انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں تشدد کے تازہ ترین لہر میں چھ دنوں کے اندر 10 افراد ہلاک ہوگئے ہیں۔
خبر رساں ادار اے ایف پی نے حکام کے حوالے سے بتایا ہے کہ تشدد کے تازہ واقعات وادی کے ہندو اکثریتی جموں کے علاقے میں رپورٹ ہوئے ہیں۔ ان کے مطابق گذشتہ چھ دنوں کے دران دس افراد ہلاک ہوگئے ہیں۔
کشمیر میں باغی گروپ کئی دہائیوں سے کشمیر کی آزادی یا اس کے پاکستان کے ساتھ الحاق کرانے کے لیے لڑرہے ہیں۔
کشمیر میں انڈیا نے تقریبا پانچ لاکھ سے زائد فوجی تعینات کر رکھا ہے اور اس کے جنوبی علاقہ جموں ہندو اکثریتی اور نسبتاً پرامن ہے۔
پولیس آفیسر مکیش سنگھ کے مطابق انڈیا مخالف دو بندوق بردار باغیوں نے اتوار کو
دورافتادہ گاؤں ڈانگری میں گاؤں والوں پر فائرنگ کر دی جس کے نتیجے میں چار افراد ہلاک اور پانچ زخمی ہوگئے۔
جس کے بعد پولیس اور سکیورٹی فورسز نے لائن آف کنٹرول کے ساتھ علاقے میں سرچ آپریشن شروع کر دی۔
ایک اور پولیس آفیسر نے اے ایف پی کو بتایا کہ پیر کو ایک دھماکے میں ایک شخص اور سات سالہ بچہ ہلاک ہوگئے۔ ان کے مطابق جائے وقوعہ کے پاس ایک بم بھی ملا جو پھٹا نہیں جس کو خصوصی سکواڈ نے ناکارہ بنا دیا۔
ان ہلاکتوں کے بعد بدھ کو ایک چیک پوسٹ پر مبینہ شدت پسندوں اور سکیورٹی فورسز کے درمیان جھڑپ ہوئی۔ پولیس کے مطابق جھڑپ میں چار مشتبہ باغی ہلاک ہوگئے جب کہ ان کے ٹرک کا ڈرائیور موقع سے فرار ہوگیا۔
حکام کے مطابق گذشتہ سال جھڑپوں میں 172 مشتبہ شدت پسند اور 26 فوجی اہلکار ہوگئے تھے۔
انڈیا کے زیرانتطام کشمیر میں گذشتہ پانچ سالوں سے منتخب حکومت نہیں اور اس براہ راست دہلی سے کنٹرول کیا جارہا ہے۔
انڈیا تواتر سے پاکستان پر باغیوں کی مدد کا الزام لگاتا ہے جس کو اسلام آباد مسترد کرتا ہے۔
پاکستان کا کہنا ہے کہ وہ کشمیرویوں کی حق خود ارادیت کی جدوجہد کی سفارتی اور اخلاقی سطح حمایت کرتی ہے۔