اب گھر کی خرید و فروخت پر کتنا پراپرٹی ٹیکس دینا پڑے گا؟

پیر 17 جولائی 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

حکومت کی جانب سے پراپرٹی کی فروخت کے ضمن میں نان فائلر خریداروں اور فروخت کنندگان پر مجموعی ٹیکس 18.5 فی صد عائد کردیا گیا ہے۔  اس طرح اب یہ ٹیکس ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکا ہے۔

واضح رہے کہ یکم جولائی سے مکان، پلاٹ یا فلیٹس کی خریدوفروخت پر ٹیکسز بڑھا دیے گئے ہیں۔ اب نان فائلر خریدار کو اب جائیداد کی خریداری پر 7 فی صد کی بجائے 10.5 فی صد ٹیکس ادا کرنا ہوگا، جبکہ فروخت کرنے والے کو 4 کے بجائے 6 فی صد ٹیکس ادا کرنا پڑے گا۔

اسی حوالے سے بات کرتے ہوئے 3 رئیلٹرز کے چیف ایگزیکٹیو آفیسر احمر بلال کا کہنا تھا کہ ٹیکسز میں اضافے کے بعد رئیل اسٹیٹ انڈسٹری کو کافی زیادہ نقصان ہوگا، کیونکہ صرف ٹیکسز خریدو فروخت پر نہیں ہیں۔ ایک عام شخص کو صرف خرید وفروخت پر ٹیکس دینا ہوگا، جبکہ جتنی بھی رئیل اسٹیٹ کی رجسٹرڈ کمپنیاں ہیں انہیں خریدوفروخت کے علاوہ اپنی آمدن  کا 29 فی صد ٹیکس  بھی حکومت کو ادا کرنا پڑتا ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ نان فائلر کی بینک ٹرانزیکشن پر بھی 0.6 فی صد ٹیکس ہوتا ہے۔

ایک سوال پر احمر بلال کا کہنا تھا کہ پہلے نان فائلر کے لیے ٹیکس 10.5 فیصد تھا جبکہ فائلر کے لیے ایک فی صد ہوا کرتا تھا، جو بڑھ کر 2 فی صد ہوا اور اب 3 فی صد ٹیکس فائلر پر ہے۔ یہ بھی کم نہیں ہے۔

احمر بلال نے مزید بتایا کہ ملک میں مہنگائی کی شرح پہلے ہی بہت زیادہ ہے۔ جس کی وجہ سے یہ انڈسٹری کافی متاثر ہو چکی ہے۔ رہی سہی کسر اب پوری ہو جائے گی۔ جتنی بڑی یہ انڈسٹری ہے اتنے ہی لوگ اس انڈسٹری سے منسلک ہیں۔ ان تمام لوگوں کے روزگار متاثر ہوں گے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ سب آئی ایم ایف کی ڈیل کی وجہ سے ہوا ہے۔ اور اس کی وجہ یہی ہے کہ پاکستان ٹیکسز کا ہدف پورا کر سکے۔

ایسٹ پراپرٹیز کے مالک حیدر راؤ کہتے ہیں کہ مارکیٹ میں پراپرٹی کی خریدوفروخت تقریبا 90 فی صد کم ہو چکی ہے جس سے رئیل اسٹیٹ طبقہ بہت متاثر ہوا ہے۔ لاکھوں لوگوں کا روزگار اس انڈسٹری سے منسلک تھا جو ختم ہو رہا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جس پلازے میں ان کا آفس تھا وہاں پہلے ہر دوسرے فلور پر رئیل اسٹیٹ کے دفاتر کھلے ہوئے تھے۔ مگر اب ہر دوسرا آفس خالی ہو چکا ہے کیونکہ مہنگائی اور پھر ان ٹیکسز نے لوگوں کو اس قابل ہی نہیں چھوڑا کہ وہ کاروبار کو آگے بڑھا سکیں۔

حیدر راؤ نے ایک سوال پر بتایا کہ تقریبا ایک برس قبل فائلر کا ٹیکس 1 فی صد ہوا کرتا تھا، وہ اب 3 فی صد ہو چکا ہے  جبکہ نان فائلر کا 10.5 فی صد ہو چکا ہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ جو فائلز ہم نے 60 لاکھ میں بیچی ہیں اب ان کی قیمتیں 30 لاکھ پر آچکی ہیں۔ اس بات سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس انڈسٹری کا کیا حال ہو چکا ہے۔

حیدر راؤ کہتے ہیں کہ چند ماہ قبل جب وہ دبئی گئے، اپنے انویسڑز دوستوں سے ملے تو ان سب انویسٹرز کا یہی کہنا تھا کہ ہمیں اب پاکستان میں سرمایہ کاری کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ پراپرٹی سے بہتر ہے کہ کوئی کرنسی خرید لی جائے۔ انویسٹرز نے بتایا کہ جو ریال انہوں نے 40 روپے میں خریدا تھا، اب تقریبا 80 پر جا چکا ہے جبکہ پاکستان میں انویسٹمنٹ سے انہیں کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ حیدر راؤ کہتے ہیں کہ ان کا کام چلتا ہی اوورسیز انویسٹرز سے تھا اور اب ان کی دلچسپی ختم ہو چکی ہے۔

فیڈریشن آف ریئلٹرز پاکستان کے وائس پریزیڈنٹ رانا محمد اکرم نے وی نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ جو نان فائلر ہیں انہیں فائلر بننا چاہیے۔ حکومت کے خیال میں نان فائلر پر ٹیکس بڑھایا جائے گا تو لوگ فائلر بنیں گے مگر حکومت کو زیادہ ٹیکس کے بجائے یہ شرط رکھنی چاہیے کہ وہ پراپرٹی خرید ہی نہیں سکتے۔

ایک سوال پر رانا محمد اکرم نے بتایا کہ  ہم نے حکومت سے کہا تھا کہ فائلر پر ٹیکس نہ بڑھایا جائے مگر انہوں نے بجٹ سے بالکل پہلے ہی 3 فی صد کر دیا۔  میں سمجھتا ہوں کہ ایک فی صد ٹیکس ہونا چاہیے، دوسری صورت میں اس انڈسٹری کا  حال برا ہو جائے گا۔ حکومت نے آئی ایم ایف ڈیل میں 215 ارب کے نئے ٹیکسز کا معاہدہ کیا ہے اس ہدف میں سے 60 ارب روپے رئیل اسٹیٹ پر لگائے گے۔

انہوں نے بتایا کہ ان ٹیکسز کے اطلاق کے بعد حکومت ہی کو نقصان ہوگا کیونکہ جو ریونیو گزشتہ برس آیا تھا، اس بار وہ بھی نہیں آئے گا۔ فائلر کے لیے ہم آواز اٹھاتے رہیں گے جبکہ نان فائلر کو فائلر بننا چاہیے۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اس انڈسٹری کا تعلق صرف پلاٹوں کی خریدوفروخت سے نہیں ہے، بلکہ تعمیرات سے بھی ہے، وہ شعبہ بھی خاصا متاثر ہوگا، بلکہ ان بلڈنگز میں کام کرنے والوں کے روزگار بھی متاثر ہوں گے۔

محمد اسلم کا تعلق راولپنڈی سے ہے، وہ راجہ بازار میں کپڑوں کی دکان پر ملازم ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ پچھلے چند برسوں سے میں نے کمیٹیاں ڈال رکھی ہیں تاکہ کوئی چھوٹا سا مکان لے سکوں۔ اپنی اور اپنے بچوں کی خواہشات کو مار کر پائی پائی جمع کر رہا ہوں۔ مگر حکومت کی جانب سے کبھی بجلی، کبھی آٹا اور کبھی گیس مہنگی ہو جاتی ہے۔ آئے روز کسی نہ کسی چیز کی قیمت میں اضافہ ہورہا ہے۔  اب یہ پراپرٹی ٹیکس بھی بہت زیادہ ہوگیا ہے، ہم امیر تو نہیں ہیں کہ  ہم سے ٹیکسز لیے جائیں۔ پائی پائی جوڑنے والوں پر ٹیکسز لگانا زیادتی ہے۔ جس حساب سے ہر چیز مہنگی ہورہی ہے لگتا نہیں ہے کہ مکان بنانے کا میرا خواب کبھی پورا ہو سکے گا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp