نوید عالم مرحوم کا تعلق پاکستان کی اس ہاکی ٹیم سے تھا جس نے 1994 میں دنیا کی بہترین ٹیموں کو ہرا کر پاکستان کے لیے ورلڈ کپ جیت لیا تھا ۔چند سال پہلے اس قومی ہیرو(نوید عالم ) کو کینسر تشخیص ہوا اور اس کے خاندان والے اسے شوکت خانم اسپتال لےکر گئے۔
شوکت خانم اسپتال نے علاج کے لیے ساڑھے 4 ملین روپے مانگے تو مالی مسائل کے شکار خاندان کے لیے یہ رقم ادا کرنا نا ممکن ہو گیا اور پھر نوید عالم کی جواں سال بیٹی بے بس آنسوؤں کے ساتھ اپنے والد کی زندگی بچانے کے لیے عام لوگوں کے سامنے جھولی پھیلا کر چندے کی اپیل کرتی دکھائی دی۔
اسی دوران یہ قومی ہیرو سسک سسک کر جان کی بازی بھی ہار گیا!
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ شوکت خانم اسپتال کو ملنے والا کروڑوں بلکہ اربوں روپے کا فنڈ جاتا کہاں ہے؟
ضمنی سوال یہ بھی ہے کہ شدید مالی پریشانیوں کے شکار اور کینسر کے مرض میں مبتلا ایک قومی ہیرو کا علاج بھی یہاں مفت نہیں ہو رہا پھر شوکت خانم اسپتال اسے قبول کرنے سے بھی انکار کرتا ہے تو پھر بتایے یہ پھر علاج کرتے کس مریض کا ہیں اور یہاں مفت علاج ہوتا کن لوگوں کا ہے؟ اور اس پر خرچ کتنا آتا ہے؟
ایک ذمہ دار عہدے پر تعینات لیکن شوکت خانم گزیدہ دوست بتاتے ہیں کہ بے شک مفت علاج بھی ہوتا ہے لیکن سینکڑوں ہزاروں میں سے کتنوں کا ؟ کیونکہ اصل مسئلہ ’خانہ پری ‘ کا ہے ورنہ کسی اور اسپتال سے علاج، زائد العمر یا آخری اسٹیج سمیت بہت سے بہانے موجود ہیں۔
میں بہت سے ایسے مریضوں کی نشاندہی کر سکتا ہوں جن کا شوکت خانم اسپتال نے علاج کرنے سے انکار کر دیا تھا لیکن دوسرے اسپتالوں سے علاج کروانے کے بعد وہ مکمل طور پر صحت یاب بھی ہو گئے اور زندگی کی طرف لوٹ بھی آئے۔
لیکن اہم سوال یہ ہے کہ کیا کسی اسپتال کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ شدید تکلیف میں مبتلا کسی مریض کے علاج سے انکار کرے؟ کیا آئین و قانون اور انسانی اقدار اس رویے کی اجازت دیتے ہیں؟
شوکت خانم اسپتال میں یہ روز کا معمول ہے اور یہ کوئی ڈھکی چھپی بات بھی نہیں ہے۔
تعلیم یافتہ اور پڑھے لکھے لوگ متبادل اور بہتر علاج کے حوالے سے مکمل آگاہی بھی رکھتے ہیں جس کی وجہ سے وہ خود کو ذہنی اور مالی پریشانیوں سے بھی بچا لیتے ہیں اور اپنا علاج بھی کامیابی کے ساتھ کروا لیتے ہیں۔
یہاں ڈاکٹر ذکین احمد کی مثال لیتے ہیں جو خیبر پختونخواہ کے سب سے معروف سکن اسپیشلسٹ ہیں اور قدرت نے ان کے ہاتھ میں حیرت انگیز شفا رکھی ہے۔ کچھ عرصہ پہلے انہیں پروسٹیٹ سرطان تشخیص ہوا تو ایک تجربہ کار ڈاکٹر کی حیثیت سے وہ بخوبی جانتے تھے کہ انہیں کیا کرنا ہے اس لیے وہ لاہور کے انمول اسپتال جا پہنچے جہاں انہوں نے اپنا ٹیسٹ (پٹ سکین) کروایا۔
یہ ٹیسٹ انمول اسپتال میں 50 ہزار روپے کا ہوتا ہے لیکن شوکت خانم اسپتال والے اسی ٹیسٹ کے ایک لاکھ 30 ہزار روپے چارج کرتے ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ جب ڈاکٹر ذکین اپنے ٹیسٹ کی سی ڈی لے کر شوکت خانم اسپتال دکھانے گئے تو صرف معائنے (Reading) کی 60 ہزار روپے فیس لی گئی۔
حالانکہ اس پر رائے (Openion ) کوئی مستند ماہر ڈاکٹر نہیں بلکہ ایک عام ڈاکٹر ہی دیتا ہے۔
ہم اگر اس حقیقت کو بھی مان لیتے ہیں کہ ڈاکٹر ذکین کےلیے یہ کوئی بڑی رقم نہیں کیوں کہ وہ خود ایک انتہائی کامیاب ڈاکٹر ہیں لیکن خدا نخواستہ کوئی عام سا شخص اس طرح کے مسئلے سے دوچار ہو تو؟
یہاں یہ بھی بتاتے چلیں کہ ڈاکٹر ذکین نے اپنا علاج انمول اسپتال سے کروایا اور وہ بھی اب مکمل طور پر صحت یاب ہیں اور اپنے علاج اور اسپتال(انمول ہسپتال ) کی کارکردگی سے حد درجہ مطمئن بھی ہیں۔
میرے ایک قریبی دوست زاہد رحمان کو بلڈ کینسر تشخیص ہوا تو وہ انتہائی بے چارگی کی حالت میں شوکت خانم اسپتال گئے لیکن وہاں انہیں یہ کہہ کر علاج کرنے سے انکار کر دیا گیا کہ ’ہم ایسے مریض نہیں لیتے۔‘ زاہد مزید دھکے کھانے کی بجائے سیدھا پشاور کے معروف کینسر اسپشلسٹ ڈاکٹر عابد سہیل (جو ارنم اسپتال میں ماہر امراض خون ہیں) کے پاس جا پہنچے اور اپنا علاج کروایا۔
زاہد رحمان فخر کے ساتھ بتاتے ہیں کہ نہ میں ذہنی اذیت سے گزرا اور نہ ہی مجھ پر زیادہ مالی بوجھ پڑا۔ وہ اب اللہ تعالی کے فضل سے مکمل طور پر صحت یاب ہیں اور اپنا بزنس کر رہے ہیں۔
شوکت خانم اسپتال کے حوالے سے معلومات اکٹھے کرتے ہوئے میں چونک پڑا کیوں کہ ایک جگہ خفیہ چارجز ہیں۔ حیرت ہے کہ صحت کے شعبے میں ایسے چارجز؟ اور وہ بھی عوام کے چندے پر چلنے والے کسی خیراتی ادارے میں؟
اسی طرح ہفتہ وار معائنے (Consultation) کی فیس ایک ہزار روپے ہے حالانکہ یہ معائنہ ایک ایم او یعنی ایم بی بی ایس لیول کا ڈاکٹر ہی کرتا ہے اس لیے یہ فیس 2 یا 3 سو روپے سے زیادہ ہونا ایک زیادتی ہے۔
الٹرا ساؤنڈ جو عام مارکیٹ میں 6 سو روپے کا ہوتا ہے وہ شوکت خانم اسپتال میں ڈھائی ہزار روپے میں ہوتا ہے جبکہ سی ٹی سکین عام طور پر 5 ہزار کا ہوتا ہے جبکہ شوکت خانم اسپتال میں 16 ہزار کا ہوتا ہے۔
کیمو تھراپی ارنم اسپتال میں 700 ہزار روپے جبکہ شوکت خانم میں 30 ہزار روپے میں کی جاتی ہے حالانکہ کیمو تھراپی میں استعمال ہونے والی ادویات ایک جیسی اور عالمی معیار کی ہی ہوتی ہیں۔
اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ شوکت خانم اسپتال علاج کے حوالے سے انتہائی مہنگا کیوں ہے۔
مطلب یہ ہے کہ یہاں بھاری بھر کم چارجز اور فیسوں پر نظرثانی کی جا سکتی ہے اور بہتری کی گنجائش بھی موجود ہے کیوں کہ عوام کی جانب سے شوکت خانم کو ملک کے اندر اور باہر سے بہت بڑی فنڈنگ بھی ہو رہی ہے۔
بدقسمتی سے پورے ملک میں کینسر کے مرض میں مبتلا مریضوں میں تشویشناک حد تک اضافہ ہو رہا ہے اس لیے گزارش کروں گا کہ حکومت اپنی توجہ اور خصوصاً عوام اپنے خیرات اور عطیات کو ان اسپتالوں کی طرف بھی موڑ دیں جو کینسر کے حوالے سے قابل رشک خدمات سرانجام دے رہے ہیں لیکن انہیں بہرحال شدید مالی مشکلات کا سامنا ہے ۔
لاہور میں رائے ونڈ روڈ پر کینسر کیئر اسپتال نے بھی کینسر کے مریضوں کا علاج شروع کر دیا ہے۔ ایک دوست بتا رہا تھا کہ یہ ایشیا میں کینسر کا سب سے بڑا اسپتال ہے یہاں صرف صاحب ثروت لوگوں سے علاج کے پیسے لیے جاتے ہیں جبکہ عام لوگوں کے لیے نہ صرف علاج مکمل طور پر فری ہے بلکہ مریض کے ساتھ آنے والوں کے لیے مفت خوراک اور رہائشی انتظامات بھی کیےگئے ہیں
کینسر کیئر اسپتال کے پاس دنیا کی جدید ترین ٹیکنالوجی اور مشینری کے ساتھ ساتھ انتہائی تجربہ کار ڈاکٹروں کی ٹیم بھی موجود ہے۔ اس اسپتال کی خصوصیت یہ ہے کہ یہ کسی لاعلاج اور آخری اسٹیج کے مریض کو بھی واپس نہیں بھیجتا بلکہ ایسے مریضوں کے لیے 250 بیڈ کا ایک علیحدہ لیکن پر آسائش بلاک بھی قائم کیا گیا ہے تاکہ آخری شب و روز میں انہیں ادویات کے ذریعے شدید تکلیف سے بچایا جائے۔
یہ ہسپتال عام لوگوں کے عطیات پر ہی چلتا ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ مخیر حضرات اس طرف بھی توجہ دیں۔ یاد رہے کہ اس ہسپتال کے سربراہ ڈاکٹر شہر یار ہیں جنہوں نے شوکت خانم ہسپتال بنانے میں بہت اہم کردار ادا کیا تھا۔
اسی طرح لاہور میں قائم انمول ہسپتال جبکہ پشاور میں ارنم ہسپتال کینسر کے خلاف جنگ میں ہراول دستے کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ گو کہ ان ہسپتالوں کے وسائل بہت ہی کم ہیں لیکن اس کے باوجود بھی وہ کسی مریض کو بچانے کے لئے آخری دم تک لڑتے دکھائی دیتے ہیں۔
ارنم ہسپتال کے بارے معلوم ہوا ہے کہ ریڈی ایشن کے حوالے سے اس کی کارکردگی کمال کی ہے اور ان کے پاس انتہائی تجربہ کار ڈاکٹروں کی ٹیم بھی موجود ہے لیکن اس سلسلے میں میسر مشینری کافی پرانی ہے اور ستم ظریفی یہ ہے کہ ہسپتال انتظامیہ کی جانب سے بار بار درخواستوں کے باوجود بھی حکومت کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔
اہم سوال یہ ہے کہ اس ٹیکنالوجی کی کُل قیمت آخر کتنے کروڑ ہوگی؟ اور ویسے بھی مخیر لوگوں سے یہ ملک خالی کب ہوا ہے۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