سائفر معاملہ: جرم ثابت ہوا تو عمران خان کو 14 سال قید کی سزا ہو سکتی ہے، وفاقی وزیر قانون

جمعرات 20 جولائی 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا ہے کہ چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان نے ’سائفر‘متعلقہ ادارے کو واپس نہیں کیا، سائفر ایک جلسے میں لہرایا گیا ۔ قومی سلامتی کو پسِ پشت ڈال کر سائفر کو بے دریغ استعمال کیا گیا۔ کلاسیفائیڈ ڈاکومینٹ پبلک کرنے پر جرم ثابت ہوا تو 14 سال قید کی سزا ہو سکتی ہے۔

جمعرات کو پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیر قانون نے کہا کہ آفیشل سیکریٹ ایکٹ کی کارروائی کے لیے وفاقی حکومت کی اجازت ضروری ہے۔ سائفر سے متعلق سارا معاملہ وفاقی تحقیقاتی ایجنسی ایف آئی اے کو بجھوا دیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان تحریک انصاف ( پی ٹی آئی ) کے چیئرمین عمران خان نے ملکی سلامتی اور قومی مفاد کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ چیئرمین پی ٹی آئی نے سائفر متعلقہ ادارے کو واپس نہیں کیا۔ وفاقی تحقیقاتی ایجنسی ( ایف آئی اے ) نے جب چیئرمین پی ٹی آئی کو طلب کیا تو وہ لاہور ہائیکورٹ چلے گئے۔ اعظم خان کے بیان سے واضح ہو چکاہے کہ عمران خان سائفر کو کن مقاصد کے لیے استعمال کرنا چاہتے تھے۔

انہوں نے کہا کہ ’سائفر‘ پبلک کیا جا سکتا ہے نا کسی کے ساتھ شیئر کیا جا سکتا ہے۔ سائفر کو اس وقت کے وزیر اعظم (عمران خان) نے غیر قانونی طور پر اپنی تحویل میں لیا، پھر اسے ملکی سلامتی اور قومی مفاد کے خلاف استعمال کیا ۔ سائفر کی زبان اسی لیے کوڈ میں ہوتی ہے کہ اسے کوئی اور استعمال نہ کر سکے۔ لیکن چیئرمین پاکستان تحریک انصاف ( پی ٹی آئی) نے اسے جلسے میں سرعام لہرایا۔

عمران خان کے پرنسپل سیکرٹری اعظم خان کے بیان کے بعد سارا معاملہ واضح ہو چکا ہے ۔ اس بیان کے بعد سائفر کی تحقیقات کے لیے وفاقی تحقیقاتی ایجنسی ( ایف آئی اے ) نے پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کو 25 جولائی کو طلب کر لیا ہے۔ حکومت نے بھی ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے سائفر کو وفاقتی تحقیقاتی ایجنسی ( ایف آئی اے) کو بھیجا۔ کیوں کہ آفیشل سیکریٹ ایکٹ کی کارروائی کے لیے وفاقی حکومت کی اجازت ضروری ہے۔

انہوں نے کہا کہ عمران خان نے قومی سلامتی کو پس پشت ڈال کر سائفر کا بے دریغ استعمال کیا۔ اب چیئرمین تحریک انصاف کے بیان کے بعد فیصلہ کیا جائے گا کہ اس معاملے پر تحقیقات آگے کیسے بڑھائی جائیں۔

عمران خان نے عدم اعتماد کی تحریک کے بعد غیر قانونی طور پر آرٹیکل 95 کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ملک کا ایوان بھی تحلیل کیا۔ اس آئین شکنی کے خلاف بھی اس وقت کی اپوزیشن نے عدالت عظمیٰ  سے رجوع کیا۔ اس کے بعد عدالت کے ذریعے اسمبلی کو بحال کیا گیا۔

حکومت نے سائفر کے معاملے میں قانونی اخلاقی ذمہ داریاں پوری کی ہیں اور یہ معاملہ ملک کی مجاز اتھارٹی ایف آئی اے کے حوالے کیا ہے۔ اب سائفر کے معاملے پر گواہ بھی سامنے آ گئے ہیں، عمران خان کے اس وقت کے پرنسپل سیکرٹری اعظم خان کے بیان کے مندرجات بھی منظر عام پر آ گئے ہیں۔

آفیشل سیکریٹ ایکٹ کی شقوں اور دفعات کی سیکشن 3 اور 5 کو سامنے رکھتے ہوئے، سیکشن 5 کی کلاز اے اور بی اور پھر سب سیکشن 3 کو سامنے رکھتے ہوئے ایف آئی اے یہ فیصلہ کرے گی اور پھر مقدمہ آگے بڑھے گا۔

اس سارے کھیل میں ملک کی ساکھ کو متاثر کرنے کی کوشش کی گئی، کس طرح ہمارے ایک دوست ملک کے ساتھ تعلقات کو خراب کرنے کی کوشش کی گئی۔ اس کی وجہ سے ہمارے کئی کثیر الجہتی دو طرفہ معاہدے اور ان سے جڑی ہوئی چیزیں متاثر ہوئیں۔

حکومت کا یہ فیصلہ ہے کہ اس معاملے پر تحقیقات مکمل میرٹ پر قانون کے مطابق غیر جانبدارانہ ہوں گی۔ تفتیش بھی میرٹ پر ہو گی۔ اس کے بعد مقدمہ عدالتوں میں بھی جا سکتا ہے جہاں حتمی فیصلہ ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ کی جانب سے کیا جا سکتا ہے۔

آفیشل سیکریٹ ایکٹ کے تحت سزاؤں سے متعلق پوچھے گئے سوال کے جواب میں اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ اس میں دو طرح کی سزائیں ہیں ایک غیر دانستہ طور پر اگر آپ سے غفلت ہو جائے یعنی آپ کسی سرکاری دستاویز کی حفاظت نہیں کر پائے ۔ یا آپ سے گم ہو گیا تو اس میں ایک کلاز کے مطابق 2 سال قید کی سزا ہے۔

لیکن دوسری صورت یہ اور کلاز یہ ہے کہ اگر آپ نے کوئی سرکاری دستاویز اپنے کسی ذاتی مقاصد کے حصول کے لیے استعمال کی یا اسے پبلک کیا یا افشاں کیا اور اس سے ملکی مفاد اور قومی سلامتی کو نقصان پہنچا ہو تو اس میں 14 سال قید کی سزا درج ہے اس کے مطابق آپ کو 14 سال قید کی سزا ہو گی اور موجودہ سائفر معاملے میں یہی ہوا ہے کہ سب نے دیکھا کہ ایک کلاسیفائفڈ ڈاکومنٹ کو سرعام لہرایا گیا اور ذاتی مقاصد کے لیے استعمال کیا گیا۔ چیئرمین تحریک انصاف نے سائفر کو استعمال کرتے ہوئے قومی سلامتی کو خطرے میں ڈالا۔

9 مئی کے واقعات اور فوجی عدالتوں میں مقدمات سے متعلق سوال پر انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس ماضی میں بھی فوجی عدالتیں قائم ہوئیں ان میں مقدمات بھی چلے اور فیصلے بھی ہوئے۔

آرمی ایکٹ کے تحت سویلین کے ٹرائل پچھلی 5 دہائیوں سے ہوتے آ رہے ہیں۔ 1952 کے آرمی ایکٹ میں 1967 میں بنیادی ترامیم کی گئیں تھیں۔ جن کے تحت سویلین کے ٹرائل کو بھی ممکن بنایا گیا تھا۔ جھنڈا چیچی میں پرویز مشرف پر خود کش حملے کا مقدمہ بھی فوجی عدالت میں چلایا گیا تھا اس میں بھی سویلین کے ٹرائل کیے گئے تھے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp