میں جو شاعر کبھی ہوتا

پیر 17 جولائی 2023
author image

مشکور علی

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

زندگی نے جدھر موڑا ادھر ہی مُڑ گئے ہم
کیا  پانی  کا  اشارہ  اسی  میں رُڑ  گئے ہم
اس شہرہ آفاق شعر کے خالق جناب اوازار فٹ پاتھی ایک عظیم غزل گو شاعر ہیں لیکن صرف غزل ہی ان کی وجہ شہرت نہیں، آپ آزاد نظم کہنے میں بھی اپنا ثانی نہیں رکھتے یعنی کوئی دوسرا ایسی آزاد نظم نہیں کہہ سکتا کیونکہ وہ آزاد نظم میں مادر پدر آزادی کے قائل ہیں۔ عموماً چھوٹی بحر کا انتخاب کرتے ہیں تاکہ شعر کہنے میں آسانی رہے اور مصرع گرفت سے باہر نہ نکلنے پائے۔ آپ خوبصورت رقیبوں، میرا مطلب ہے ترکیبوں کے ذریعے اپنا مافی الضمیر بیان کرتے ہیں، ان کے موضوعات اچھوتے اور شرما دینے والے مگر برمحل ہوتے ہیں۔ ان کے شعروں کا تاثر دلوں اور سماعت پر فوری اور براہ راست ہوتا ہے۔ ’کنگن‘ والے وصی شاہ پر ان کا کلام سننے کے فوری بعد ہی یہ مصرع اُترا تھا۔
’سماعتوں کو میں تا عمر کوستا سید‘

اوازار فٹ پاتھی کی غزلوں میں زندگی بلکتی، سسکتی اور ہمکتی نظر آتی ہے۔ اگر سمجھ آ جائے تو کمال کے شاعر ہیں۔ اسی بناء پر بیٹے کا نام بھی کمال رکھا۔ ان کی شاعری میں مُردہ سماجی اقدار کا نوحہ بین کرنے کی کوشش کرتا دکھائی دیتا ہے۔ وہ خوبصورتی اور حسن کے نغمہ گر ہونے کے ساتھ ساتھ طلب گار بھی ہیں۔ سچ کو ذریعہ اظہار بنایا، اس قدر سچ بولتے ہیں کہ سادگی کا گماں گزرتا ہے۔

آج تک جتنے مشاعروں میں شرکت کی وہ خود ہی منعقد کروائے تھے۔ جب شعر پڑھتے ہیں تو اکثر سامعین بڑبڑانے لگتے ہیں۔ مشاعروں میں ان سے آخر میں کلام پڑھوایا جاتا ہے تاکہ مشاعرہ آخر تک جاری رہ سکے۔ فاقوں کے ڈر سے شاعری کو ذریعہ معاش نہیں بنایا۔ بوجہ قابلیت نجی ادارے میں کام نہ ملنے پر ایک سرکاری ادارے میں اچھے عہدے پر فائز ہیں۔ اب تک شاعری کی تین کتابیں بالترتیب ’چنانچہ‘، ’بلاوجہ‘ اور ’کیونکر‘ شائع ہو چکی ہیں۔

کئی ممالک کے دورے کر چکے ہیں اور تینوں شعری مجموعوں کی منہ دکھائی (تقریب رونمائی) بیرون ملک کروائی کیونکہ اندرون ملک کوئی تقریب کی صدارت پر آمادہ نہ تھا۔ اکثر ملک سے باہر رہتے ہیں لیکن کچھ عرصہ اندر بھی رہے۔ گزشتہ دنوں ان کے ساتھ ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے:

اصل نام: خوامخوا لکھنوی
قلمی نام: اوازار فٹ پاتھی
٭ شاعری کی طرف کیسے آنا ہوا؟
O میرا شاعری کی طرف آنے کا قطعاً کوئی پروگرام نہیں تھا۔ دراصل ان دنوں میں یورپ جانے کے چکروں میں تھا مگر ویزا نہ لگ سکا۔ چنانچہ میں نے دوسرے شاعروں کی دیکھا دیکھی شاعری کرنے کا مصمم ارادہ کیا تاکہ جلد از جلد کتاب شائع کروا کے یورپ میں مقیم اپنے دوست کو کتاب کی تقریب رونمائی منعقد کرنے کا کہوں، یوں پہلا ویزا لگا اور میری پہلی کتاب ’چنانچہ‘ منظر عام پر آئی، لہٰذا آپ لکھ سکتے ہیں کہ میں حادثاتی طور پر شاعری کی طرف آیا۔

٭ آپ کی تین کتابیں شائع ہو چکیں مگر کوئی کتاب مارکیٹ میں نظر نہیں آتی، ایسا کیوں ہے؟
O مارکیٹ میں کیسے نظر آئے گی، جتنی چھپواتا ہوں تقریب رونمائی میں ہی مفت بانٹ دیتا ہوں، آپ خود ہی بتائیں 1500 روپے خرچ کرکے شاعری کی کتاب کون پڑھتا ہے۔

٭ اگر آپ شاعر نہ ہوتے تو؟
O پھر میں صاحب زر ہوتا، فیض کا شعر ہے نا!
فراز تو نے اسے مشکلوں میں ڈال دیا
وہ صاحب زر ہے اور صرف شاعر تو

٭ آپ کو ہم عصر شاعروں میں کون کون پسند ہیں؟
O دوشی گیلانی، زاہدہ نمکین ملک اور نمائشہ سعود، وغیرہ وغیرہ۔

٭ آپ کو کوئی مرد شاعر پسند نہیں؟
O معذرت چاہتا ہوں، آپ کا سوال سمجھ نہ پایا تھا غالباً آپ کلام کی مناسبت سے پوچھنا چاہ رہے تھے۔ جی مجھے ابراہیم ذوق پسند ہیں کیونکہ ابراہیم میرے والد محترم کا نام تھا۔

٭ آپ کا تخلص فٹ پاتھی شاعرانہ فیلنگز نہیں دیتا اور آپ اوازار کیوں ہیں؟
O آپ انٹرویو کی مکمل تیاری اور میرا کلام پڑھ کر آتے تو شاید آپ کو اس سوال کی زحمت نہ کرنا پڑتی، ہوا یوں کہ کسی نے یہ ہوائی اڑا دی تھی میرے شعری مجموعے فٹ پاتھ سے بآسانی مل جاتے ہیں اور دلچسپ بات یہ کہ سب کے سب میرے دستخط شدہ ہوتے ہیں، بس اسی گردش زمانہ کے سبب احباب مجھے فٹ پاتھی کہنے لگے اور اب آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ میں اوازار کیوں ہوں۔

٭ آپ نے تعلیم کہاں تک حاصل کی؟
O علم حاصل کرنے کے لیے میں چین تو نہیں جا سکا مگر میں نے ابتدائی تعلیم چیچو کی ملیاں میں حاصل کی اور بعد میں لاہور تک تعلیم حاصل کی۔

٭ آپ کا کوئی شعر جو آپ کو بہت پسند ہو؟
O ’جاتے ہیں ہوائے شوق میں چمن سے ذوق
ہماری بلا سے پھر کبھی باد صبا چلے‘

٭ یہ تو ناصر کاظمی کا شہرہ آفاق شعر ہے؟
O (ہنستے ہوئے) میں چیک کر رہا تھا کہ آپ کو شعر و ادب کا بھی کچھ پتا ہے یا ویسے ہی میرا انٹرویو داغ رہے ہیں۔ چلیں شکر ہے کہ آپ نے ’ماہ تمام‘ پڑھی ہے، آپ تو ادب شناس اور صاحبِ ذوق نکلے۔

٭ آپ کی کسی کتاب کو ایوارڈ سے نوازا گیا؟
O دراصل آج کل ادب میں گروپ بازی بہت ہے اور ایوارڈ کمیٹی پر آج کل مخالف گروپ کی اجارہ داری ہے، وہ اپنے لوگوں کو نواز رہے ہیں۔ اوپر والے کے ہاں دیر ہے اندھیر نہیں، نیا پاکستان بن جاتا تو مجھے بھی یقیناً ایوارڈ مل جانا تھا، پھر بھی میں پُرامید ہوں حکومت بدلنے دیں ہمارے لوگ آئیں گے، پھر ایوارڈ ہی ایوارڈ اور آج کل ویسے بھی میں ادب برائے ایوارڈ کا قائل نہیں۔

٭ کبھی پاک ٹی ہاؤس جانے کا اتفاق ہوا؟ سنا ہے وہاں نامور ادباء و شعراء چائے کے بہانے مل بیٹھتے تھے؟

O بہت شوق سے پیتا ہوں مگر چائے سے شدید نفرت ہے اس لیے کبھی ٹی ہاؤس جانے کا اتفاق نہیں ہوا۔

