مولانا، اسرائیل سے آئی مدد کو شکریے کے ساتھ قبول فرمائیں

جمعرات 13 جولائی 2023
author image

وسی بابا

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

مولانا فضل الرحمن نے شکوہ کیا ہے کہ انہیں دبئی ملاقاتوں پر اعتماد میں نہیں لیا گیا۔ یہ بیان آیا تو میاں محمد شہباز شریف نے مولانا فضل الرحمن سے ملاقات کر لی۔ اس ملاقات میں اپنا اپنا بزرگ خوش کرنے کو کچھ بھی کہا جا سکتا ہے۔ شہباز شریف کے مداح کہہ سکتے ہیں کہ انہوں نے مولانا کو راضی کر لیا۔

مولانا کے متوالے پکّا ایک دوسرے سے یہی کہہ رہے ہوں گے کہ مولانا بہ منے (دیکھا پھر ہمارا ہمارا مولانا اور اس کا زور )۔ اپنی طرف سے ویسے ہی شرارت کے طور پر عرض ہے اگر شہباز شریف نے مولانا سے جا کر یہ کہا ہو کہ جیسے آپ کو کچھ نہیں پتا ویسے ہی الحمدللہ مجھے بھی ککھ نہیں پتا کہ وہاں کیا باتیں ہو رہی ہیں، تو پھر ؟

مولانا نے پی ٹی آئی حکومت کی ڈٹ کر اپوزیشن کی، جلوس نکالے دھرنے دیے، ایک دن ایک منٹ کو کپتان کی حکومت کو ٹک کر نہیں بیٹھنے دیا، نہ خود بیٹھے۔ ہماری عوام تصادم پسند ہے۔ لوگ پسند کرتے ہیں ان کو جو کُھل کر کوئی سائیڈ لیتے ہیں۔ مولانا کو اس بھرپور اپوزیشن کا صلہ ملا۔ خیبر پختونخوا میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے میں انہوں نے میدان مار لیا۔ عدم اعتماد کے بعد ہونے والے دوسرے مرحلے کے انتخابات میں جے یو آئی کا جلوس نکل گیا۔ خیبر پختونخوا میں لوگوں کو  جے یو آئی کا عدم اعتماد میں کردار اور کپتان کا یوں نکالے جانا پسند نہیں آیا تھا۔

کپتان نے ’خود خوش‘ پروگرام کے تحت پنجاب اور خیبر پختونخوا کی اسمبلیاں ٹھکانے لگا دیں۔ مولانا کے سمدھی حاجی غلام علی گورنر بن گئے۔ انہوں نے اسمبلی توڑنے کی ایڈوائس پر دستخط کرنے میں ایک منٹ ضائع نہیں کیا۔ پتا نہیں حاجی صاحب نے ایک رات صبر کیسے کیا، ان سے بعید نہیں تھا کہ  وہ کہیں سی ایم ہاؤس ہی پہنچ جاتے کہ اور کہتے تمھارے ساتھ ہی سائن کرتا ہوں ابھی کے ابھی۔

پنجاب اسمبلی کے الیکشن کے لیے سپریم کورٹ میں تھیٹر لگا رہا۔ خیبر پختونخوا اسمبلی بھی ٹوٹی تھی اس کا کیس عدالتی راہداریوں میں پہنچا یا رُلتا رہ گیا۔ اس پر زیادہ روشنی ہمارے میڈیا نے ڈالی ہی نہیں۔

اس وقت خیبر پختونخوا میں حاجی غلام علی کے ذریعے جے یو آئی کی حکومت ہے ۔  اے این پی کو ان پر شدید اعتراض ہیں۔ پی پی اور مسلم لیگ نون بھی خوش نہیں ہیں۔ الیکشن سے پہلے یہ ایک روٹین کی کھینچا تانی ہے۔ اصل نقصان جے یو آئی کو یہ ہوا ہے کہ اس کے ووٹر سپوٹر کو بھی پتا ہے کہ صوبے میں اس کی حکومت ہے۔ ووٹر غریب ایک بار سیلاب میں بھی بہہ چکا ہے۔ جے یو آئی کی کارکردگی سے مطمئن  نہیں ہے۔

پٹواری حلقے یہ بتاتے ہیں کہ نوازشریف اب پنجاب کے ساتھ خیبر پختونخوا کے معاملات اب خود دیکھ رہے ہیں۔ جے یو آئی کی مقبولیت میں کمی اور حالات کا مسلم لیگ نون کو اچھی طرح  علم ہے۔ صرف مولانا پر انحصار کر کے خیبر پختونخوا میں اگلی حکومت نہیں بنائی جا سکتی۔ اس لیے مسلم لیگ نون نئے آپشن ڈھونڈ رہی ہے۔ الیکشن لڑنے کے لیے نئے اور اچھے امیدوار ڈھونڈ رہی ہے۔ سیٹ ٹو سیٹ بنیاد پر پی پی اور  اے این پی کے امیدواروں پر بھی نظر رکھے ہوئے ہے۔ اس میں بھی پوائنٹ یہ ہے کہ سیٹ ایڈجسٹمنٹ اور اتحاد ایسے کیا جائے کہ سیٹ خود یا کوئی اتحادی جماعت نکالے ۔

مسلم لیگ نون صرف ایک کام پر کھلے دل سے پیسہ لگاتی ہے۔ وہ ہیں الیکشن سروے اور الیکشن مہم، سیٹ ٹو سیٹ پلاننگ اور اسٹریٹجی۔  مریم نواز وہ ڈارک ہارس ہیں جو خیبر پختونخوا میں کپتان کے بعد سب سے زیادہ مقبول ہے۔ اس مقبولیت کی وجہ وہی ہے کہ ووٹر ان کو عزت سے دیکھتا ہے۔ اس عزت کرنے کی وجہ یہ ہے کہ وہ میدان میں موجود رہیں، ڈٹ کر کپتان کی اپوزیشن کی، جیل گئیں اور اپنے ورکر سے رابطہ بھی رکھا اور ان کو پُرجوش اور سرگرم بھی رکھا۔

ہم الیکشن میں دیکھیں گے کہ اتحادی جماعتیں بہانے بہانے سے مریم نواز کو خیبر پختونخوا میں سیاسی جلسوں میں شرکت کرنے کی دعوت دیں گی۔ اس کے بدلے میں مسلم لیگ نون کو کئی جگہ پر سیاسی تعاون فراہم کیا جائے گا۔

کسی کو اچھا لگے یا برا ، کپتان اور پی ٹی آئی آج بھی خیبر پختونخوا میں مقبول ترین ہیں۔ پی ٹی آئی کا ٹکٹ چلے گا۔ پی ٹی آئی  سنگل لارجسٹ پارٹی کے طور پر پر موجود رہے اس کا پورا امکان ہے۔

مولانا کو اس صورتحال میں ایک غیر متوقع سی مدد اسرائیل سے آ گئی ہے۔ وہ ایسے کہ یو این ہیومن رائٹس کونسل کا دفتر جنیوا میں ہے۔ ممبر ملکوں کو اپنی کنٹری رپورٹ ہر کچھ سال بعد کونسل کو جمع کرانی ہوتی ہے۔ پاکستان نے اپنی کنٹری رپورٹ جنوری میں جمع کرائی تھی۔ رپورٹ آنے کے بعد ممبر ملک اس کا جائزہ لیتے ہیں، اعتراضات لگاتے ہیں اور تجاویز دیتے ہیں۔ پاکستانی رپورٹ پر 300 کے قریب تجاویز آئیں اور اعتراض  لگے۔ 270 پر پاکستان نے عمل کرنے کا کہا۔ انڈیا اور اسرائیل کے تمام اعتراض مسترد کر دیے۔

اس کے بعد اگلے مرحلے میں قرعہ اندازی کے ذریعے ممبر ملکوں کو تقریر کا موقع ملا ہے۔ اسرائیل کو یہ موقع ملا تو ان کی مستقل مندوب ادی فرجان نے پاکستان میں بلاسفمی قانون میں ترامیم، انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں، جبری گمشدگیوں، پر امن مظاہرین پر تشدد اور احتجاج کا حق نہ دینے قسم کی باتوں پر تنقید کی۔ آخر میں پاکستان کی رپورٹ متفقہ طور پر منظور کر لی گئی۔ اسرائیلی تقریر عملی طور پر بے اثر رہی۔

اس تقریر کو لیکر اس کی فٹنگ پی ٹی آئی پر کی جا رہی ہے۔ یہ کہا جا رہا ہے کہ کپتان کے سسرالی اس کی مدد کو آ گئے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن یہودی سازش اور کپتان کو جوڑ کر بتاتے رہے ہیں۔ یہ اب ان کے لیے ایک غیر متوقع موقع ہے کہ وہ اپنی پاور بیس کو گرم کر لیں۔ جو ویسے بھی گرم ہی چل رہے ہوتے ہیں۔

یہ ایک ایسا موقع ہے کہ کوئی لفافہ صحافی ہر طرف سے کھیل سکتا ہے۔ پی ٹی آئی والوں کو بھی اکسایا جا سکتا ہے کہ پوچھیں کہ اسرائیل سفیر نے تب ایسی لوز بال کیوں کرائی ہے جب مولانا سیاسی مشکل کا شکار تھے۔ اور ایسی بال پر وہ اسٹیڈیم سے باہر چھکا لگا سکتے ہیں ۔

الیکٹورل پالیٹکس اپنی ساخت میں بہت ہی مقامی ہوتی ہے۔ ووٹر جب اس کو عالمی سیاست سے جوڑتا ہے تو پھر جب وہ سیلاب میں بہتا جا رہا ہو، تب سرکار کی مدد کا سوچنے کے بجائے اس فارغ وقت میں خود سے ضرور پوچھے کہ ووٹ وہ اپنے مسائل کی بنیاد پر کیوں نہیں دیتا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

وسی بابا نام رکھا وہ سب کہنے کے لیے جن کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔ سیاست، شدت پسندی اور حالات حاضرہ بارے پڑھتے رہنا اور اس پر کبھی کبھی لکھنا ہی کام ہے۔ ملٹی کلچر ہونے کی وجہ سے سوچ کا سرکٹ مختلف ہے۔ کبھی بات ادھوری رہ جاتی ہے اور کبھی لگتا کہ چپ رہنا بہتر تھا۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp