انسانی ناک سانس لینے اور کسی چیز کو سونگھنے کے کام آتی ہے، لیکن ’الیکٹرانک ناک‘ کہی جانے والی انسانی ایجاد اب آگ سے ہونے والی تباہی روکنے میں بھی مدد کرے گی۔
جرمنی کے ایک ایسے علاقے میں الیکٹرانک ’ناک‘ کا تجربہ کیا جا رہا ہے جہاں کے جنگلوں میں آگ لگنے کے واقعات زیادہ پیش آتے ہیں۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق برینڈن برگ میں ایسے سینسرز کا تجربہ کیا جا رہا ہے جو جنگل میں آگ لگنے کے چند منٹ میں ہی اس سے پیدا ہونے والے دھویں کی مدد سے معاملے کی نشاندہی کر سکتے ہیں۔
ایک اسٹارٹ اپ نے اپنی ’الیکٹرانک ناک‘ کو پرکھنے کے لیے برینڈن برگ قصبے کے اردگرد جنگل میں سینکڑوں سینسرز لگائے ہیں۔
یہ الیکٹرانک ناک آگ لگنے کی صورت میں فوری طور پر متعلقہ ڈیٹا کلاؤڈ اسٹوریج بھیجتی ہے جہاں سے اسے امدادی اداروں تک اطلاع کی صورت میں بھیج دیا جاتا ہے۔
برینڈن برگ میں جنگل کو آگ سے بچانے کی ذمہ داری پر فائز افسر ریمنڈ اینجل کے مطابق وہ ان سینسرز کو جنگل میں لگنے والی آگ کو بروقت دیکھ سکنے کا مفید ٹول سمجھتے ہیں۔
ڈرائیڈ نیٹ ورک نامی اسٹارٹ اپ کے شریک پانی جرگن ملر کے مطابق ’ان سینسرز کا اہم فائدہ بالکل ابتدا میں ہی آگ کا اندازہ کرنا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم ابتدائی 10 تا 15 منٹ میں ہی آگ لگ کر پھیلنے سے پہلے باخبر ہو سکتے ہیں۔ نتیجتا ہم فوری طور پر اسے بجھانے کی کوشش کر سکتے ہیں۔‘
اس سے قبل جنگل میں 105 ٹاورز کے بالائی حصوں میں 360 ڈگری گھومنے والے کیمرے نصب کیے گئے ہیں جو اردگرد کے ان مناظر کو دیکھتے ہیں جنہیں ماضی میں انسانی آنکھ دیکھا کرتی تھی۔
جنگل کو آگ سے محفوظ رکھنے کے لیے بنائے گئے مرکز میں ان کیمروں اور سینسرز کی مانیٹرنگ کی جاتی ہے جو کسی بھی جگہ ایسی سرگرمی کو بروقت دیکھ کر اس کے تدارک کا موقع دیتی ہے۔