٭ مرزا غالب نے کہا تھا ’ آتے ہیں غیب سے یہ مضامین خیال میں، آپ کا تخلیقی عمل کیا ہے؟
O غالب نہایت تجربہ کار شاعر تھے۔ لیکن مجھے بھی جب میں غزل بنانے بیٹھتا ہوں تو نہایت عجیب و غریب خیالات آتے ہیں، بعض اوقات تو میں خود سے بھی شرما جاتا ہوں۔ میں ان مضامین کو قلم بند کرنے سے قاصر ہوں کیونکہ ایسے خیالات کے ردیف، قافیے ملانے مشکل ہوتے ہیں، ورنہ میں انہیں غزل کا پیراہن اوڑھا دیتا۔ کبھی ہماری نجی محفل میں آئیں اور چوتھے رنگ کی شاعری سے استفادہ حاصل کریں۔ جہاں تک غیب کا تعلق ہے مجھے بھی غیبی طور پر کلام ملتا رہتا ہے وہ سعید دوشی صاحب نے بھی شاید میرے متعلق ہی کہا تھا:
’ان دنوں شعر میں بھی شعبدہ بازی ہے بہت
بعض تو اوروں کی خدمات بھی لے لیتے ہیں‘

٭ دیکھنے میں آیا ہے کہ دوران مشاعرہ آپ صرف ایک مخصوص شاعر کو ہی داد دیتے ہیں ورنہ خاموش بیٹھے رہتے ہیں؟
O آپ کا مشاہدہ نہایت کمزور واقع ہوا ہے، وہ شاعر بھی تو صرف مجھے ہی داد دیتا ہے، ویسے مشاعرے کی اصطلاح میں اسے ’بارٹرسسٹم‘کہتے ہیں۔

٭ آپ عشقیہ یا وصال کی کیفیت والے اشعار ہال میں موجود خواتین کی طرف دیکھ کر کیوں پڑھتے ہیں حالانکہ مرد حضرات بھی ہمہ تن گوش ہوتے ہیں؟
O یہ ماحول پیدا کرنے اور مشاعرہ گرمانے کی کوشش ہوتی ہے۔ آنکھیں ملا کر عشقیہ اشعار پڑھنے کا مزا ہی کچھ اور ہے اور یہ وہ دور بھی نہیں کہ بقول حامد میر:
’میر کیا سادہ ہیں بیمار ہوئے جس کے طفیل
اسی ظہیر کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں‘

٭ غافل ہوشیارپوری کا کہنا ہے سیاست میں شاعری کا قائل نہیں، اور آپ سیاست میں خاصے ’اِن‘ ہیں؟
O یہ غافل کا سیاسی بیان ہے۔ وہ ہوشیار ہوتا تو اسے علم ہوتا کہ سیاست اور شاعری کا تو چولی دامن کا ساتھ ہے مثال کے طور پر میرا یہ شعر تو زبان زدِ خاص و عام ہے۔
’خدارا اپنے مَردوں کے فسانے نہ سناؤ ہم کو
ہے کوئی فردوس عاشق جیسا تو دکھاؤ ہم کو‘
ذرا تحمل کریں، میں آپ کو اور مثالیں بھی دیتا ہوں میرے آبائی حلقے سے ایک امیدوار کا انتخابی نشان ’چراغ‘ تھا میں نے اسے کمپین کے لیے پانچ لاکھ کے عوض یہ شعر دیا تھا:
’اپنی محرومی کے احساس سے تابندہ ہیں
خود نہیں رکھتے تو اوروں کے بجھاتے ہیں چراغ‘
راولپنڈی میں میرے ایک دوست ’نیاز الحسن کوہان‘ کو لاؤڈ اسپیکر کا نشان الاٹ ہوا تو میں نے محض دوستی نبھائی اور بلا معاوضہ یہ شعر لکھ مارا:
’بک رہا ہوں فسوں میں کیا کچھ میں
کچھ نہ سمجھے خدا کرےکوئی‘

٭ عشق، محبت اور شاعری کی تکون کو آپ کس طرح دیکھتے ہیں؟
O عشق و محبت کے بناء زندگی ’بے مزا‘ہے اور شاعری کی بنیاد بھی بقول جسٹس احتساب ’سر تا پا‘محبت پر استوار ہے۔ میں نے بھی عشق کیا، میرا عشق کامیاب تھا، میں مزاحیہ شاعری کرتا تھا، یہاں تک کہ لوگ کہنے لگے تھے کہ ’بنام الحق ناوید‘ بھی مجھ سے لکھواتے ہیں۔ پھر ہماری شادی ہوگئی، کچھ عرصہ بعد میں سنجیدہ غزلیں بنانے لگا۔ آپ کو بریکنگ نیوز دوں کہ میرے سنجیدہ کلام پر لوگ زیادہ ہنستے ہیں۔

٭ شاعر حضرات اخبارات میں کالم بھی لکھ رہے ہیں، تعلقات کی پینگیں بڑھا رہے ہیں، آپ اس طرف کیوں نہیں آئے؟
O جناب والا، ان میں اکثریت قصیدہ خوانوں کی ہے جس کا وہ بھاری معاوضہ اور منتھلیاں لیتے ہیں۔ ذاتی تعلقات بناتے ہیں، اپنی رام کہانیاں لکھتے ہیں۔ لگتا ہے آپ ان کےکالم نہیں پڑھتے۔ کبھی آپ ’روزن دیوار سے‘ آنے والی ’روشنی‘ میں بیٹھ کر وہ کالم پڑھیں۔ اگلی ’ملاقات‘ میں آپ سے پوچھوں گا کہ آپ نے ان کے ’اعمال نامہ‘ میں کیا کچھ دیکھا، آپ ’دیوار پہ دستک‘ دیکر کر تو دیکھیں، آپ کا ’دال دلیہ‘ چلتا رہے گا۔

٭ شاعری میں کس صنف کو پسند فرماتے ہیں؟
O میں تو ’صنف نازک‘ ہی پسند فرماتا ہوں۔ وہ شعر تو آپ نے بھی سن رکھا ہوگا کہ:
’نازکی اس صنف کی کیا کہیے
پنکھڑی اک مرے وبال میں ہے‘

٭ فٹ پاتھی صاحب میرا مطلب ہے کہ آپ غزل آسانی سے کہہ لیتے ہیں یا نظم؟
O اب سمجھا میں تیری گفتار میں تل کا مطلب، جناب مجھے آزاد نظم پسند ہے چونکہ میں آزاد فطرت اور آزاد دیش کا باسی ہوں۔ اسی مناسبت سے مجھے آزاد نظم سہل دکھائی پڑتی ہے؟

٭ آپ کی کوئی نظم جو آپ سنانا چاہیں قارئین کے لیے بطور خاص؟
O میری اس فی البدیہ نظم کا عنوان ہے:
{Love at the spot}
تو نے مسکرا کے دیکھا
میں ہنس پڑا
تو شرما گئی

٭ آپ اردو شاعر ہیں، نظم بھی اردو میں ہے اور ’گ، م واحد‘ کو ٹکر دے رہی ہے لیکن عنوان انگریزی میں ہی کیوں؟

O آپ مطالعہ وسیع کریں تو آپ کو پتا چلے کہ مقتدرہ قومی زبان جیسے ادارے انگریزی کو کیسے ’اُرددوا‘ رہے ہیں، تفصیل میں نہیں جاؤں گا، انہوں نے انگریزی لفظ ’گول کیپر‘ کا ترجمہ کیا ہے ’محافظ جائے دخول‘۔ شدتِ خوف و حیرت کے پیش نظر اب جہاں ضرورت پڑے انگریزی کا ہاتھ تھام لیتا ہوں۔

٭ آپ نے جیل کو بھی ’جِلا‘ بخشی، واقعہ شیئر کرنا پسند کریں گے؟
O تھوڑے دنوں کے لیے مجھے غلط فہمی اور کم علمی کی بناء پر بند کر دیا گیا تھا۔ دراصل میں نے ایک مشاعرے میں جالب صاحب کی نظم اپنے نام سے سنا دی تھی ’میں نہیں مانتا، میں نہیں جانتا‘۔ دوران تفتیش صرف میں ہی جانتا تھا کہ نظم میری نہیں مگر کوئی مانتا نہیں تھا، انہیں منانے میں کئی دن گزر گئے۔ واقفان حال نے بات کا بتنگڑ بنا دیا۔

٭ آپ اتنے بڑے عہدے پر فائز ہیں حالانکہ اور بھی کئی کامل اور نامور شعراء ہیں، صاحب دیوان ہیں مگر انہیں ایسا عہدہ آفر نہیں ہوا، اس انہونی بارے کچھ کہیں گے؟
O جناب آپ ’بہزاد سید‘ نہ بنیں۔ یہ آپ کو قطعاً زیب نہیں دیتا، کوئی اور سوال ہے تو پوچھیں ویسے زیب میری منجھلی بیٹی کا نام ہے۔

٭ آپ سمجھتے ہیں غزل نے ترقی کی اور کیا آپ اس سے مطمئن ہیں؟
O جتنی ترقی غزل نے کی ہے اتنی تو گزشتہ برسوں میں، میں بھی نہیں کر سکا۔ آج غزل جس مقام پر ہے میں تو اس پر رشک کرتا ہوں، لاکھوں کا بینک بیلنس، گاڑی، بنگلہ اور ہر ہفتے فارم ہاؤس پر مشاعرہ۔

٭ اب اجازت ہی دیجیے، آپ نے قیمتی وقت دیا، بہت شکریہ۔
O برائے مہربانی، یہ میری جوانی والی تصویر ضرور چھاپئے گا اور انٹرویو شائع ہوتے ہی مجھے فون بھی کر دیجیے گا تاکہ میں ریکارڈ کی درستگی کے لیے اخبار خرید لوں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp