سعودی تجزیہ کار سلمان الانصاری نے کہاکہ اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) جلد ہی سویڈن کے لیے کوئی متفقہ فیصلہ جاری کرے گی، اگر سویڈش حکومت نفرت پھیلانے کے حوالے سے اپنے قوانین کو تبدیل نہیں کرتی تو او آئی سی کارروائی ضرور کرے گی۔
عرب نیوز کے مطابق سلمان الانصاری نے کہاکہ سویڈن مسلم ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات کو خطرے میں ڈال رہا ہے، سویڈش حکومت کو چاہیے کہ اپنے قانون کو بدلیں اور اگر ایسا نہیں کریں گے تو او آئی سی ضرور کوئی متفقہ فیصلہ جاری کرے گی۔
انہوں نے کہاکہ سویڈن کی حکومت اور اس کا قانونی نظام انتہا پسندوں اور بنیاد پرستوں کو نفرت پھیلانے کا موقع دے رہا ہے جو کہ درست نہیں ہے، اس معاملے پر تمام مسلم ممالک کو اکٹھا ہونے کی ضرورت ہے اور جلد کوئی متفقہ لائحہ عمل اپنانا ضروری ہے۔
سلمان الانصاری نے اتوار کو سویڈین کے لیے جاری ہونے والے او آئی سی کے مذمتی بیان کے بعد اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ ڈنمارک اور سویڈن میں ہونے والے مسلم مخالف واقعات کے سلسلے میں اس تازہ ترین واقعے نے ایک سفارتی طوفان برپا کردیا ہے، جس سے اب نورڈک ریاستوں کے مسلم دنیا کے ساتھ تعلقات کو خطرہ لاحق ہے۔
رواں ہفتے بھی سویڈش عراقی سلوان مومیکا نے قرآن کی بے حرمتی کی، اسی شخص نے چند ہفتے قبل بھی اسٹاک ہوم کی ایک مسجد کے باہر مقدس کتاب کے صفحات کو آگ لگا دی تھی۔
اسی سال جنوری میں ڈنمارک کی ایک انتہائی دائیں بازو کی جماعت کے رہنما راسموس پالوڈن نے بھی اسٹاک ہوم میں ترکی کے سفارت خانے کے سامنے قرآن کا ایک نسخہ نذر آتش کر دیا تھا۔
مزید پڑھیں
اسلامی دنیا کے تمام مسلم رہنماؤں اور حکومتوں نے ان کارروائیوں کی مذمت کی ہے، جن کی مقامی حکام نے بظاہر آزادی اظہار کے حق کے مطابق اجازت دی تھی۔
اتوار کو ایک بیان میں، او آئی سی کے سیکرٹری جنرل، حسین ابراہیم طحٰہ نے اسلامی مقدسات کی خلاف ورزی کے بار بار ہونے والے واقعات پر اپنے گہرے عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس طرح کی کارروائیاں مذہبی منافرت، عدم برداشت اور تفریق کو ہوا دیتی ہیں جس کے خطرناک نتائج برآمد ہوں گے۔
اس بارے میں بات کرتے ہوئے سلمان الانصاری نے کہا کہ کسی بھی مقدس کتاب کے نسخے کو جلانا چاہے وہ قرآن پاک ہو، انجیل ہو، تورات ہو یا کوئی بھی مقدس کتاب، قطعی طور پر قابل نفرت اور ناقابل جواز ہے، اور یہ انتہائی نفرت انگیز عمل ہے۔ اگر یہ نفرت نہیں ہے تو پھر نفرت کیا ہے؟
انہوں نے سویڈش حکام کو منافق قرار دیتے ہوئے کہاکہ سویڈن میں دائیں بازو کی جماعتوں کے رہنما نازی نعرے استعمال کرنے پر قانونی چارہ جوئی کا سامنا کر رہے ہیں جبکہ مسلم مخالف کارروائیوں پر کسی کو کوئی سزا نہیں دی گئی۔
انکے مطابق سویڈش حکومت اپنے دلائل میں کہتی ہے کہ قرآن کو جلانا یا کسی مقدس کتاب کو جلانے کا عمل آزادی اظہار کا حصہ ہے، ان سے پوچھا جائے کہ نازی ازم کے نعرے لگانا آزادی اظہار نہیں؟
انہوں نے کہا کہ “ہم صرف یہ چاہتے ہیں کہ سویڈش حکومت اپنے ان تمام اقدمات کا ایک معقول جائزہ لے، کیونکہ سویڈش حکومت انتہا پسندوں کے ایک گروہ کو خوش کرنے کے لیے 57 مسلم ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات کو خطرے میں نہیں ڈالنا چاہے گی۔