قدرت کے مظاہر سے مالامال، حسن وصورت میں بے مثال، خوبصورت ’وادی کشمیر‘ جسے نہیں دیکھا تو کچھ نہ دیکھا۔ خوبصورتی، رعنائی، کمال اور جمال میں جس کا ثانی نہیں۔ پریوں کا دیس کبھی سنا ہے؟ بالکل ویسے ہی یہاں کے نظارے۔ خواب وخیال کی دُنیا کبھی افسانوں میں پڑھی ہے؟ بالکل وہی کچھ۔ گنگناتے جھرنے اور آبشار، ٹھنڈی اور شفاف ندیوں کی دلوں کو موہ لینے والی موسیقی، بادلوں کے غلاف میں لپٹے پہاڑ اور سرسبز جنگلات خطے کے جنت نظیر ہونے کی گواہی دیتے ہیں۔ ہر منظر سیاحوں کو اپنے سحر میں ایسا جکڑلیتا ہے کہ جدائی، محبوب کی جدائی محسوس ہو۔
ویسے تو کشمیر کا ہر منظر خوب ہے، لیکن ایک خوبصورت اور دلفریب جھیل رتی گلی بھی ہے جو سیاحوں کی توجہ کا خصوصی مرکز ہے۔ سطح سمندر سے بلند ہونے کی وجہ سے یہ خوبصورت جھیل 9 ماہ برف سے ڈھکی رہتی ہے اور صرف 3 سے 4 مہینے کے لیے ہی سیاحوں کے لیے کھلتی ہے۔ جھیل کی خوبصورتی زبانِ زد عام ہے۔ یہ تعریفیں سن کر کئی بار وہاں جانے کی کوشش کی لیکن شدید برفباری اور کبھی راستہ بند ہونے کی وجہ سے مایوس لوٹنا پڑتا تھا۔ بہرحال رواں برس جولائی میں عرضی منظور ہوئی اور ہمیں بھی اس دلفریب جھیل ’رتی گلی‘ جانے کا اتفاق ہوا۔
نئے ایڈونچر کی تیاری اور جھیل کو دیکھنے کی تڑپ میں معلوم نہ تھا کہ رتی گلی تک پہنچنے کے لیے انتہائی دشوار گزار راستوں سے گزرنا پڑتا ہے۔ ان راستوں میں کہیں بڑے بڑے پتھر ہیں۔ کہیں گلیشیئر تو کہیں ہزاروں فٹ گہری کھائیاں ہیں۔ کئی مقامات پر تو جیپ برف پر ایسے پھسلتی ہے کہ انسان بس موت کو چھو کر واپس آتا ہے۔ لیکن دوسری طرف دلفریب نظارے، بلندو بالا پہاڑ، چوٹیوں پر رقصاں بادل تو کہیں شور مچاتا سفید موتیوں سا پانی ایسا ہم سفر رہتے ہیں کہ خوف پر لطف غالب ہوجاتا ہے۔ وادی کا یہ حسن دل موہ لینے والا ہوتا ہے جو آنکھوں کے رستے سیدھا دل میں اترتا ہے اور انسان حسنِ فطرت پر اش اش کر اٹھتا ہے۔
ہم بھی ہچکولے کھاتی جیپ پر 3 گھنٹے کی مسافت طے کرکے اپنی پہلی منزل رتی گلی بیس کیمپ پہنچ ہی گئے، جہاں خیموں کا ایک شہر سا آباد تھا اور سیاحوں کا رش لگا ہوا تھا۔ ہمیں ٹریکنگ کرکے جلد از جلد جھیل پر پہنچنا تھا لیکن سیاہ بادلوں نے پورےعلاقے کو اپنے گھیرے میں لے رکھا تھا۔ مقامی لوگوں نے تلقین کی کہ ’موسم خراب ہے اس لیے جھیل پر نہ جائیں۔ راستہ کٹھن اور دشوار گزار ہو جائے گا اور واپسی مشکل ہوگی‘۔ لیکن ایسا لگتا تھا جیسے رتی گلی جھیل ہمیں پکار پکار کر کہہ رہی ہے کہ ابھی نہیں تو کبھی نہیں۔ لہٰذا رتی گلی جھیل کی چاہت میں ہم ان ہدایات کو نظر انداز کرتے ہوئے آگے بڑھتے رہے۔
کیچڑ اور برف پر قدم جمانا بہت مشکل ہو رہا تھا۔ اس لیے ہم نے دگنے پیسے دے کر گھوڑوں پر جانے کا فیصلہ کیا۔ یہ گھوڑے مسافروں کو جھیل تک پہنچاتے ہیں لیکن گھوڑے کا پاؤں پھسلنے کی صورت گھوڑے اور سوار کی اجتماعی قربانی کا اندیشہ بھی رہتا ہے اور ایسا ہی ہمارے ساتھ ہوا۔ ہمارا گھوڑا جس کا نام ’دِل جلے‘ تھا اچانک سلپ ہوگیا۔ اگلے ہی لمحے سنبھل کر وہ اپنی اور ہماری جان بچانے میں کامیاب رہا۔ جان بچنے کے بعد گھوڑے سے زیادہ اپنے پاؤں پر بھروسہ کرنا پڑا، کیونکہ جان ہے تو جہان ہے اور پیدل ہی چلنا شروع کردیا۔
ہمارے سامنے ابھی ایک چٹان نما چوٹی موجود تھی جس کو عبور کرنے کے بعد ہی ہم اپنی منزل پر پہنچ سکتے تھے۔ بالآخر مزید آدھے گھنٹے کی ٹریکنگ کے بعد خوابوں کا سفر ختم ہوا، اور تصویروں میں حسرت سے دیکھی جانے والی رتی گلی جھیل آج حقیقت کا روپ دھارے ہمارے سامنے تھی۔ برف پوش پہاڑوں میں گھری۔ روح کو سرشار کردینے والا نیلگوں پانی، سرسبز وادی اور وسیع و عریض میدان۔ جیسے یہ حقیقت نہیں، خواب ہو۔ پہلا منظر ہی اتنا ہوش رُبا تھا کہ سفر کے تمام مصائب بھول گئے۔ گنگ زبان سے بے ساختہ سبحان اللہ ادا ہوا جو شان کبریائی کا اعتراف تھا۔ دل بے اختیار بول اٹھا کہ کچھ خوابوں کی تعبیر بہت خوبصورت ہوتی ہے۔ وہ منظر ایسا دلکش تھا جسے بیان کیا ہی نہیں جا سکتا۔
کچھ دیر بعد موسم نے انگڑائی لی اور جھیل پر منڈلاتے آوارہ بادل گنگناتی بوندوں کی طرح برسنے لگے۔ ہلکی بارش نے مناظر کی دلربائی دو آتشہ کر دی تھی۔ جیسے کوئی خوبرو حسینہ زُلفوں کو رُخ پہ ڈال کر جھٹکا دے رہی ہو۔ یخ بستہ سردی کی پرواہ کیے بغیر جھیل کنارے ایک بڑے پتھر پر بیٹھ کر دیر تک قدرت صناعی سے لطف اندوز ہوتی رہی۔ موسم نے اپنا رنگ دکھانا شروع کیا تو گہرے بادلوں نے پوری وادی کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ یہ ایسا دھواں دھواں سا خوابناک منظر تھا جیسے ہم بادلوں میں اڑنے لگے ہیں۔
شام کی لالی سرمئی بادلوں میں گھلنے لگی تو ملگجی اندھیرے نے ہمیں لوٹ جانے پر مجبور کردیا۔ یوں بجھے دل کے ساتھ واپسی کا فیصلہ کیا کیونکہ سردی کی شدت ناقابل برداشت ہوتی جا رہی تھی۔ واپسی پر چڑھائی اور اترائی کسی بھی ایڈونچر سے کم نہ تھی۔ طوفانی بارش تھی کہ رکنے کا نام نہیں لے رہی تھی۔ گلیشیئرز اور کچے راستوں پر خطرناک ہائیکنگ کرتے ہوئے ہم واپس رتی گلی بیس کیمپ پہنچے لیکن تمام کیمپ فل تھے اور ہمارے پاس واپسی کے علاوہ کوئی چارہ نہ تھا۔ شدید ٹھنڈ، تیز بارش اور سرد ہوا زوروں پر تھی۔
یوں صبح سویرے پہاڑوں کی چوٹیوں پر پڑنے والی پہلی کِرن کو دیکھنے اور پُر اسرار چاندنی راتوں میں کھلے آسمان تلے آنکھ مچولی کھیلتے جھلملاتے تاروں کے ہمراز ہونے کا ارمان دل میں لیے واپسی کی راہ لی لیکن ابھی عشق کے امتحاں اور بھی تھے۔ گلیشیئرز سے گزرتے ہوئے گاڑی بار بار پھسل رہی تھی۔ وادی مکمل طور پر بادلوں کے گھیرے میں آ چکی تھی اور حدِنگاہ صفر تھی۔ یہاں تک کہ گاڑی بند ہوگئی۔
ہمارے ساتھ ساتھ جیپ ڈرائیور بھی خوف زدہ تھا کہ گاڑی اسٹارٹ نہ ہوئی تو ہمیں رات طوفانی بارش میں گاڑی میں ہی گزارنا پڑے گی۔ نہ کھانے کا انتظام نہ آگ جلانے کا سامان۔ گیلے کپڑوں میں سردی سے ٹھٹھرتے ہوئے رات بسر کرنا پڑے گی۔ ڈرائیور صاحب نے رہی سہی کسر یہ کہہ کر پوری کردی کہ ’زندگی میں برے سے برا کام کرنے کا بھی دل کرے تو بھی ان راستوں پر ڈرائیونگ مت کرنا‘۔ لیکن پھر جان میں جان آئی جب فریاد سنی گئی اور بار بار بند اور سٹارٹ ہوتی رینگتی لڑکھڑاتی جیپ نے انگڑائی لی۔
