اسلام آباد کی ایک خوش گوار شام پارک کی طرف واک کے لیے نکلا۔ فون کی گھنٹی بجی ،کال اٹینڈ کی تو دوسری طرف کسی خاتون نے مترنم آواز میں اپنا تعارف کروایا کہ میں سیّاں چوہدری بات کر رہی ہوں۔
جواب دیا کہ خوش قسمتی ہے کہ آپ فون کر رہی ہیں۔ اسی کی دہائی کے پہلے برس یاد آگئے جب، نانا جی بڑے سے گدیلے سے ٹیک لگا کر پلنگ پر بیٹھک یا موسم کی مناسبت سے چارپائی پر صحن میں ویسے ہی ٹیک لگا کر بیٹھے ہوتے اور ساتھ تپائی پر ریڈیو بج رہا ہوتا ۔ صبح دینی پروگرام حیّ الفلاح سے لے کر رات دیہاتی بھائیوں کے پروگرام سوہنی دھرتی ، بی بی سی ورلڈ سروس اور آل انڈیا ریڈیو کی اردو سروس تک روز کئی طرح کے پروگرام سُننے کو ملتے۔ ریڈیو پاکستان سے اکثر سیّاں چوہدری جی کا نام سُننے کو ملتا ۔ ان کا نام حافظے کا مسلسل حصہ بن چکا ہے۔
بعد ازاں رضیہ بیگم سیّاں چوہدری سے رابطہ ایک ذاتی تعلق میں بدل گیا ۔ ایک سال وہ اسلام آباد تشریف لائیں تو ایک عرصے بعد انھوں نے اپنا پہلا انٹرویو مجھے ریکارڈ کروایامگر بد قسمتی سے وہ انٹرویو بوجوہ ضائع ہوگیا مگر کمال مہربانی اور اپنائیت کہ وہ پھر تشریف لائیں تو ان کا طویل انٹرویو ، یو ٹیوب کے لئے ریکارڈ کیا جسے ہزاروں ان کے چاہنے والے دیکھ چُکے ہیں ۔ میں حیران رہ گیا کہ کتنے ہی مشہور و معروف گانے ، غزلیں اور فوک گیت وہ گا چُکی ہیں۔ کیا ہی پُختہ ،سُریلی اور سیکھی ہوئی آواز کی وہ مالک رہی ہیں۔اپنی ہم عصر گلو کاراؤں جیسے ملکہِ ترنم نور جہاں ،فریدہ خانم کے ہوتے ہوئے انھوں نے اپنا ایک نام اور مقام بنایا۔ شام چوراسی گھرانے کے استاد سلامت علی خان کی شاگرد سیّاں چوہدری کے کریڈٹ پر بہت سے مشہور میوزک آئٹمز ہیں ۔
لازم نہیں کہ اسے بھی میرا خیال ہو
اطہر تم نے عشق کیا تھا
رویا کریں گے پہروں آپ بھی
میری آواز پیا ر کا ساز
یہ کیا کہ اک جہا ں کو کرو ،وقفِ اضطراب
وہ رات کب آئے گی
اک پرچھانون وانگوں
کیوں رُٹھا رُٹھا رہندا
ونگاں دی چھن چھن سُن لے
نی لے دے مائے کالیاں باغاں دی مہندی
میرے پیار دا گہنا دیس میرا
کوئی روہی یاد کریندی
یاد آتا ہے روز و شب کوئی
رات کے سناٹے میں ہم نے کیا کیا دھوکے کھائے ہیں
کُکڑا دھمی دیا
پھر اسی طرح کچھ مشہور آئٹم ایسے ہیں جو سیّاں چوہدری نے گائے اور بعد ازاں دوسرے بڑے گلو کاراؤں نے گائے جیسے۔ لُطف وہ عشق میں پائے ہیں پہلے سیّاں چوہدری نے گایا بعد ازاں نور جہاں نے بھی یہی آئٹم گایا۔اسی طرح پھر ساون رُت کی پوّن چلی سیّاں چوہدری کے بعد نیرہ نور نے اکیلے جب کہ غلام علی اور آشا بھونسلے نے ایک ساتھ گایا۔ غم ہے یا خوشی ہے تو بھی پہلے سیّاں جی اور بعد ازاں استاد نصرت فتح علی خان نے جدید سازوں کے ساتھ گایا۔

اسی طرح سیّاں چوہدری کا ایک اور گایا ہوا گیت بھارت میں کمار سانو اور آشا بھونسلے نے بھی فلم کے لئے گایا۔ اس گیت کے بول ہی میری وفائیں یاد کرو گے سیّاں چوہدری نے منیر نیازی، صوفی تبسم، اطہر نفیس،ناصر کاظمی،قائم چاند پوری،نظیر اکبر آبادی،داغ دہلوی،مرزا رفیع سؤداء جیسے شاعروں کلام گایا ۔ اپنے عہد کے بڑے موسیقاروں ، میاں شہر یار، ماسٹر منظور ،استاد نذر حسین ،سلیم حیدر،بخشی وزیر ،ایم اشرف اور وزیر افضل جیسے موسیقاروں کی ترتیب دی ہوئی دھنوں کو نہائت سہولت سے گایا۔
بد قسمتی یہ ہے کہ کئی ایسے لوگوں کو قومی ایوارڈز مل چُکے ہیں جن کو محض خود اپنی یا ان کے گھر والوں کو ان کی قابلِ فخر کارکردگی کا علم ہے مگر سیّاں چوہدری جیسی بڑی گلو کارہ کو ابھی تک کوئی قومی ایوارڈ نہیں مل سکا حالاں کہ رضیہ بیگم سیّاں کا نام تمغہ برائے حُسنِ کارکردگی کے لیےمسلسل دو برسوں سے وزارتِ اطلاعات و نشریات کو بھیجا جا رہا ہے۔
