اسرائیل نے مغربی صحارا کے متنازعہ علاقے پر مراکش کی خودمختاری تسلیم کر لی ہے، جبکہ مراکش نے بھی 2020 میں امریکا کی ثالثی میں ہونے والے معاہدے پر عمل درآمد کرتے ہوئے اسرائیل کی حیثیت کو تسلیم کر لیا ہے۔
مراکش کے شاہی محل نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ اسرائیل کی جانب سے مغربی صحارا پر مراکش کی خود مختاری کو تسلیم کرنے کا اظہار اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کی جانب سے مراکش کے شاہ محمد ششم کو لکھے گئے ایک خط میں کیا گیا ہے۔
معروف عرب ٹیلی ویژن چینل الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق مراکش کے پاس اس علاقے کا کنٹرول ہے، لیکن 1975 سے، ہسپانوی نوآبادیاتی حکومت کے خاتمے کے بعد سے اس علاقے کو بہت کم بین الاقوامی شناخت حاصل ہے۔
الجزائر کی حمایت یافتہ پولساریو فرنٹ مغربی صحارا میں ایک آزاد ریاست کا مطالبہ کر رہی ہے جبکہ 2020 میں اس وقت کے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مراکش کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات میں توسیع کے بدلے اس علاقے پر مراکش کے دعوے کو تسلیم کیا تھا۔
مراکش کے شاہی محل کے بیان میں خط کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اسرائیل کا مؤقف اقوام متحدہ، علاقائی اور بین الاقوامی اداروں کو بھیجا جائے گا اور ساتھ ہی ان تمام ریاستوں کو بھیجا جائے گا جن کے ساتھ اسرائیل کے سفارتی تعلقات ہیں۔
مراکش کے شاہی بیان کے مطابق اسرائیل مغربی صحارا کے شہر دخلا میں اپنا قونصل خانہ کھولنے جا رہا ہے جبکہ اس سے قبل 28 افریقی اورعرب ممالک نے دخلا میں اپنے قونصل خانے کھول رکھے ہیں جو اس علاقے میں مراکش کی خود مختاری پر یقین رکھتے ہیں۔
مزید پڑھیں
مراکش کے ایک سرکاری عہدے دیدار نے کہا کہ اسرائیل کی اس علاقے کے حوالے سے پوزیشن واضح ہے، جو مراکش کے حق میں ہے، اسرائیل کی جانب سے مغربی صحارا کو مراکش کا حصہ تسلیم کرنے اور مراکش کی اسرائیل کے ساتھ تعلقات میں توسیع، اسرائیل فلسطین تنازع پر مراکش کے موقف پر اثر انداز نہیں ہوگی۔
واضح رہے کہ 2020 میں، مراکش نے امریکا کی ثالثی میں ہونے والے معاہدے میں اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے پر اتفاق کیا تھا۔ معاہدے کے دوسرے حصے میں ٹرمپ نے مغربی صحارا پر مراکش کی خودمختاری کو تسلیم کرنے پر اتفاق کیا تھا۔
مراکش اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے حوالے سے معاہدہ کرنے والا چوتھا ملک بن گیا ہے۔ اس سے پہلے اسرائیل کو تسلیم کرنے والے ممالک متحدہ عرب امارات، بحرین اور سوڈان تھے۔
دوسری طرف فلسطینیوں نے اس معاہدے پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ عرب ممالک نے ہمارے دیرینہ مطالبے کو ترک کرکے خطے میں امن و امان کی صورت حال کو بالائے طاق رکھ دیا ہے، تمام ممالک اپنے مفاد کے لیے فلسطین میں اسرائیل کے غیر قانونی قبضے کو تسلیم کرتے ہوئے اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو فروغ دے رہے ہیں۔