اسی دوران میں سوچنے لگی کہ ان سیاحتی مقامات پر وہ توجہ نہیں دی جاسکی جس کے یہ متقاضی ہیں۔ سیاحت کو صنعت کا درجہ دے کر اور سیاحوں کو بنیادی سہولیات فراہم کرکے کشمیر، شمالی علاقہ جات اور دیگر تفریحی مقامات سے قومی خزانے کے لیے اربوں روپے کا زرمبادلہ اکٹھا کیا جا سکتا ہے۔ لیکن ہر آنے والی حکومت سیاحت کے فروغ کے بلند بانگ دعوے تو کرتی ہے، عملی اقدام اٹھانے سے گریزاں رہتی ہے۔ یہاں ہم جس صورتِ حال سے دوچار ہیں، کیا کوئی ہماری مدد کو آسکے گا؟ ہمارے علاوہ یہاں ہزاروں لوگ آتے ہیں، کیا یہاں مشکل کا شکار ہو کر کوئی سرکاری اہلکار ان کی مدد کو آسکے گا؟ دوران سیزن ہوٹلوں اور ہٹس کے کرائے کئی کئی گنا بڑھا دیے جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ کھلی زمین پر کیمپنگ کے چارجز بھی وصول کئے جاتے ہیں، وہ بھی ہزاروں روپے سے کم نہیں ہوتے۔ لیکن کوئی پوچھنے والا نہیں ہوتا۔
اسی طرح دشوار گزار کچے رستے جنہیں پکا کرنا حکومتی ذمہ داری ہے، وہاں عام شہری گاڑیاں لے جانے سے گھبراتے ہیں کہ رستے بھی پر خطر ہوتے ہیں اور وہاں پارکنگ کا کوئی انتظام ہوتا ہے نہ گاڑی کی حفاظت کا کوئی ذمہ دار۔ سیاحوں کی اس مجبوری کا فائدہ بھی وہاں موجود جیپ اور گھوڑے والے اٹھاتے ہیں، لیکن ان کے منہ مانگے کرائے بھی اتنے زیادہ ہیں کہ بندہ بائی ایئر کراچی چلا جائے۔
پر فضا تفریحی مقامات پر سیاحتی ڈھانچے کا فقدان ہے۔ مناسب سڑکیں موجود نہیں۔ مناسب ہوٹلز موجود نہیں۔ جو ہیں ان کی حالت نہ گفتہ بہ ہے۔ بپلک ٹوائلٹس موجود نہیں۔ مرد حضرات تو جیسے تیسے گزارا کرلیتے ہیں، سیاح خواتین کو اذیت سے گزرنا پڑتا ہے۔ ہوٹلز میں واش روم جانے کے اچھے خاصے پیسے مانگتے ہیں۔ پھر تفریحی مقامات پر سیکیورٹی کا کوئی انتظام نہیں۔ بغیر مردوں کے آنے والے خواتین کے گروپ بھی سہمے سہمے رہتے ہیں۔ بس ہم جیسے سرپھرے ہی ہمت کرکے پہنچ جاتے ہیں۔
پھر رہی سہی کسر ہماری حرکات سے پوری ہوجاتی ہے۔ صفائی نصف ایمان ہے پر ایمان رکھنے والے پاکستانی سیاحوں نے طوفان بدتمیزی مچا رکھا ہوتا ہے۔ سفید اجلے گلیشیرز پر بھی جابجا ڈائپرز اور کوڑا بکھرا ملتا ہے۔ میں گواہ ہوں کہ غیر ملکی سیاح اپنا کوڑا اور بیکار اشیا اپنے ساتھ لائے شاپرز میں بھر کر واپس لا کر اپنے ہوٹلز کے کوڑا دان میں ڈالتے ہیں۔ لیکن دوسری طرف گندگی صاف ستھرے، اجلے ماحول اور منظر کو گہنا رہی ہوتی ہے۔
اگر ہم کچھ خود بھی خیال کرلیں تو کیا حرج ہے!!! دنیا بھر میں جن خطوں کی خوبصورتی کے چرچے ہیں۔ وہاں خالق کی تخلیق پر مخلوق بھی جان نچھاور کرتی ہے۔ اگر ہم اپنے مزاج بدل لیں اور حکومت اپنے انداز بدل لے تو کیا شک ہے کہ ہمارے ان خوبصورت مقامات کو دیکھنے جہان آیا کرے۔