ہر سال جب بھی 14 اگست کو ریاستِ پاکستان کی طرف سے قومی ایوارڈ کا اعلان ہوتا ہے تو ان پر شور غوغا ضرور اُٹھتا ہے۔ کچھ لوگوں کے حوالے سے مبارک سلامت کی صدائیں بلند ہوتیں ہیں تو کچھ پر اعترا ضات کی پو چھاڑ ۔ یہی مشق دوبارہ تب ہوتی ہے جب 23 مارچ کو یہ ا یوارڈز دیے جاتے ہیں۔ کوئی بھی ایوارڈ تبھی قابلِ فخر اور لائقِ تحسین ہوتا ہے جب وہ حق دار کو ملے ، نہ کہ ایوارڈ لینے والا خود بتاتا پھرے کہ میں نے فلاں وقت پر فلاں تیر مارا تھا۔
ویسے تو ایسے بے شمار قابل اور حق دار لوگ ہیں جنھیں ریاست نے پوچھا تک نہیں مگر دو ایسے بڑے فن کار جن کو اگر کوئی قومی ایوارڈ دیا جاتا تو اس اعزاز کی عزت و توقیر میں اضافہ ہوتا ہے۔ ایک تو اپنے وقت کے بہت بڑے کلارنٹ نواز استاد مانڈو خاں کے فرزند استاد غلام حیدر خان تھے۔ جو استاد نصرت فتح علی خاں کے بھی استاد تھے۔ ریڈیو پاکستان لاہور کے ڈپٹی کنٹرولر سلیم بزمی خود بھی موسیقی کے بہت جاننے والے ہیں ۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ استاد غلام حیدر خاں صاحب کو جب نصرت فتح علی خاں کا استاد کہا جاتا تھا تو اس بات کا برا مناتے تھے۔
موسیقی کے گھرانوں میں عمومی طور پر ایک رواج یہ بھی تھا کہ استاد صاحبان اپنے بچوں کو کسی دوسرے اہلِ علم کی شاگردی کرواتے تھے تاکہ بچے کا علم متنوع ہو اور وہ موسیقی کے میدان کا شاہ سوار بن سکے۔ استاد غلام حیدر خاں بھی نصرت فتح علی خاں کے والد استاد فتح علی خان کے شاگرد تھے، نصرت اس وقت میٹرک میں تھے جب والد کا انتقال ہوگیا۔ استاد فتح علی خان خود قوال گھرانے سے تھے مگر کلاسیکی موسیقی کے بہت بڑے شناور تھے. بڑے غلام علی خان بھی ان سے فیض یاب ہوتے رہے۔
استاد غلام حیدر خاں نے نصرت فتح علی خاں کو ڈیڑھ سو راگ یاد کروائے۔ وہ کہا کرتے تھے کہ یہ میرے پاس اسی گھر کی امانت تھی جو میں نے اپنے استاد سے سیکھا وہی ان کے بیٹے کو سکھا دیا لہذا میں نے امانت واپس کی ہے۔ میں اس گھر کا استاد نہیں شاگرد ہوں اس لئے میں وہ اپنے آپ کو نصرت فتح علی خاں کا استاد نہیں مانتے تھے۔

وہ آخری عمر تک ریڈیو پاکستان میں فیض احمد فیض کے بنائے ہوئے میوزک ریسرچ سیل میں کام کرتے رہے۔ ان کی بہت معروف کتاب ہے معارف النغمات جس میں انھوں نے 32 ٹھاٹھ کا نظامِ موسیقی متعارف کروایا۔ سلیم بزمی کہتے ہیں کہ وہ کہا کرتے تھے کہ جو کوئی بھی 33 ٹھاٹھ مجھے بتائے گا میں اس کا شاگرد ہو جاؤں گا۔
استاد غلام حیدر خاں خود بھی بہت اعلیٰ گویّے تھے گو کہ ان کی آواز تھوڑی کھُردری تھی لیکن وہ موسیقی کے بہت بڑے عالم تھے۔ انھوں نے علمِ موسیقی پر کئی مختصر کُتب بھی لکھیں ۔ وہ انگریزی میں کئی اخبارات میں سلسلہ وار کالم بھی لکھتے رہے۔اپنے طور اپنی سی کوشش بھی کرتا رہا ۔ دو تین مرتبہ ان کا کیس قومی ایوارڈ کے لئے وزاتِ اطلاعات و نشریات میں جاتا رہا مگر افسوس انھیں کسی ایوارڈ کا مستحق نہ سمجھا گیا۔
اسی طرح ایک اور بہت بڑا نام موسیقار رفیق حسین کا ہے جس نے بہت عمدہ کام کیا مگر کسی قومی ایوارڈ کے بغیر ہی استاد غلام حیدر خاں کی طرح اس دنیا سے رُخصت ہوگیا۔ نہ جانے کب ہم اپنے لوگوں کے کام کو سراہنا سیکھیں گے۔ اپنے لوگوں کی خدمات کا اعتراف دراصل اپنی عزت کرنا ہے ۔ جو لوگ اپنی عزت نہیں کرتے ان کی عزت کا خیال کوئی دوسرا بھی نہیں کرتا۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