پاک افغان تعلقات ایک مرتبہ پھر کشیدہ ہوتے نظر آ رہے ہیں۔ آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے تحریک طالبان پاکستان کے لیے افغانستان کی سرزمین کے استعمال پر مؤثر جوابی کارروائی کی وارننگ دی ہے جب کہ وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے بھی اعتراف کیا ہے کہ افغان مہاجرین کو پاکستان میں بسانے کی اجازت دینا سنگین غلطی تھی۔
خواجہ آصف نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ موجودہ صورتحال نے افغان مہاجرین کو فراہم کی جانے والی سہولیات پر نادم کر دیا ہے، پاکستان اس سے قبل بھی افغان مہاجرین کو پناہ دینے اور میزبانی کے نتائج بھگت چکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی حکومت نے اپنے دور میں 3 لاکھ سے زائد افغانیوں کو پاکستان میں بسا کر سنگین غلطی کی، 5 لاکھ افغان تارکین وطن پہلے ہی سے پاکستان میں موجود تھے۔
وی نیوز نے پاک افغان تعلقات میں کشیدگی پر ماہرین امور خارجہ سے ان کی رائے دریافت کی۔ تجزیہ کاروں کے مطابق افغانستان سنہ 1947 سے پاکستان کی آزادی کے خلاف تھا، افغان طالبان کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی مدد کر رہے ہیں جب کہ بھارت بھی افغانستان کی مالی امداد کر رہا ہے۔ تجزیہ کاروں کی رائے میں افغان حکومت نے امریکا کے ساتھ دوحہ معاہدے میں یقین دہانی کرائی تھی کہ وہ اپنی سرزمین کو کسی ملک کے خلاف استعمال ہونے کی اجازت نہیں دے گی۔
جمیعت علمائے اسلام نے پاکستان اور افغانستان کے درمیان اختلافی بیانات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے مشورہ دیا ہے کہ دونوں برادر اسلامی ممالک افہام و تفہیم کا راستہ اختیار کریں کیوں کہ دونوں کو ہی امن و استحکام کی ضرورت ہے اور حالات کی بہتری کے لیے سیاسی و عسکری سطح پر دونوں ملکوں میں رابطہ ہونا چاہیے۔
وی نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے سابق سفیر ایاز وزیر نے کہا کہ وزیر دفاع خواجہ آصف کے بیان کا تاثر درست نہیں لیا گیا، ان کی بات کا یہ مطلب نہیں کہ پاکستان اپنے پڑوسی برادر ملک کے ساتھ تعلقات خراب کرنا چاہتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ افغان حکومت نے امریکا کے ساتھ دوحہ میں معاہدہ کیا تھا جس میں افغان حکومت نے ذمہ داری لی تھی کہ افغان سرزمین کو کسی ملک کے خلاف استعمال ہونے کی اجازت نہیں دیں گے۔ ہماری حکومت متعدد بار افغان حکومت کو اپنی شکایت درج کرا رہی ہے کہ ان کی سرزمین پاکستان میں حالات خراب کرنے کے لیے استعمال ہو رہی ہے اس کو سنبھال لیں۔
مزید پڑھیں
آرمی چیف جنرل عاصم منیر کے دورہ ایران سے متعلق سوال پر ایاز وزیر نے کہا کہ پاکستان ایران کے ساتھ اپنے تعلقات بہتر کرنا چاہتا ہے لیکن اس کا یہ مطلب قطعی نہیں کہ پاکستان کے افغانستان کے ساتھ تعلقات کشیدہ ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ایران اس خطے کا ایک اہم ملک ہے اور پاکستان اس کے ساتھ تجارتی، سیاسی اقتصادی اور عسکری تعلقات کو بڑھانا چاہتا ہے، حال ہی میں وزیر اعظم نے ایرانی صدر سے ملاقات کر کہ بارڈر پر تجارت کے آغاز کا باقاعدہ افتتاح بھی کیا ہے جب کہ پاکستان کے آرمی چیف اور ایرانی فوج کے سربراہ کی بھی ملاقات ہوئی ہے جس میں پاک ایران بارڈر کے حوالے سے خدشات کو دور کیا گیا ہے، یہ سب خوش آئند ہے اور پاکستان کو اس کی ضرورت ہے۔
سابق سفیر و ماہر امور خارجہ ظفر ہلالی نے وی نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان شروع سے ہی پاکستان کا دشمن ہے، سنہ 1947 میں اقوام متحدہ میں افغانستان نے کہا کہ ہم نہیں چاہتے کہ پاکستان آزاد ہو، افغانستان آج بھی کہتا ہے کہ افغانستان کی سرحدی حدود اٹک تک ہے۔ ظفر ہلالی کا کہنا تھا کہ امریکا نے جب افغانستان پر حملہ کیا تو پاکستان نے افغان مہاجرین کو پناہ دی لیکن اس کے بدلے میں انہوں نے آج تک پاکستانیوں کے لیے دل اور زبان پر نفرت رکھی ہوئی ہے۔
ظفر ہلالی نے کہا کہ پاکستان میں ٹی ٹی پی نے لاکھوں مسلمانوں کو قتل کیا ہے اور اس سے زیادہ نقصان کسی دشمن نے نہیں پہنچایا، تاہم آج بھی افغان طالبان ٹی ٹی پی کو تحفظ فراہم کر رہے ہیں اور ا کی مالی اعانت بھی کر رہے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس کے علاوہ ہندوستان بھی افغانستان کی مالی مدد کر رہا ہے، اس نے افغان پارلیمنٹ کو بنایا اور افغانستان نے ہندوستان کے ساتھ مل کر پاکستان کے خلاف سازش کی جب کہ اب امریکا بھی ٹی ٹی پی کو استعمال کرے گا۔
ظفر ہلالی کا کہنا تھا کہ عمران خان کا افغان طالبان کی سپورٹ کرنا بہت غلط تھا، جن لوگوں کو واپس پاکستان لایا گیا انہوں نے ہی دوبارہ ملک میں دہشت گردی کی فضا قائم کی۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ٹی ٹی پی والے ہمارے لوگوں کو قتل کر کے مٹھائی تقسیم کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان حکومت کو چاہیے کہ وہ افغانستان کے خلاف اعلان جنگ نہ کرے لیکن دہشت گردوں کو سخت سے سخت جواب دے۔