’حلیم عادل شیخ وزیر اعلیٰ سندھ سے رابطے میں ہیں‘

منگل 18 جولائی 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

پاکستان تحریک انصاف سندھ کے میڈیا ہیڈ اور کونسل ممبر عزیر احمد صدیقی مخصوص نشست پر منتخب ہوئے تھے جنہیں اب پی ٹی آئی سے نکال دیا گیا ہے۔ وی نیوز کو انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے اس معاملے پر تفصیل سے روشنی ڈالی۔

وہ کہتے ہیں کہ ہر کسی کے ساتھ مسائل رہے ہیں پی ٹی آئی قیادت سے بھی اگر پوچھا جائے یا 62 کونسل ممبران سے پوچھا جائے تو کوئی یہ نہیں کہے گا کہ میں گھر پر سویا صبح اٹھا اور سٹی کونسل پہنچا ایسا نہیں تھا سب کہیں نہ کہیں کسی نہ کسی کے گھر پر رکے ہوئے تھے۔ 9 مئی کے بعد سب کے ساتھ کچھ نہ کچھ ہوا کوئی گھر پر نہیں تھا موبائل فون بند تھے کوئی شہر سے باہر تھا۔ جو لوگ میئر اور ڈپٹی میئر کے انتخاب والے دن پہنچ سکے وہ پارٹی کے وفادار کہلائے اور جو کسی وجہ سے نہیں پہنچ سکے پریشر میں آگئے اٹھا لیا گیا یا کچھ نے مرضی سے بھی ووٹ نہیں دیا ہوگا لیکن سب کو ایک ترازو میں تولنا مناسب بات نہیں ہے۔

پی ٹی آئی کے اندر سے ہی سازش کی بو آنے لگی

انتخاب سے ایک روز قبل میرا نمبر بند تھا اہل خانہ سے رابطہ نہیں ہو پا رہا تھا، رات تک میری بیگم نے انتظار کیا پھر خاندان کے دیگر افراد کو آگاہ کیا گیا جب کچھ پتہ نہ چل سکا تو پی ٹی آئی کے لوگوں سے جب رابطہ کیا گیا تو انہوں نے پہلے تو کہا کہ ہم ڈھونڈ رہے ہیں، میئر کے انتخاب کی رات کچھ لوگوں نے میری بیگم کو کہا کہ عزیر محفوظ ہے اور ہمارے لوگوں کے پاس ہے اور ووٹ ڈالنے آئے گا ان باتوں کے ثبوت بھی ہمارے پاس موجود ہیں۔ جب میں اگلے دن ووٹ ڈالنے نہیں پہنچا تو میری بیگم کو کہا گیا کہ میں جماعت اسلامی کے کسی بندے کے ساتھ تھا اور رات میں نکل چکا تھا ان کے پاس سے جبکہ اس طرح سے تو کوئی معاملہ ہی نہیں تھا میں نہ جماعت اسلامی کے کسی بندے کے ساتھ تھا اور نہ ہی کسی پی ٹی آئی والے کے۔ میں کسی کو الزام نہیں دیتا لیکن پارٹی کو شوکاز کے جواب میں میں وہ نام بھی ظاہر کیے ہوئے ہیں۔ لیکن ان سے اس قسم کے سوال کیے گئے نہ ہی ہم سے کیے گئے۔

فارورڈ بلاک میں بیٹھ کر بحیثیت کونسل ممبر پارٹی موقف پیش کریں گے

فارورڈ بلاک سے ابھی میری کوئی ملاقات نہیں ہوئی میں نے اپنے شوکاز کے جواب میں لکھا ہے کہ میں کسی فاردورڈ بلاک کا حصہ نہیں ہوں۔ جن لوگوں کو جبری طور پر پارٹی سے نکالا گیا ہے وہ سب ایک کشتی کے سوار ہیں اور میں سمجھتا ہوں کہ مجھے ان کے ساتھ بیٹھنا چاہیے کیوں کہ ہم کونسل ممبر ہیں اور پارٹی کی بات تو کریں گے۔

میں حلیم عادل شیخ اور اسکروٹنی کمیٹی سے مطمئن نہیں

ہم پی ٹی آئی سندھ کی پوری قیادت سے مطمئین نہیں ہیں، چاہے وہ اسکروٹنی کمیٹی ہو چاہے وہ حلیم عادل شیخ ہوں کیوں کہ 14 مئی کی رات سے آج تک مجھ سے تو پارٹی کے کسی فرد نے رابطہ ہی نہیں کیا سوائے کچھ لوگوں کےجن میں فردوس شمیم نقوی بھی شامل ہیں اور ان کے میرے لیے ادا کیے گئے الفاظ میرے لیے باعث فخر تھے۔ میں نے اس پارٹی کو 11 سال دیے ہیں۔ فردوس شمیم نقوی نے کہا کہ پارٹی میں بہت کم لوگوں پر اعتماد کیا جا سکتا ہے اور میں نہیں سمجھتا کہ تم نے کوئی غلط کام کیا ہوگا کیوں کہ میں 16 17 سال کا تھا کہ تب سے پی ٹی آئی کا حصہ بنا۔

اس وقت پی ٹی آئی سندھ کو باہر سے مشکلات ہیں اتنی ہی پارٹی کے  اندر کے لوگوں سے برباد ہو چکی ہے۔

حلیم عادل شیخ وزیر اعلیٰ سندھ سے رابطے میں ہیں

حلیم عادل شیخ وزیر اعلیٰ سندھ کو خطوط لکھ رہے ہیں کہ اپوزیشن لیڈرکے لیے ایم کیو ایم تک نہ جائیں مجھ سے ہی بات کر لیں اب دیکھتے ہیں کہ سندھ حکومت ان سے بات کرنا پسند کرتی ہے یا نہیں کرتی لیکن معاملات جس طرح چل رہے ہیں لگتا نہیں ہے کہ اسمبلی کی اپوزیشن کی سیٹ پی ٹی آئی کے پاس رہ پائے گی۔ قیادت سے کوئی بعید نہیں سندھ حکومت سے ڈیل بھی ہو سکتی ہے۔

میئر کراچی کے لیے عمران خان کے امیدوار کو جیتنا چاہیے تھا

جب قیادت خود نہیں کھڑی ہو سکتی تو وہ اپنے لوگوں کو بھی مشکل میں نہ ڈالے کہ آپ جائیں اور ووٹ کریں نا میئر پی ٹی آئی کا تھا نہ ہی ڈپٹی میئر، چلیں میئر ہمارے چیئرمین کا امیدوار تھا اس کو جیتنا چاہیے تھا لیکن ڈپٹی میئر کے لیے کس نے ہاتھ روکے ہوئے تھے بہت سے لوگوں کا اس معاملے پر اعتراض  تھا، جب ہم کچھ بھی نہیں لے رہے تو ہمیں اس مشکل میں ڈالا کیوں جا رہا ہے۔ چلیں ٹھیک ہے آپ نے پیپلز پارٹی کو ہرانا تھا لیکن اس وقت آپ کہاں کھڑے ہیں کہیں بھی نہیں کھڑے۔

عمران خان بہت جلد لوگوں پر اعتبار کر لیتے ہیں

عمران خان بہت جلدی لوگوں پر یقین کر لیتے ہیں۔ فرودوس شمیم نقوی نے میرے حوالے سے خان صاحب سے رابطہ کیا ہے لیکن اس بات کو بھی غلط تناظر میں لیا جا رہا ہے۔ اتنے مشکل حالات میں بھی اگر ہم اس طرح فیصلے کریں گے کہ یہ اس کا بندہ ہے اسے نکال دو تو  یہ تو تباہی ہے۔

میرے دل میں شکوک وشہبات آتے رہیں گے کہ کیا پی ٹی آئی کی قیادت ملوث تھی کیا پی ٹی آئی کے لوگ ملوث تھے جب تک مجھے جواب نہیں ملیں گے میں نے شوکاز کے جواب میں یہ پوچھنے کی کوشش بھی کو صوبائی سطح کی قیادت تک پہنچا بھی کوئی سوال جواب نہیں ہوا میں سمجھتا تھا ہماری قیادت چھپی ہے تو شاید زوم یا اسکائپ پر بات کرلیں گے کسی کا فون آجائے گا مجھ سے تفصیل لے لی جائے گی فون تو نہیں آیا لیکن ایک نوٹیفیکیشن آیا کہ ہم آپ کو پارٹی سے نکالتے ہیں۔

علی زیدی اب بھی پی ٹی آئی کی ہی باتیں کرتے ہیں

ابھی تک واضع نہیں کہ کس نے مجھے اٹھایا، پی ٹی آئی کے ورکر چارجڈ ہیں جذباتی ہیں اور اتنے جذباتی ہیں کہ میرے حوالے سے بنا تحقیق کے فیس بک پروفائل پر الٹی سیدھی باتیں لکھنا شروع کردی تھیں نام سے کوئی فرق نہیں پڑتا برینڈ ہے عمران خان نام ہے عمران خان کا وہ آزاد بھی آتے ہیں کوئی فرق نہیں پڑے گا پی ٹی آئی کا کھمبا ووٹ ہے۔

علی زیدی میرے رابطے میں ہیں وہ میرے بہت قریب ہیں میری ان سے بات چیت ہوتی رہتی ہے۔ پی ٹی آئی کے حوالے سے ہی بات چیت ہوتی ہے ابھی تک ذہن یہ تسلیم ہی نہیں کر رہا کہ وہ پی ٹی آئی چھوڑ چکے ہیں۔

میری پارٹی وفاداری کسی ایک کاغذ کی محتاج نہیں

میری عمر ہے 27 سال ہے اور 11 سال پی ٹی آئی کو دیے ہیں میری پی ٹی آئی سے وفاداری کسی ایک کاغذ کی محتاج نہیں کہ آپ مجھے پی ٹی آئی سے نکالیں گے اور میں نکل جاؤں گا میرا دل و دماغ اس چیز کو ماننے کو تیار نہیں ہے انتظار کریں گے بیٹھیں گے کوئی اصل قیادت سندھ میں آئے گی تو ہم بھی بحال ہو جائیں گے۔

پی ٹی آئی کی ہر وکٹ گرنے سے جذبہ مزید بڑھتا ہے

پی ٹی آئی کی ہر وکٹ گرنے سے جذبہ بڑھتا جاتا تھا یقین ہوتا تھا کہ کوئی تو سچائی ہے اس بندے میں کہ اسے گرانے کے لیے لوگ کیا کیا کر رہے ہیں جو چلے گئے ان میں سے بھی بہت سارے لوگ واپس آجائیں گے۔ 9 مئی کے واقعات میں سب ملوث نہیں تھے ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ چند لوگوں کی سزا پوری جماعت کو دی جائے۔

ہماری طرح سندھ اسمبلی کے اپوزیسن لیڈر کے انتخاب میں نہ آنے والوں کو بھی برطرف کیا جائے

اگر سزا و جزا کی بات پارٹی میں ہو رہی ہے تو پھر تقاضے سب کے لیے ایک جیسے ہونے چاہیں، سندھ اسمبلی میں بجٹ کا پورا سیشن گزر چکا جو پارٹی چھوڑ چکے ان کے علاوہ پی ٹی آئی کا کوئی شریک نہیں ہوا۔ جیسے سٹی کونسل میں 32 ارکان نہیں پہنچے وہ غدار ہوگئے تو میرے خیال سے انہیں سندھ اسمبلی آکر اپنی وفاداری دکھانی چاہیے، سندھ اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر کے انتخاب کے لیے ووٹنگ ہوگی میں سمجھتا ہوں اس عمل میں جو شریک نہیں ہوتا اسے پارٹی سے نکالا جائے تا کہ انصاف کے تقاضے سب کے لیے ایک جیسے ہونے چاہیں، اگر سندھ کی قیادت ایسا نہیں کرتی تو میرا خان صاحب سے مطالبہ ہے کہ اس انتخاب میں عدم شرکت پر ارکان کو برطرف کرنا چاہیے۔

اس پارٹی کے لیے جیب سے پیسے خرچ کیے

میئر انتخاب کے بعد مجھ پر الزام لگا کہ میں تو پارٹی کا پیڈ امپلائی تھا اور پارٹی سے غداری کی 11 سال دیے پارٹی کو جتنا مجھے پارٹی دیتی اس سے زیادہ میں اس گھر کا کرایا دے رہا ہوں۔ میں اپنے کام کی وجہ سے میڈیا سیل چھوڑ چکا تھا پارٹی کا مطالبہ تھا کہ میں اپنا پورا وقت دوں اور ہم بارہ بارہ گھنٹے کام کرتے تھے، میں لیاقت آباد ٹاؤن کا صدر رہنے کے علاوہ مختلف عہدوں پر رہا ہوں اور میں نے جیب سے پیسے لگائے بھی ہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp