۔ اگر ٹنڈولکر جیسے قومی اثاثے کو بھی اپنے ہی ملک میں سکیورٹی کی ضرورت پڑ جائے تو یہ اس ملک میں ایک بڑی خرابی کی علامت ہے”۔ یہ ردِعمل تھا سابق بھارتی کپتان کپل دیو کا، جب انہیں اپنی جیتی ورلڈ کپ ٹرافی پہ حملے کی اطلاع ملی۔

مگر یہ بال ٹھاکرے یا شیو سینا کی جانب سے پہلی ایسی پیش رفت نہیں تھی۔ اس سے پہلے بھی دو بار پاکستان کے طے شدہ دورے منسوخ کیے جا چکے تھے کہ پاک بھارت کرکٹ کی خبر سنتے ہی بال ٹھاکرے کے جذبات مشتعل ہو جاتے اور وہ لفظی مہا بھارت شروع کر دیا کرتے۔

بال ٹھاکرے اپنی پہچان ممبئی اور کرکٹ سے محبت بتلایا کرتے تھے، مگر کرکٹ سے محبت کے معاملے میں ان کا عجیب دہرا معیار رہا کہ جہاں کہیں پاکستان کے ممبئی میں کھیلنے کی بات آئی، وہاں وہاں بال ٹھاکرے رستے میں دیوار بن کر کھڑے ہوئے اور اپنی ہی زندگی میں یہ یقینی بنا کر گئے کہ آج بھی اگر ورلڈ کپ فائنل میں پاکستان کی شرکت طے ہو اور فائنل ممبئی میں ہونا ٹھہرا ہو تو میچ ممبئی سے منتقل کئے ہی بنے گی۔

ایک جانب انہوں نے پاکستانی لیجنڈ جاوید میانداد کی اپنے گھر پہ میزبانی کی، خوب رکھ رکھاؤ سے پیش آئے مگر ساتھ ہی ممبئی میں پاکستان کے میچ کھیلنے کی درخواست پہ معذرت بھی کر لی اور جواز وہ اپنے ‘مشتعل’ کارکنان کے جذبات کا لائے کہ پاک بھارت کرکٹ کے معاملے پہ اگر یہ لوگ بھڑک اٹھیں تو پھر وہ بھی بے بس ہو رہتے ہیں۔

مگر ان کے ناقدین ہمیشہ مُصر رہے کہ اس سارے فساد کی جڑ بال ٹھاکرے اور ان کے نسل پرستانہ خیالات تھے جو مہاراشٹرا پہ ایک مخصوص مکتبِ فکر کے غاصبانہ قبضے کی خاطر مشتہر کیے گئے اور پھر یہ تعصب اس قدر بڑھا کہ 2011 کے ورلڈ کپ میں بھی پاکستانی ٹیم کو دھمکی آمیز پیغامات کا سامنا رہا کہ اگر وہ فائنل میں پہنچ گئے تو ممبئی میں طے شدہ میچ ہونے ہی نہیں دیا جائے گا۔

رواں برس اکتوبر میں طے شدہ ورلڈ کپ کے لئے بھی یہ طے پایا گیا ہے کہ اگر پاکستان فائنل تک رسائی حاصل کر لیتا ہے تو فائنل کا وینیو ممبئی سے بدل کر احمد آباد یا کہیں اور منتقل کر دیا جائے گا۔ کیونکہ شیو سینا کے سینک پاک بھارت کرکٹ کے نام سے ہی اس قدر مشتعل ہوتے ہیں کہ 2015 میں جب دو طرفہ کرکٹ کی بحالی کے لیے پی سی بی چیئرمین شہریار خان کو اپنے بھارتی ہم منصب ششانک منوہر سے ملاقات کرنا تھی تو اس سے پہلے ہی شیو سینا کے وفاداروں نے بھارتی کرکٹ بورڈ پہ حملہ کر دیا۔ ممبئی کے کرکٹ ہیڈ کوارٹرز میں ششانک منوہر کا گھیراؤ کر لیا گیا اور انہیں مجبور کیا گیا کہ وہ پاک بھارت کرکٹ کا خیال دل سے نکال دیں۔

شیو سینا کی ان کارروائیوں کا باقاعدہ آغاز 1991 سے ہوا جب پاکستان کو اپنے دورۂ بھارت کا افتتاحی میچ وینکھیڈے سٹیڈیم ممبئی میں کھیلنا تھا مگر شیو سینکوں نے وینکھیڈے سٹیڈیم کو یوں نقصان پہنچایا کہ صرف ایک میچ نہیں، پوری سیریز ہی منسوخ کرنا پڑ گئی۔ دو ہی سال بعد ایک اور طے شدہ سیریز بھی بال ٹھاکرے کی دھمکیوں کے پیشِ نظر منسوخ کی گئی۔

جب جنرل پرویز مشرف نے پاک بھارت مذاکرات کی بحالی کے لئے کرکٹ کا سہارا لیا تو پاکستانی ٹیم کے دورۂ بھارت پہ آگرا کو بطور وینیو منتخب کیا گیا۔ آگرا کے تاریخی پس منظر کی مناسبت سے یہ ایک اہم میچ ہونے کو تھا مگر شیو سینا نے آگرا سپورٹس سٹیڈیم کی پچ کو بھی بری طرح نقصان پہنچایا۔

جب جب پاک بھارت دو طرفہ کرکٹ کا ذکر ہوتا ہے، شیو سینا کے بلوائی بیچ میں آن دھمکتے ہیں۔ 2005 میں پاکستان کے دورۂ بھارت پہ کئی ایک احتجاج رچائے گئے، دھمکیاں دی گئی، 2006 کی چیمپئینز ٹرافی میں پاکستان کے میچز کو سبوتاژ کرنے کی بھرپور کوشش کی گئی اور بعد ازاں نہ صرف آئی پی ایل سے پاکستانی کھلاڑیوں کو بے دخل کیا گیا بلکہ ان کے حق میں آواز بلند کرنے والے شاہ رخ خان کو بھی دھمکایا گیا۔

ایک پیغام میں بال ٹھاکرے نے شاہ رخ خان کو متنبہ کیا تھا کہ وہ پاکستانی کھلاڑیوں کی آئی پی ایل میں شمولیت پہ اپنے موقف سے پیچھے ہٹ جائیں ورنہ ان کی آنے والی فلم ‘مائی نیم از خان’ کہیں بھی ریلیز نہیں ہونے دی جائے گی۔

یہ ہے وہ تاریخی پس منظر جو ہمیں یہ سمجھنے میں مدد کر سکتا ہے کہ ورلڈ کپ کے حوالے سے پاکستان کے بھارت جانے پہ ہر بار اس قدر تحفظات کیوں اٹھتے ہیں اور وزیراعظم نے اس بار یہ فیصلہ کرنے کو ایک ایسی ہائی پروفائل کمیٹی کیوں تشکیل دی ہے جس میں نہ صرف تمام سیاسی جماعتوں بلکہ تمام حساس اداروں کی بھی ہائی پروفائل نمائندگی شامل ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp