سڑسٹھ منٹ کا منڈیلا

منگل 18 جولائی 2023
author image

وسعت اللہ خان

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

جس انسان کو ہم غیر معمولی، لارجر دین لائف، قد آور یا دیوقامت  سمجھتے ہیں اس کی زندگی کا ہر ہر پہلو جانچنا تو دور کی بات صرف سرسری سمجھ کے لیے بھی ہمیں اسی کے قد کے برابر سانچے درکار ہوتے ہیں۔

چونکہ ہم میں سے اکثر کے پاس یہ سانچے نہیں ہوتے اس لیے ہم ان داستانی نابیناؤں کی طرح ہوتے ہیں جنہیں ایک ہاتھی کے آس پاس چھوڑ دیا جائے تو ہاتھی کا جتنا حصہ وہ ٹٹولنے میں کامیاب رہتے ہیں اسے ہی وہ پورا ہاتھی سمجھ بیٹھتے ہیں۔

میں نے مئی 2009 میں دھرم شالہ میں مقیم دلائی لاما سے پوچھا کہ آپ انسان ہیں، اوتار ہیں، غدار ہیں، محبِ وطن، مذہبی ہیں یا لا مذہب؟ جواب تھا کہ میں ان سب کیفیات سے گزرتا رہتا ہوں مگر میری ذات کے بارے میں جس کی جو بھی رائے ہو اس سے اس رائے کی بابت بحث نہیں کرتا۔

سردار خیر بخش مری سے بھی میں نے یہی پوچھا تھا کہ آپ قوم پرست ہیں، کیمونسٹ ہیں، روائیتی قبائلی سردار ہیں یا باغی ؟ ان کا بھی کم و بیش یہی جواب تھا کہ کوئی بھی انسان ڈرائنگ بورڈ پر نہیں بنتا۔ زندگی  اس سے جو کام لینا چاہتی ہے لے لیتی ہے۔ اگر میں اپنے لیے کوئی ایک اسٹیکر تلاش کروں کہ خیربخش مری کیا ہے تو شائد ناکام ہی رہوں گا۔ مجھے صرف اتنا معلوم ہے کہ آپ جو کرنا چاہتے ہیں اگر آپ اس کاز کو درست سمجھتے ہیں تو پھر کامیابی یا ناکامی یا جزا و سزا کے وہم کو ایک طرف رکھ کے بس چلتے رہیں۔ چلتے رہنا ہی کامیابی اور تھک کے بیٹھ جانا ہی ناکامی ہے۔

اس تعریف  کے تناظر میں اگر نیلسن منڈیلا کو دیکھا جائے تو وہ  نہ صرف اپنا سانچہ ساتھ لائے بلکہ ساتھ ہی لے گئے۔

کسی کے لیے وہ کیمونسٹ دہشت گرد تھے۔ کسی کے لیے بیسویں صدی کی افریقی قوم پرستی کا سب سے بڑا استعارہ۔ کوئی ان کا کردار عرفات، قذافی یا کاسترو سے ان کی دوستی کے ترازو میں تولتا رہا تو کوئی ان کی اس بات پر حیران تھا کہ ایسا شخص برطانوی طرزِ جمہوریت کا اتنا دلدادہ کیسے ہو سکتا ہے؟ یہ کون ہے جو جوانی میں گوری نسل پرستی سے نپٹنے کے لیے مسلح جدوجہد کو ہی واحد راستہ سمجھتا تھا اور جب 27 برس جیل میں گزارنے کے بعد باہر نکلا تو اپنی قیمتی عمر برباد کرنے والے جیلروں کو معاف کر دیا۔

’کسی قوم کے کردار کا پتا اس کی جیلوں میں رہ کر بھی لگ سکتا ہے اور یہ معلوم ہو جاتا ہے کہ کوئی بھی قوم اپنے اعلیٰ و ادنی  انسانوں سے کیسا سلوک کرتی ہے‘۔ ( منڈیلا)

 منڈیلا نے نہ صرف جذبہ انتقام کو سمندر میں پھینک دیا بلکہ رواداری، کھلے پن، عفو و درگزر کی چاندنی پر سچائی کمیشن سجا کے جنوبی افریقہ کے نسلی مجرموں کو اپنے ضمیر کا بوجھ ہلکا کرنے کا راستہ دیا اور سیاہ فاموں سے کہا کہ معاف کردینا مگر بھولنا نہیں۔ یوں جنوبی افریقہ جیسے وسیع ملک کو ایک لاحاصل خانہ جنگی سے بچا لیا۔

’ توڑنا اور تباہ کرنا تو بہت آسان ہے، ہیرو وہ ہے جو جوڑے اور امن پھیلائے‘۔ ( منڈیلا)

منڈیلا کو اس کے کروڑوں مداح  مدیبا ( باپ ) کہہ کے پکارتے تھے۔ مدیبا جب جب بولتا، پورا افریقہ اور مغرب و مشرق تبرکاً سنتا۔ مدیبا کی سیاست اور نظریے پر مارگریٹ تھیچر اور ریگن سے لے کے ونی تک کس کس نے کیا کیا وار نہیں کیا۔ مگر مدیبا جانتا تھا کہ وہ کون ہے اور یہ بھی جانتا تھا کہ اس کو کم از کم اس زندگی میں تو معیاری دشمن نصیب نہ ہوں گے۔

منڈیلا کو جنوبی افریقہ کا بلا شرکتِ غیرے آمر یا منتخب تاحیات صدر بننے سے کون روک سکتا تھا؟ ممکن ہے کہ منڈیلا کو بھی کبھی یہ خیال آیا ہو مگر جب اس نے اپنے براعظم  یا براعظم سے باہر نگاہ دوڑائی ہو تو ہر بونے کو تاحیاتی کی گدی پر بیٹھا دیکھ کے ایسا کوئی خیال ہی دل سے نکال دیا ہو۔

بیلنس شیٹ بہت صاف ہے۔ جب منڈیلا سنہ 1964 میں جیل گیا تو وہ اپنی سیاسی جماعت افریقن نیشنل کانگریس ( اے این سی ) کے مسلح بازو کا سربراہ اور زیرِ زمین کیمونسٹ پارٹی کی سنٹرل کمیٹی کا رکن تھا۔ جب وہ 27 برس کاٹ کے باہر آیا تو وہ دنیا کا سب سے معروف سیاسی قیدی تھا جس نے  اے این سی کے قائد کے طور پر جنوبی افریقہ کی نسل پرست حکومت کے ساتھ پرامن انتقالِ اقتدار کے لیے کامیاب بات چیت کی۔ اپنے نظریاتی دشمن سفید فام صدر ایف ڈبلو ڈی کلرک کے ہمراہ امن کا مشترکہ نوبیل انعام وصول کیا۔ جنوبی افریقہ کی تاریخ میں پہلی بار اکثریتی سیاہ فام منتخب صدر کا حلف اٹھایا۔ 5 برس کی مدت پوری کرنے کے بعد اقتدار کی امانت لوٹا دی اور خود کو منڈیلا ٹرسٹ کے لیے وقف کر دیا۔

اگلے چند برس ایک آزاد شہری کے طور پر عالمی امن اور رواداری کے فروغ  اور افریقی اتحاد کے لیے جو بن پایا کیا۔ منڈیلا کی آواز میں اس قدر اخلاقی وزن تھا کہ کسی بھی عالمی رہنما  کو منڈیلا کا فون جانا اس رہنما کے لیے ایک ’ناقابلِ فراموش واقعہ‘ جیسا تھا۔

اقوامِ متحدہ نے سنہ 2009 میں فیصلہ کیا کہ ہر سال منڈیلا کی سالگرہ 18 جولائی کو عالمی پیمانے پر منائی جائے اور اس روز ہر شخص جو خود کو منڈیلا کا پرستار کہتا ہے ان کی 67 سالہ عملی زندگی کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کے لیے کم از کم 67 منٹ تک کوئی ایسا خیر کا کام کرے جس سے دوسروں کی ذات کو کچھ فائدہ ہو۔

عاصمہ جہانگیر کی منڈیلا  سے ایک ملاقات ہوئی۔

 ’میں سنہ 1994 میں انتخابی عمل دیکھنے والے بین الاقوامی مبصرین میں شامل تھی۔ ہم ہیلی پیڈ پر کھڑے تھے۔ ایک ہیلی کاپٹر اترا۔ اس میں سے نیلسن منڈیلا اترے۔ ہم سب قطار میں تھے۔ مجھے ان سے ہاتھ ملانا تو یاد ہے مگر یہ یاد نہیں کہ انہوں نے مجھ سے 2 منٹ رک کے کیا بات کی تھی۔ آدمی بھلا منڈیلا کو دیکھے یا بات کرے۔ دونوں کام ایک ساتھ تو ممکن نہیں۔ ہوٹل کے کمرے میں پہنچ کے مجھے یاد آیا کہ انہوں نے مجھے ویلکم ٹو فری ساؤتھ افریقہ کہا تھا اور پاکستان کے بارے میں دریافت کیا تھا ۔آج بھی کبھی کبھی میں اپنا ہاتھ  دیکھتی ہوں تو یقین نہیں آتا کہ یہ وہی ہاتھ ہے جس نے منڈیلا سے مصافحہ کیا‘۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

وسعت اللہ خان معروف پاکستانی صحافی، کالم نگار اور تجزیہ کار ہیں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp