دبئی میں میاں محمد نواز شریف اور آصف علی زرداری کے درمیان ملاقات ہوئی جس پر میڈیا میں خوب تبصرے ہو رہے ہیں۔ ان ملاقاتوں میں ملک میں آئندہ ہونے والے اہم فیصلے زیر بحث آئے تاہم مولانا فضل الرحمان کا اس معاملے پر یہ موقف رہا کہ مرکز میں قائم حکومتی اتحاد میں جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی) ف موجود ہے اور بطور پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے سربراہ انہیں اس مشاورتی میٹنگز کا حصہ ہونا چاہیے تھا۔
وی نیوز نے جے یو آئی ف کے مرکزی رہنما اور پی ڈی ایم کے ترجمان حافظ حمد اللہ سے انٹرویو کیا اور اس حوالے سے ان کی رائے پوچھی جس پر ان کا کہنا تھا کہ پی ڈی ایم میں موجود دیگر سیاسی جماعتوں کو بھی علم نہیں کہ کیا مشاورت ہو رہی ہے اور یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ ایسی کون سی آفت آگئی تھی کہ مولانا فضل الرحمان اور پی ڈی ایم کی دیگر اتحادی جماعتوں کو ان ملاقاتوں سے باہر رکھا گیا۔
اب اس سلسلے میں مولانا فضل الرحمان اور وزیراعظم شہباز شریف کے درمیان ملاقات ہوئی جس سے متعلق تفصیلات تو میرے پاس موجود نہیں لیکن میں یہ بتا سکتا ہوں کہ یہی ملاقات دبئی میں بھی کی جاسکتی تھی۔ تاہم یہ تاثر غلط ہے کہ مولانا فضل الرحمان نے دبئی میں ہونے والے مشاورتی اجلاس کے ایجنڈے پر اتفاق کر لیا ہے۔
کیا مولانا فضل الرحمان کو دانستہ طور پر ان ملاقاتوں میں شامل نہیں کیا گیا؟
دبئی ملاقاتوں سے متعلق نواز شریف نے ہم سے کوئی رابطہ نہیں کیاا ور ان ملاقاتوں میں کیا ہوا ہمیں تو میڈیا کے توسط سے پتا چلا۔ ماضی میں کئی بڑے بڑے فیصلے کیے گئے جن میں مولانا فضل الرحمان سے آن لائن رابطہ کرکے مشاورت کی گئی لیکن رابطہ نہ کرنے کی وجہ وہی بتا سکتے ہیں جنہوں نے ہمیں مشاورتی ملاقاتوں میں مدعو نہیں کیا۔
دیکھیں اہم بات اس وقت یہ ہے کہ اسمبلیوں کی مدت مکمل ہونے میں 50 دن باقی رہ گئے ہیں یہ ایک نئی صورت حال بننے جارہی ہے کہ قائد ایوان اور حزب اختلاف کو مل کر نگراں وزیراعظم کے نام پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ ایوان میں انتخابی اصلاحات و دیگر امور سے متعلق ایک قانون سازی ہونے جارہی ہے اس پر بات کرنی ہوگی۔ اس کے علاوہ اس بات پر بھی حکمت عملی بنانی ہوگی کہ اگر نگران حکومت کی مدت 90 دن سے زیادہ ہو جاتی ہے تو پھر ہمیں کیا کرنا ہوگا۔
اس وقت کئی سوالات موجود ہیں کیا انتخابات دھاندلی سے پاک ہونگے۔ کیا ہم ان ہی حلقہ بندیوں پر انتخابات کا انعقاد کریں گے یا مشترکہ مفادات کونسل کے پاس مردم شماری کے معاملے کو لے جائیں گے۔ ملک میں آئندہ سیاسی اور معاشی استحکام ان ہی فیصلوں پر منحصر ہے تو ان سب فیصلوں سے پہلے مشاورت ہونا ضروری ہے اور اگر آپ یہ صرف 2 سیاسی جماعتوں سے کرواتے ہیں تو اس سے ملک میں استحکام نہیں آئے گا۔
کیا انتخابی اصلاحات کا بل لانے میں دیر نہیں ہوگئی؟
دیکھیں میرے خیال میں دیر نہیں ہوئی ہم نیب اصلاحاتی بل لائے۔ پہلے اگر کسی کو گرفتار کیا جاتا تو 90 دن تک نیب سے کوئی پوچھ نہیں سکتا تھا لیکن اصلاحات کے بعد اس مدت میں کمی لائی گئی جس کا فائدہ پاکستان تحریک انصاف کو پہنچا۔ دیکھیں انتخابی اصلاحات لانے کی ضرورت اس لیے پیش آئی کیوں کہ پی ڈی ایم ای وی ایم مشین کے ذریعے رائے شماری کے خلاف تھی۔ ہم مشین کے اس لیے خلاف تھے کہ یہ آر ٹی ایس کا ایک تسلسل ہے جو ایک منصوبہ ہے تحریک انصاف کو اقتدار میں لانے کا۔
پہلے آر ٹی ایس کے ذریعے انہیں ہم پر مسلط کیا گیا اب صاف و شفاف انتخابات کے نعرے تلے ای وی ایم کے ذریعے پھر تحریک انصاف کو کامیاب کرایا جانا تھا۔ جہاں تک بات ہے اوور سیز پاکستانیوں کے ووٹ کی تو ہم اس حق میں ہیں کہ اوور سیز پاکستانیوں کو ووٹ کا حق ملنا چاہیے لیکن ایک سازش کے تحت ان کے ووٹ کو بھی استعمال کر کے تحریک انصاف کو حکومت میں لایا جانا تھا۔ تو ان سب معاملات سے نمٹنے کے لیے انتخابی اصلاحات لانے ضروری تھیں اب بھی ہمارے پاس 50 دن موجود ہیں جس میں یہ قانون سازی کی جاسکتی ہے۔
پی ڈی ایم کی حکومت کو آتے ہی سب سے بڑا چیلنج معیشت کو مستحکم کرنے کا تھا کیوں کہ تحریک انصاف کی حکومت نے معیشت تباہ کردی تھی اس وقت تمام ادارے اور تمام سیاسی جماعتوں صرف اس بات کو سوچ رہی تھیں کہ پاکستان کو ڈیفالٹ سے کیے بچایا جائے لیکن الحمد اللہ اب پاکستان پر سے ڈیفالٹ کا خطرہ ٹل چکا ہے۔
دیکھیں اس وقت تحریک انصاف نے آئی ایف سے معاہدہ کرکے اسے وفا نہیں کیا جس کی وجہ سے آئی ایم ایف ٹال مٹول کرتا رہا۔ تحریک انصاف معاہدے کو نقصان پہنچانے کے لیے اس حد تک چلی گئی کہ جب پی ڈی ایم کا معاہدہ آئی ایم ایف سے ہو رہا تھا تو شوکت ترین نے 2 صوبوں کے وزرائے خزانہ کو معاہدہ سبوتاژ کرنے کا کہا۔
کیا ہماری معیشت مستحکم ہے؟
دیکھیں معیشت کو مستحکم کرنے کے لیے 9 ماہ ناکافی ہیں کیوں کہ معیشت کو مستحکم کرنے میں وقت لگتا ہے۔ پاکستان بلیک لسٹ ہونے جارہا تھا لیکن ہماری لیکن پی ڈی ایم کی حکومت ملک کو وائٹ لسٹ میں لے ائی اور پاکستان ڈیفالٹ ہونے سے بھی بچ گیا۔
کیا پی ڈی ایم حکومت کی ساری توانائی 9 مئی کے واقعات سے نمٹنے میں صرف ہوگی؟
دیکھیں 9 مئی کے واقعات پی ڈی ایم کی وجہ سے نہیں بلکہ تحریک انصاف کے چیئرمین کے بیانیے کی وجہ سے رونما ہوئے۔ تحریک انصاف کا مقصد فساد برپا تھا لیکن انہوں نے اسے جہاد کا نام دیا۔ تحریک انصاف کے ایجنڈے کا بنیادی مقصد فوج کو فوج، اداروں کو اداروں اور عوام کو فوج سے لڑوانا تھا۔ چیئرمین تحریک انصاف نے ملک کی 2 چیزوں کو نشانہ بنایا ایک معیشت اور دوسرا دفاع کو اور یہی 2 چیزیں ملک کی استحکام کے لیے بہت ضروری ہیں۔
جب آپ معیشت اور فوج کو نقصان پہنچاتے ہیں تو اس کا فائدہ دشمن کو ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ بھارت کے فوجی افسران ٹی وی پر یہ کہتے تھے کہ جو کام ہمیں کرنا تھا وہ چیئرمین تحریک انصاف نے کردیا۔ آج ان پر جو مقدمات ہیں یہ ان کے اپنے سیاہ کرتوتوں کی وجہ سے ہیں۔
کیا چیئرمین تحریک انصاف کو سزا ہوگی؟
ہم ابتدا سے ہی یہ کہا کرتے تھے کہ چئیرمن تحریک انصاف بیرونی ایجنڈے کو پروان چڑھانے کے لیے حکومت میں لائے گئے ہیں۔ انہیں ملکی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ساتھ بیرونی اسٹیبلشمنٹ کی سرپرستی حاصل تھی۔
آپ نے دیکھا کہ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی نے مشترکہ پریس کانفرنس کی اور اس بات کا اظہار کیا کہ اسرائیل کے مندوبین نے وہی بیانیہ اختیار کو جو چیئرمین تحریک انصاف کا تھا یعنی انہوں نے یہودی ترجمان کا کردار ادا کیا۔ ہم نے یہ بھی دیکھا کے چیئرمین کانفرنس میں چیئرمین تحریک انصاف کے حق میں خط لکھتے ہیں کہ پاکستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہو رہی ہے۔ بھارت، اسرائیل اور زلمے خلیل زاد جو افغانستان کے ہوتے ہوئے افغانیوں کے نہیں ہوئے وہ بھی چیئرمین تحریک انصاف کے حق میں بات کرتے ہیں۔ پہلی دفعہ تحریک انصاف کی خاتون رکن اسمبلی نے ایوان میں آن ریکارڈ اسرائیل کو تسلیم کرنے کی بات کی۔ ان باتوں سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ چیئرمین تحریک انصاف کو بین الاقوامی سرپرستی حاصل تھی۔
پی ڈی ایم میں انتخابی اتحاد ہوگا؟
پی ڈی ایم کا اتحاد انتخابی نہیں۔ یہ تحریک ستمبر 2020 میں جمہوریت اور آئین کی بالادستی کے لیے بنائی گئی تھی۔ یہ کام پی ڈی ایم کی حکومت نے کر دکھایا۔ جب انتخابات ہونگے ہر جماعت اپنے نشان پر الیکشن لڑے گی ممکن ہے کہ چند حلقوں میں کسی جماعت کی ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی جائے۔
’استحکام پاکستان پارٹی پی ٹی آئی 2 ہے‘
استحکام پاکستان پارٹی صرف نام کی حد تک ملک میں استحکام لائے گی۔ اس جماعت میں تحریک انصاف کے لوگ شامل ہیں اور یہ پی ٹی آئی پارٹ 2 ہے اب پی ٹی آئی پارٹ 3 اور 4 بھی آنی باقی ہے۔