آج سانپوں کا عالمی دن ہے۔ میٹرک کے رزلٹ کے بعد اگر کسی چیز میں اتنا دم ہے کہ جس کو دیکھ کر ہی جان نکل جائے تو وہ ہے سانپ۔ دنیا بھر میں سانپوں کی نایاب نسل پائی جاتی ہے۔ مختلف رنگ، قد قامت اور خصوصی فطرت کے مالک سانپ انسانوں کو حیران و پریشان کرتے ہیں۔ سانپ وہ واحد جانور ہے جو ارتقاء کی جانب رواں دواں رہا۔ سانپ آہستہ آہستہ جنگلوں اور ندی نالوں کو چھوڑ کر ایک انسان کے روپ میں ہر کسی کی زندگی میں شامل ہو گیا۔ سانپ کے ارتقاء کا یہ عمل کائنات کے لیے شاید ضروری تھا، لیکن انسان کے لیے نہیں۔
آخر سانپ انسان بنے کب؟ ہم نے اپنے بڑے بوڑھوں کو اکثر ہی غصے میں غراتے ہوئے سنا ’یہ تو آستین کا سانپ نکلا‘۔ یہ سن سن کر مجھے تو یہی لگتا ہے کہ سانپ انسان کی آستین سے نکلا ہے۔ اب وہ اُدھر پہنچا کیسے تھا، یہ میرا کام نہیں، سائنس دانوں کا کام ہے۔ خیر آستین سے باہر نکل کر اب انسان نما سانپوں کا راج اِس پوری دنیا پر ہے۔ چاہے آپ کا دفتر ہو، یا آپ کا خاندان، آپ کی دوستی ہو یا وہ لوگ جن کا آپ سے کسی قِسم کا تعلق نا ہو، ان سب میں ایک یا ایک سے زیادہ انسان نما سانپ بیٹھے ہیں جو آپ کو ڈسے بغیر رہ ہی نہیں سکتے۔
میرے خیال سے یہ کہنا غلط نا ہو گا کہ خاندان میں سب سے زیادہ سانپ پائے جاتے ہیں۔ کسی سانپ کو آپ کی کامیابی پر ڈسنا ہوتا ہے تو کسی کو آپ کی شادی پر کسی کو آپ کی اولاد ہونے پر ڈسنا ہوتا ہے اور کسی کو آپ کے خوبصورت ہونے پر۔ اور ایسے بھی سانپ ہوتے ہیں جو آپ کے چہرے پر بلاوجہ مسکراہٹ دیکھ کر ہی ڈسنے کا ارادہ کر لیتے ہیں۔ آپ کو یہ ڈسنا کبھی بھی جسمانی طور پر محسوس نہیں ہوگا۔ ان کا سارا زہر ان کی زباں ہی اگلے گی۔ اور میں نے اِس زہر سے زیادہ مؤثر زہر اور کہیں نہیں دیکھا۔
دفاتر میں بھی یہ سانپ آستینوں سے نکل کر آپ کے ساتھ والے میز پر آ جاتے ہیں۔ یہ دن کے 9 گھنٹے آپ کے ساتھ گزارتے ہیں۔ اس میں سے 6 گھنٹے آپ کے کمپیوٹر کی اسکرین کو دیکھ کر صرف یہ سوچ رہے ہوتے ہیں کہ ایسی کونسی غلطی آپ سے ہو جس پر وہ فوراً آپ کو ڈس سکیں۔ یہ ایک بالواسطہ سانپ ہے جو آپ کے بارے میں آپ کے باس کو ہر وقت کچھ نا کچھ ایسا بتاتا رہے گا جس سے آپ کی زندگی جہنم ہی بنی رہے۔ یہ آپ کے نا چاہتے ہوئے بھی آپ کی آستین میں ہی گھسے رہنے کا شوقین ہو گا۔ اب یا آپ اپنی آستین پر دیوار بنوا لیں یاپھر آستین میں اتنی بدبو کر دیں کے وہ زیادہ قیام ہی نہ کر سکے۔
کچھ ہمارے دوست یار ہیں، یہ ایک دم سانپ بن جاتے ہیں۔ مجھے ان کی محبت پر شک نہیں لیکن ان کے حالات اُنہیں سانپ بنا دیتے ہیں۔ کچھ شادی ہونے کے بعد سانپ بنتے ہیں اور کچھ شادی نا ہونے پر۔ کچھ کامیاب ہونے پر اور کچھ ناکام ہونے پر۔ وجہ جو بھی ہو، وہ ڈسنے کے لیے تیار رہتے ہیں۔
میرے لیے وہ سانپ نما لوگ زیادہ مزے دار ہوتے ہیں جن کا مجھ سے تعلق بھی نہیں لیکن وہ ایک فاصلے سے ہی مجھے ڈسنے کے لیے تیار ہوتے ہیں۔ یہ ہوتے ہیں ’میں خوامخواہ‘ سانپ۔ نہ ان کے منہ سے زہر نکلتا ہے اور نا ہی یہ جسمانی طور پر آپ کو نقصان دیتے ہیں۔ یہ بس ایک فاصلے سے ہی ایسی نظر رکھتے ہیں کہ وہ نظر ہی آپ کو ڈس لیتی ہے۔ اِس کے لیے آپ کا بہت کامیاب یا خوبصورت یا خوش ہونا ضروری نہیں ہے۔ اِس کے لیے آپ کا بس ہونا ہی ضروری ہے۔
اِس سانپوں بھری دنیا کے بارے میں لکھ کر شاید مجھے اصلی سانپوں کا خوف اب نا رہے۔ یہ ایک کتھارسس ثابت ہوا ہے کیونکہ مجھے سانپوں کے عالمی دن پر یہ احساس ہوا ہے کہ میں تو روز مرہ کی زندگی میں سانپوں میں ہی پھل پھول رہی ہوں۔ تو آخر اصل سانپ کا ڈر کیوں ؟